گھر میں روز نئی لڑائی کیا نئی دلہن کامیابی سے گھر میں قدم جمائے گی؟

گھر میں روز نئی لڑائی کیا نئی دلہن کامیابی سے گھر میں قدم جمائے گی؟

زندگی میں جذبات، رشتوں اور مفادات کی جو پیچیدہ بندھنیں ہیں، وہ اکثر وراثت جیسے معاملات میں عریاں ہو کر سامنے آتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی موضوع ہے جس پر ہم ٹی وی کا معروف ڈراما سیریل “جماع تقسیم” مرکوز تھا۔ مصنفہ ثناء عائشہ کی تخلیق، ہدایت کار سید احمد کمال کی ہدایت کاری اور پروڈیوسر عبداللہ کادوانی و اسما عباس کے زیرِ اہتمام یہ ڈراما 2023ء میں نشر ہوا اور اس نے نہ صرف ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا بلکہ سماجی حلقوں میں اس کے موضوع نے ایک زندہ بحث چھیڑ دی۔

“جماع تقسیم” کا عنوان ہی اس کی کہانی کی تہہ میں اترنے کے لیے کافی ہے۔ “جماع” عربی لفظ ہے جس کے معانی ہیں اکٹھا کرنا، جمع کرنا۔ جبکہ “تقسیم” کے معانی ہیں بانٹنا، تقسیم کرنا۔ یعنی زندگی بھر جو کچھ اکٹھا کیا گیا، موت کے بعد اس کی تقسیم کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ڈراما دراصل اسی تقسیم کے نتیجے میں جنم لینے والے تصادم، حسد، لالچ اور رشتوں کے بکھراؤ کی المناک داستان ہے

================

===========

منظور احمد (نادر شاہ): بڑا بیٹا، نرم دل، حساس، باپ کی زمین اور کاروبار سے گہری وابستگی رکھنے والا۔ وہ روایتی اقدار کا امین ہے۔

منظور حسین (محمد ایتزان): درمیانی بیٹا، مکار، حاسد، لالچی اور ہر معاملے میں اپنا مفاد دیکھنے والا۔ وہ باپ کی دولت پر پہلا حق سمجھتا ہے۔

منظور عالم (عبدالرحمن): سب سے چھوٹا بیٹا، پڑھا لکھا، جدید خیالات کا حامل، باپ کے کاروبار سے زیادہ دلچسپی نہ رکھنے والا۔ وہ تقسیم کے معاملے میں بے پرواہ دکھائی دیتا ہے۔

حاجی صاحب اپنے دوست اور معتمد علیہ چوہدری فضل کریم (جمیل احمد ملک) کی مدد سے جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس تقسیم میں ایک حصہ ان کی ہمشیرہ، بی بی (سلمیٰ حسن) کے نام بھی ہے، جو ایک بیوہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا عابد (عمران طاہر) ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے کہانی میں پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ منظور حسین اس بات کو برداشت نہیں کر پاتا کہ اس کی بہن (پھوپھی) کو بھی جائیداد میں حصہ دیا جائے۔ اس کا اصرار ہوتا ہے کہ جائیداد صرف بیٹوں میں ہی تقسیم ہونی چاہیے۔

کرداروں کی نفسیاتی کیفیات: ایک گہری نظر
“جماع تقسیم” کی سب سے بڑی کامیابی اس کے کرداروں کی گہرائی اور ان کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو پیش کرنا ہے۔

منظور حسین (محمد ایتزان): یہ ڈرامے کا وہ مرکزی antagonist (خلاف گیر کردار) ہے جس کی وجہ سے پورے خاندان میں کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں حسد اور لالچ کو اس قدر مہارت سے پیش کیا گیا ہے کہ ناظر اس سے نفرت کرتے ہوئے بھی اس کے کردار کی حقیقت پسندی کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ اپنے بھائی منظور احمد سے اس لیے نفرت کرتا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ باپ منظور احمد کو زیادہ چاہتا ہے۔ وہ اپنی بیوی ثروت (کشمال) کے ذریعے بھی سازشیں رچتا ہے اور ہر قدم پر تقسیم کو غیر منصفانہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

منظور احمد (نادر شاہ): وہ ڈرامے کا ethical center (اخلاقی مرکز) ہے۔ وہ تقسیم پر راضی ہے لیکن بھائی چارے اور خاندانی اتحاد کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اس کی اپنی بیوی نائلہ (ہریja) بھی ایک پرامن اور سمجھدار انسان ہے۔ منظور احمد کی کشمکش یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی کے غلط رویے کو برداشت کرے یا اس کے خلاف کھڑا ہو۔ نادر شاہ نے اس کردار میں سادگی اور استقامت کی جو جھلک پیش کی ہے، وہ قابلِ ستائش ہے۔

