ریاست بہاول کے تاریخی ورثے کی تباہی و بربادی ریاست بہاول پور کے نواب صبح صادق نے 1867 میں اپنے زاتی سرمائے سے عالی شان سمندری/بحری جہاز بنوایاجو کہ نواب فیملی دریائےستلج جوکہ ریاست اور انگریز زیر انتظام علاقہ ملتان کے درمیان بہتا تھا میں سیر وسیاحت کی غرض سے اپنے زیر استعمال لاتی رہی اس جہاز میں تین پورشن تھے سب سے نچلے حصے میں جہاز کا عملہ رہتا تھا درمیانی حصہ نواب فیملی کے لئے مختص تھا جہاں پر ایک اوپن روم بھی قائم تھا جبکہ اوپری حصہ جو کہ کھلے یارڈ (صحن) پر مشتعمل تھا میں ایک مسجد اور کپتان روم واقع تھا جہاز میں لائیٹ کے لئے جنریٹر سسٹم بھی نصب تھا جہاز کو چلانے کے لئے طاقتور ڈیزل انجن لگا ہوا تھا اپنے عروج کے زمانے میں اعلیٰ بیرونی وفود اور نواب صاحب کی فیملی کے ساتھ جہاز میں سیر وسیاحت پر آتے رہتے تھے بعد ازاں نواب جنرل صادق محمد خان عباسی نیں لودھراں اور بہاولپور کے درمیان مسافروں کی آمدورفت کے لئے مخصوص کر دیا جب پاکستان بننے کے بعد دریائی پانیوں کے معاہدے ہوئے اور ستلج میں پانی کم ہونا شروع ہوا نیز پل کی تعمیر ہونا شروع ہوئی تو نواب صاحب نیں 1957 میں اسے غازی گھاٹ پر بھیج دیا جہاں پر یہ ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے درمیان مسافروں کی آمدورفت کیلئے استعمال ہوتا رہا تاہم پانی کے تیز بہاؤ کے پیش نظر اسکو نواب صاحب نے خواجہ غلام فرید صاحب کے پاس آنے جانے استعمال میں لایا گیا جہاں پر یہ چاچڑاں شریف اور کوٹ مٹھن شریف کے درمیان عقیدت مندوں اور دیگر مسافروں کی باربرداری کیلئے استعمال ہوتا رہا جسے قادر بخش نامی ملاح (کپتان) جو کہ محکمہ ہائی وے کا ملازم بھی تھا چلاتا تھا جب سردیوں میں دریائے سندھ میں پانی کم ہو جاتا اور کشتیوں کا پل ڈال کر آمدورفت کے راستہ بنایا جاتا تو اس جہاز کی ضروری مرمت بھی کر دی جاتی دریائے سندھ جسکو انڈس ریور بھی کہا جاتا ہے میں چلنے کی وجہ سے اسکا نام ستلج کوئین سے تبدیل کرکے انڈس کوئین رکھ دیا گیا 1998 تک یہ جہاز دریائے سندھ میں چلتا ریا بعد میں جب بے نظیر پل چالو ہوا تو اس پر لوگوں کی آمدورفت بھی کم ہوتی چلی گئی اور بعدازاں اسکو بند کر کے راجن پور اور کوٹ مٹھن کے درمیان پل سے زرا دور کر کےلنگر انداز کر دیا گیا اسطرح ایک شاندار جہاز جس پر 400 کے لگ بھگ لوگ ایک وقت میں سفر کرتے تھے اور 400 لوگوں کے لئے ریسٹورنٹ بھی موجود تھا یوں اس کا سفر اختتام پزیر ہو گیا پاکستان سے الحاق کے بعد اسکا کافی سامان چوری ہو گیا ہے یہ اپنی بے بسی کی تصویر بنا ریت میں دھنسا پڑا ہے 2010 کے سیلاب میں پانی اس جہاز کے اوپر سے گزر گیا یہ جہاز کیچڑ سے لت پت ہو گیا اس سے کچھ فاصلے پر ایک سٹیمر اور دو کشتیاں بھی اپنی بے بسی پہ نوحہ کناں ہیں نواب آف بہاول پور کے پوتے شہزادہ عثمان خان عباسی ( سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی) نیں کہا بہاول پور کی یاد گاروں بہاول پور ریاست کے عوام کے آثار قدیمہ ریاست کی تاریخی عمارتوں ثقافت ورثہ کے ساتھ جو امتیازی سلوک روا رکھا ھے اس کی ایک مثال ” انڈس کوئین” ھے اس قیمتی تاریخی ورثے کو مزید برباد ہونے سے بچایا جائے اسے سیاحت کے فروغ کیلئے استعمال کیا جائے اگر اسکی دیکھ بھال نہ کی گئی تو یہ قصہ پارینہ بن جائے گا اس عظمت رفتہ کی نشانی کو محفوظ کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ نواب آف بہاول پور کی یاد گار نشانی ہے اسلئے حکومت پنجاب اور بہاولپور انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اسے واپس بہاول پور لا کر اس کی مرمت اور اسلی حالتِ میں بہال کیا جائے اور نادر تاریخی ثقافتی ورثہ کو محفوظ کیا جائے اس کو اس لئے جان بوجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے کہ اسکا تعلق عباسی خاندان اور ریاست بہاول پور سے ھے جن کی لازوال خدمات ہیں پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے کیا احسانات کرنے والوں کو یہ سلہ دیا جاتا ھے جس کی حالت آپ کو نظر آرہی ھے ورنہ چند سال بعد اس کا ڈھانچہ بھی ناکارہ قرار دے کر سکریپ کے طور پر بیچ دیا جائے
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments























