بہار نگر ڈرامہ ناظرین کی دلچسپی میں اضافہ

“بہار نگر” دراصل ایک ایسے متوسط طبقے کے محلے کی کہانی ہے جس کی رہائشی ایک امیر اور طاقتور خاتون، شہناز (ہینا دلپذیر) کے ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔ شہناز اپنی دولت، سیاسی اثر و رسوخ اور جارحانہ ذہنیت کی بدولت پورے محلے پر راج کرتی ہے۔ اس کے برعکس، شیریں (جویریہ سعود) ایک غریب مگر باعزت گھرانے کی خاتون ہیں جو اپنی بیٹی کی خاطر شہناز کے مظالم کو خاموشی سے سہتی رہتی ہیں۔ شیریں کی بیٹی، زویا (صبا حمید) کو شہناز کے بیٹے، عمر (احسن خان) سے محبت ہو جاتی ہے، جو ایک نرم دل نوجوان ہے۔ یہ محبت ہی وہ چنگاری ہے جو شہناز اور شیریں کے درمیان چھپی ہوئی پرانی دشمنی اور موجودہ طبقاتی کشمکش کو آگ بنا دیتی ہے۔

ہینا دلپذیر بطور “شہناز”: ولن کی شاہکار تشکیل
ہینا دلپذیر کو پاکستانی ٹیلی ویژن کی تاریخ کی سب سے بڑی “ولن” کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اور “بہار نگر” میں ان کا کردار “شہناز” ان کی اس شہرت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ شہناز صرف ایک ولن نہیں، بلکہ ایک ایسا کردار ہے جس کی جڑیں نفسیاتی گہرائی میں پیوست ہیں۔ ہینا نے اس کردار میں ایسی جان ڈالی کہ ناظرین کبھی تو اس سے سخت نفرت کرتے نظر آتے تھے تو کبھی اس کی مجبوریوں پر ترس کھانے پر مجبور ہو جاتے تھے۔

شہناز کی آنکھوں میں چمکتی ہوئی حکمرانی کی خواہش، بات کرنے کا تکبر آمیز انداز، چال میں رقص کرتی ہوئی شیطانی مسکراہٹ، اور غصے میں بھی پراعتماد آواز… ہینا دلپذیر نے کردار کے ہر پہلو کو اس طرح نبھایا کہ شہناز ایک کاغذی کردار نہ رہ کر ایک حقیقی شخصیت بن گئی۔ وہ جب بھی اسکرین پر آتیں، سامعین کی سانسیں رک سی جاتی تھیں۔ ان کی اداکاری کا یہ عالم تھا کہ ان کے ڈائیلاگ، جیسے “تمہیں پتہ ہے تم کس سے بات کر رہی ہو؟” یا “میں شہناز ہوں، میں وہ کرواتی ہوں جو میں چاہوں”، ناظرین کے دلوں اور ذہنوں پر نقش ہو گئے۔ ہینا نے شہناز کے کردار کو اس کی تمام تر کڑواہٹ کے باوجود ایک ایسی عورت کے طور پر بھی پیش کیا جو درحقیقت اپنے ماضی کے دکھوں اور معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد کی وجہ سے ایسی بنی تھی۔ یہی وہ جہت تھی جس نے شہناز کو ایک یک طرفہ ولن نہیں بلکہ ایک کثیر الجہت اور یاد رہنے والا کردار بنا دیا۔

جویریہ سعود بطور “شیریں”: صبر کی پیکر مگر جواں مرد عورت
جویریہ سعود کی اداکاری کی خاص بات ان کی سادگی، سچائی اور فطری پن ہے۔ “بہار نگر” میں ان کا کردار “شیریں” انہی خوبیوں کا مرقع تھا۔ شیریں ایک ایسی ماں ہے جو اپنی اولاد کی خاطر ہر ظلم اور ہر مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کو تیار ہے۔ وہ غربت اور لاچاری کی دلدل میں پھنس چکی ہے مگر اس کے باوجود اس کے اندر ایک ایسی مضبوطی ہے جو اسے کبھی جھکنے نہیں دیتی۔

