گوادر کا خوبصورت سفر ….. سیاحتی مقام اور ملک کا اقتصادی مرکز….
پاکستان کا خوابِ آفریں شہر: گوادر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت دنیا بھر میں مسلمہ ہے۔ یہ ملک جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے، جس نے اسے تاریخ میں ہمیشہ ایک اہم مقام دیا ہے۔ لیکن اس جغرافیائی محل وقوع کی حقیقی معنویت اور اس کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کا دارومدار اس کے ساحلوں پر ہے۔ اور انہی ساحلوں پر واقع ہے ایک ایسا شہر جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے – یہ شہر ہے گوادر۔
گوادر، بلوچستان کے جنوب مغربی ساحل پر واقع، بحیرۂ عرب کا ایک چمکتا ہوا موتی ہے۔ یہ صرف ایک بندرگاہ نہیں، بلکہ ایک خواب ہے، ایک وژن ہے، ایک ایسی اقتصادی شاہ رگ ہے جسے “پاکستان کا دل” کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس مضمون میں ہم گوادر شہر کی تاریخی اہمیت، اس کی جغرافیائی فوقیت، چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) میں اس کے مرکزی کردار، موجودہ ترقیاتی منصوبوں، اور مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالیں گے۔
تاریخی پس منظر: قدرتی تحفے کی بازیافت
گوادر کی تاریخ اس کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وقت کے ساتھ یہ خطہ مختلف حکمرانوں کے زیرِ نگین رہا۔ ایک وقت تھا جب 1783ء میں مسقط کے سلطان نے گوادر کو خانِ قلات کے حوالے کیا تھا۔ بعد ازاں، 1958ء میں پاکستان کی نو جوان مملکت نے اسے عمان کے سلطان سے حاصل کیا، جس کی باقاعدہ قیمت ادا کی گئی۔ یہ قدم درحقیقت قائدِ اعظم محمد علی جناح کی دور اندیشی کی عکاسی تھا، جنہوں نے پاکستان کے لیے ایک Strategic Depth کے طور پر گوادر کی اہمیت کو بہت پہلے بھانپ لیا تھا۔ اس طرح گوادر پاکستان کا حصہ بنا اور آج تک اس کی تقدیر پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے۔
جغرافیائی اہمیت: قدرت کا انمٹ تحفہ
گوادر کی سب سے بڑی طاقت اس کا محلِ وقوع ہے۔ دنیا کے نقشے پر ایک نظر ڈالیں تو گوادر تین اہم خطوں کے درمیان میں واقع نظر آتا ہے: مشرق میں جنوبی ایشیا، شمال میں وسطی ایشیا، اور مغرب میں مشرق وسطیٰ۔ یہ آبنائے ہرمز کے دہانے پر واقع ہے، جہاں سے دنیا کی تیل کی سپلائی کا ایک بہت بڑا حصہ گزرتا ہے۔
اس کے علاوہ، گوادر کی بندرگاہ “ڈیپ سی پورٹ” ہے، جہاں دنیا کے سب سے بڑے جہاز بھی آسانی سے لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔ یہی نہیں، گوادر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ پاکستان کے دوسرے اہم بندرگاہی شہر کراچی سے تقریباً ڈھائی گنا قریب ہے اس خطے کے بے زمین ممالک (Land-locked Countries) جیسے افغانستان، ترکمانستان، ازبکستان اور چین کے صوبہ سنکیانگ کے لیے۔ ان ممالک کے لیے گوادر کے ذریعے سمندر تک رسائی نہایت سستا، محفوظ اور تیز ترین راستہ فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوادر کو “بحیرۂ عرب کا دروازہ” کہا جاتا ہے۔
============

============
CPEC اور گوادر کا مرکزی کردار: معاشی انقلاب کا محرک
اگر گوادر پاکستان کا دل ہے تو چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) اس کی شریانوں کا کام کر رہی ہے۔ CPEC چین کے عظیم منصوبے “بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو” (BRI) کا ایک اہم ترین حصہ ہے۔ اس منصوبے کا مرکز اور جان گوادر ہی ہے۔ CPEC کے تحت گوادر میں ایک جدید بین الاقوامی ہوائی اڈہ، جدید شاہراہیں، پاور پلانٹس، ایک جدید ہسپتال، اور ایک جدید بندرگاہ کی تعمیر شامل ہے۔
گوادر پورٹ کو چین کے شہر کاشغر سے ملانے والی شاہراہیں اور ریلوے نیٹ ورک نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں تجارت کے نئے دروازے کھول رہا ہے۔ چین کے لیے، جو جنوبی چین کے بحیرہ جنوبی چین کے تنازعات سے بچنا چاہتا ہے، گوادر کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک رسائی ایک محفوظ اور مختصر راستہ ہے۔ اس سے نہ صرف چین کی تجارتی لاگت میں کمی آئے گی بلکہ پاکستان ٹرانزٹ فیس کے طور پر سالانہ اربوں ڈالرز کما سکے گا۔
================

================
ترقیاتی منصوبے: ایک جدید شہر کی تعمیر
گوادر محض ایک بندرگاہ نہیں رہا، بلکہ اب ایک جدید شہر کے طور پر ابھر رہا ہے۔ گوادر ماڈل اسپتال، گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، ایسٹ بے ایکسپریس وے، اور پانی کی فراہمی کے بڑے منصوبے اس کی چند جھلکیاں ہیں۔ شہر میں بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لیے کوئلہ اور شمسی توانائی پر مبنی پاور پلانٹس تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، گوادر فری زون کی establishment نے مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش مراعات فراہم کی ہیں۔ اس فری زون کا مقصد صنعت کاری کو فروغ دینا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور برآمدات کو بڑھانا ہے۔ یہ منصوبہ گوادر کو ایک تجارتی اور صنعتی مرکز میں تبدیل کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
=============

===============
مستقبل کے امکانات اور چیلنجز
گوادر کا مستقبل روشن ہے، لیکن اس روشنی تک پہنچنے کے راستے میں کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ ان میں سیکیورٹی کے مسائل، بنیادی ڈھانچے کی تکمیل میں تاخیر، مقامی آبادی کے تحفظات کو دور کرنا، اور پانی کی قلت جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان چیلنجز پر قابو پانا حکومت پاکستان اور اس کے شراکت داروں کی اولین ترجیح ہے۔
مستقبل میں، اگر تمام ترقیاتی مراحل وقت پر مکمل ہو جاتے ہیں، تو گوادر خطے کا ایک اہم تجارتی مرکز بن سکتا ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کی معیشت کو نئی بلندیوں پر لے جائے گا بلکہ بلوچستان کے عوام کے لیے خوشحالی اور ترقی کے نئے دروازے کھولے گا۔ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، تعلیم اور صحت کی سہولیات میں بہتری آئے گی، اور علاقے میں امن و امان کی صورت حال مستحکم ہوگی