بی بی (سلمیٰ حسن): ان کا کردار ایک ایسی ہندوستانی/پاکستانی خاتون کی نمائندگی کرتا ہے جو وراثت میں عورت کے حق کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ معاشرے میں اکثر خواتین کو ان کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ بی بی شروع میں خاموش رہتی ہیں لیکن جب ان کے بیٹے عابد کے مستقبل کا سوال پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں۔ وہ بھائیوں کے درمیان محبت کی خواہش بھی رکھتی ہیں لیکن انصاف کی متقاضی بھی ہیں۔

=============

چوہدری فضل کریم (جمیل احمد ملک): یہ کردار دانشمندی اور انصاف کی علامت ہے۔ وہ حاجی صاحب کے وثوق رکھتے ہیں اور تقسیم کے عمل کو منصفانہ طریقے سے نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ خاندان کے بزرگ کی حیثیت سے صلح کرانے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں۔

عابد (عمران طاہر): بی بی کا بیٹا، ایک نوجوان جو اپنی ماں کے حق کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ وہ پڑھا لکھا ہے اور جدید سوچ رکھتا ہے۔ وہ جائیداد کے لیے نہیں بلکہ انصاف کے لیے لڑتا ہے۔ اس کا کردار نئی نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو روایتی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے سے گریز نہیں کرتی۔

سماجی شعور اور اہم پیغام
“جماع تقسیم” صرف ایک خاندانی ڈراما نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے گہرے سماجی پیغامات کارفرما ہیں۔

وراثت میں عورت کا حق: ڈرامے کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو وراثت میں جو حق دیا ہے، اسے معاشرے میں عملاً تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بی بی کا کردار اس ناانصافی کے خلاف ایک واضح بیان ہے۔ ڈراما لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ بیٹیوں اور بہنوں کو ان کے قانونی حق سے محروم رکھنا کس قدر غلط ہے۔

خاندانی اتحاد کی اہمیت: ڈراما یہ بتاتا ہے کہ مادی دولت اور جائیداد کے لیے رشتوں کو تباہ کرنا کس قدر مہنگا سودا ہے۔ منظور حسین کی لالچ کی وجہ سے پورا خاندان منتشر ہو جاتا ہے، اعتماد کا رشتہ ٹوٹتا ہے اور محبت کے بندھن کمزور پڑ جاتے ہیں۔ ڈراما دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ رشتوں کی قدر دولت سے کہیں زیادہ ہے۔

لالچ کی تباہ کاریاں: منظور حسین کا کردار لالچ کی ان تباہ کاریوں کو واضح کرتا ہے جو نہ صرف اس کی اپنی زندگی برباد کرتی ہیں بلکہ اس کے آس پاس کے تمام لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔

انصاف اور دیانتداری: چوہدری فضل کریم کا کردار اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ معاملات کو نمٹانے کے لیے غیر جانبدار اور دیانتدار ثالث کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔

=================

فنی لحاظ سے کامیابیاں
منظر نگاری: ڈرامے کے زیادہ تر مناظر ایک ہی حویلی اور اس کے آس پاس کے ماحول میں فلمائے گئے ہیں، جو خاندانی کشمکش کے مرکزی خیال کے عین مطابق ہے۔ حویلی کی عمارت ہی روایتی خاندانی ڈھانچے کی علامت بن کر ابھرتی ہے۔

موسیقی: ڈرامے کی تھیم میوزک اور پس منظر کی موسیقی جذبات کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ موسیقی غم، کشمکش اور امید کے جذبات کو بہترین طریقے سے بیان کرتی ہے۔

ادائیگیاں: تمام اداکاروں نے اپنے اپنے کرداروں میں جان ڈال دی ہے۔ محمد ایتزان نے اپنے منفی کردار کو اس قدر حقیقی بنایا کہ ناظرین اس سے بیزار ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ نادر شاہ نے اپنے کردار کی شرافت اور استقامت کو قابلِ فہم بنایا۔ سلمیٰ حسن جیسی تجربہ کار اداکارہ نے بی بی کے کردار کو وقار اور جذباتیبخشی۔ کشمال نے ثروت کے کردار میں ایک مکار اور لالچی عورت کی عکاسی بہترین کی

==============