جویریہ سعود نے شیریں کے کردار میں جذبات کی ایسی پرتین دکھائیں کہ ناظرین ان کے ساتھ روئے بغیر نہ رہ سکے۔ ان کی آنکھیں ہی سب کچھ کہہ دیتی تھیں۔ خواہ وہ اپنی بیٹی کے لیے ان کی محبت کے جذبات ہوں، شہناز کے ظلم کے سامنے بے بسی کا احساس ہو، یا پھر اپنی غیرت اور خودداری کی خاطر آخری حد تک لڑنے کا عزم۔ جویریہ نے شیریں کو ایک عام سی عورت سے ایک ہیروئن میں تبدیل ہوتے دکھایا۔ ان کی پرامن اور شریف طبیعت کے باوجود، جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب بس کافی ہے، تو ان کے اندر سے نکلی ہوئی طاقت نے ناظرین کو دنگ کر دیا۔ شیریں اور شہناز کے درمیان ہونے والے جھڑپوں میں، جویریہ کی پر سکون مگر پُرعزم آواز نے ہینا کی بلند اور طاقتور آواز کا ہمیشہ مقابلہ کیا۔ یہ دونوں اداکارائیں اپنی اداکاری کے ذریعے دراصل دو متضاد قوتوں کی نمائندگی کر رہی تھیں: ایک طاقت اور دھونس کی، اور دوسری صبر اور سچائی کی۔

شہناز اور شیریں کی کشمکش: مرکزی کشش
“بہار نگر” کی سب سے بڑی کشش ان دونوں مرکزی کرداروں کے درمیان چلنے والی کشمکش تھی۔ یہ محض دو عورتوں کی لڑائی نہیں تھی، بلکہ یہ طاقت اور انصاف، دولت اور اخلاق، ظلم اور استقامت کی لڑائی تھی۔ ہر سین جس میں شہناز اور شیریں اکٹھے ہوتے، ڈرامے میں ایک نئی حرارت پیدا ہو جاتی۔ ناظرین بے چینی سے اس بات کا انتظار کرتے کہ آیا آج شیریں شہناز کے ظلم کے آگے گھٹنے ٹیکے گی یا اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی۔

اس کشمکش نے ڈرامے کو صرف تفریح فراہم کرنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس نے معاشرے میں پائی جانے والی طبقاتی تفریق، دولت کے ناجائز استعمال، اور عام آدمی کے مسائل کو بھی بہت خوبصورتی سے اجاگر کیا۔ شہناز کا کردار اس طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر ہر چیز پر قابو پانا چاہتا ہے، جبکہ شیریں اس عام آدمی کا استعارہ ہے جو ان حالات میں بھی اپنی عزتِ نفس کو قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

نتیجہ: ایک شاہکار ڈراما
“بہار نگر” کو جس کامیابی نے نوازا، اس کی سب سے بڑی وجہ ہینا دلپذیر اور جویریہ سعود کی شاندار اداکاری تھی۔ ان دونوں نے نہ صرف اپنے اپنے کرداروں کو زندہ کیا بلکہ ایک دوسرے کی اداکاری کو تقویت بخشی۔ ہینا کی طاقتور پرفارمنس کے بغیر شیریں کا کردار اس طرح ابھر کر سامنے نہ آتا اور اسی طرح جویریہ کی نرم مگر مضبوط موجودگی کے بغیر شہناز کی شرانگیزی اس طرح عیاں نہ ہو پاتی۔

یہ ڈراما اپنے مضبوط اسکرپٹ، بہترین ہدایت کاری اور معاون کرداروں (جیسے صبا حمید، احسن خان وغیرہ) کی بہترین پرفارمنس کی وجہ سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ لیکن “بہار نگر” کی روح ہینا دلپذیر اور جویریہ سعود ہی تھیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ جب دو عظیم اداکارائیں اپنے فن کے جوبن پر ہوں تو وہ ایک عام سی کہانی کو بھی ایک لازوال داستان میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ “بہار نگر” نہ صرف پاکستانی ڈرامے کا ایک روشن ستارہ ہے بلکہ ہینا اور جویریہ کے