وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گندم امدادی پیکج کے فوری اجرا کی ہدایت کردی

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گندم امدادی پیکج کے فوری اجرا کی ہدایت کردی

گندم کی بروقت کاشت کےلیے یوریا اور ڈی اے پی کے پیسوں کی فراہمی شروع کی جائے، وزیراعلیٰ

4 لاکھ 12 ہزار کسانوں کو 55 ارب روپے کا پیکج دیا جا رہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ

وزیراعلیٰ نے رجسٹریشن کی تاریخ میں 8 نومبر تک توسیع کردی

کراچی (31 اکتوبر): وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گندم کے کاشتکاروں کے لیے 2025 کے امدادی پروگرام کے سلسلے میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے محکمہ زراعت کو ہدایت دی کہ صوبے بھر میں گندم کی بروقت کاشت کے لیے چھوٹے کسانوں کو یوریا اور ڈی اے پی کھادیں خریدنے میں مدد دینے کے لیے فنڈز کی فوری فراہمی شروع کی جائے۔

سندھ میں گندم کی کاشت کا موسم اکتوبر کے آخر میں شروع ہوتا ہے اور دسمبر کے آخر تک جاری رہتا ہے جو مختلف علاقوں اور آبپاشی کی صورتحال پر منحصر ہے۔ بالائی سندھ کے اضلاع سکھر، لاڑکانہ، خیرپور اور گھوٹکی میں کاشت عام طور پر اکتوبر کے آخر میں شروع ہوکر نومبر تک جاری رہتی ہے جبکہ زیریں سندھ کے اضلاع حیدرآباد، میرپورخاص، بدین اور ٹھٹھہ میں کاشت نومبر کے وسط میں شروع ہوکر دسمبر کے آخر تک جاری رہتی ہے۔ یہ عمل زیادہ تر خریف فصل کے بعد نہری پانی کی دستیابی اور نہروں کی صفائی کے شیڈول پر منحصر ہوتا ہے۔ سندھ میں گندم کی کٹائی عام طور پر مارچ کے آخر سے مئی کے اوائل تک ہوتی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ نے زور دیا کہ امدادی پروگرام حقیقی اور چھوٹے کسانوں تک بلا تاخیر پہنچنا چاہیے تاکہ کاشت کے موسم کے اختتام سے قبل زیادہ سے زیادہ کسان مستفید ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد گندم کی ملکی ضرورت میں خودکفالت حاصل کرنا ہے تاکہ ملک کو گندم درآمد نہ کرنی پڑے اور مقامی کاشتکاروں کی مدد سے قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکے۔

یہ اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیئر صوبائی وزیرِ شرجیل انعام میمن، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ، وزیرِ اعلیٰ کے سیکریٹری رحیم شیخ، سیکریٹری زراعت زمان ناریجو اور دیگر افسران شریک ہوئے۔

یاد رہے کہ سندھ حکومت نے 23 ستمبر 2025 کو اصولی طور پر کسانوں کو ڈی اے پی اور یوریا “اجناس کی شکل میں” فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔ بعد ازاں، 24 اکتوبر 2025 کو سندھ کابینہ نے شفافیت اور کارکردگی کو یقینی بنانے کے لیے براہِ راست نقد امداد کے ایک نئے نظام کی منظوری دی۔

اس نظام کے تحت فی کسان فی ایکڑ 14 ہزار روپے ڈی اے پی کھاد کی خریداری کے لیے فراہم کیے جائیں گے۔ تصدیق کے بعد فی کسان فی ایکڑ 8 ہزار روپے دو یوریا بیگ کے لیے دیے جائیں گے۔ منصوبے کی مجموعی لاگت تقریباً 55 ارب روپے ہے جس کے تحت 22 لاکھ 60 ہزار ایکڑ گندم کی کاشت پر 4 لاکھ 12 ہزار کسانوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔

شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے محکمہ زراعت نے ایک جامع ڈیجیٹل مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام تیار کیا ہے جس میں فیلڈ اسسٹنٹس کے لیے اینڈرائیڈ ایپس (آن لائن اور آف لائن دونوں) کے ذریعے ڈیٹا اندراج کا نظام شامل ہے۔ مختیارکاروں کے لیے ایک تصدیقی ایپ زمین کے ریکارڈ کی فوری جانچ کی سہولت فراہم کرتی ہے جبکہ ہیڈ آفس اور اضلاع میں لائیو مانیٹرنگ کے لیے مرکزی ڈیش بورڈز قائم کیے گئے ہیں۔ کسانوں کو رقم کی منتقلی کی اطلاع خودکار ایس ایم ایس کے ذریعے دی جائے گی۔

ہر فیلڈ اسسٹنٹ اور مختیارکار کو ایک شناختی نمبر (آئی ڈی) دیا گیا ہے اور تمام تصدیقی ڈیٹا جی پی ایس کوآرڈینیٹس سے منسلک کیا گیا ہے تاکہ درستگی یقینی بنائی جا سکے اور دوہری اندراج روکی جا سکے۔ کسانوں کے شناختی کارڈ، تصاویر، فارم 7 ب اور فوتی کھاتہ کی صورت میں حلف نامے سمیت تمام دستاویزات براہِ راست ایپ کے ذریعے اپ لوڈ کیے جاتے ہیں۔

مراد علی شاہ نے محکمہ زراعت کی ڈیجیٹل اصلاحات کو سراہا تاہم افسران کو ہدایت کی کہ شمولیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ کسی اہل کسان کو دستاویزی مسائل کی وجہ سے محروم نہ رکھا جائے۔ وزیرِ اعلیٰ نے گندم کے کاشتکاروں کے وسیع تر دائرے کو شامل کرنے کے لیے ایک ہفتے کی توسیع کی منظوری دی جو اب 8 نومبر 2025 تک ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ امداد ہمارے چھوٹے کسانوں کے لیے آنے والے گندم کے موسم کی تیاری میں نہایت اہم ہے۔ ہمیں شفافیت، بروقت ادائیگی اور تمام مستحق کسانوں کے لیے مساوی رسائی کو یقینی بنانا ہوگا۔

عبدالرشید چنا
میڈیا کنسلٹنٹ، وزیراعلیٰ سندھ