دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان کا سفر ابتدا سے ہی روشنی اور تاریکی، حق اور باطل، سچائی اور جھوٹ کے درمیان ایک مسلسل کشمکش رہا ہے۔ یہ کشمکش صرف میدانِ جنگ میں تلواروں اور ہتھیاروں کی گونج تک محدود نہیں بلکہ دل و دماغ، فکر و نظر، اور کردار و عمل کے ہر گوشے میں برپا ہے۔ یہی کشمکش “معرکۂ حق” کہلاتی ہے۔

معرکۂ حق
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ انسان کا سفر ابتدا سے ہی روشنی اور تاریکی، حق اور باطل، سچائی اور جھوٹ کے درمیان ایک مسلسل کشمکش رہا ہے۔ یہ کشمکش صرف میدانِ جنگ میں تلواروں اور ہتھیاروں کی گونج تک محدود نہیں بلکہ دل و دماغ، فکر و نظر، اور کردار و عمل کے ہر گوشے میں برپا ہے۔ یہی کشمکش “معرکۂ حق” کہلاتی ہے۔

===========

معرکۂ حق کی تعریف
“معرکۂ حق” سے مراد وہ دائمی جدوجہد ہے جو حق و صداقت کے علمبرداروں نے ہر دور میں ظلم، جبر، اور باطل کے خلاف کی۔ یہ جنگ صرف ایک طبقے یا قوم کی نہیں، بلکہ ہر اس انسان کی ہے جو حق کو پہچانتا ہے اور اسے اپنانا چاہتا ہے۔ اس معرکے میں کامیابی کا پیمانہ مادی فتح نہیں بلکہ اخلاقی و روحانی برتری ہے۔

================

=============

For more news visit www.jeeveypakistan.com

=======================
معرکۂ حق کا آغاز
معرکۂ حق کا آغاز اُس وقت سے ہوا جب حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارا۔ قابیل اور ہابیل کی کہانی اس جنگ کی پہلی مثال ہے، جہاں حسد، انا، اور نافرمانی کے مقابل حق، قربانی، اور فرمانبرداری کھڑی تھی۔ قابیل نے باطل کا ساتھ دیا اور اپنے بھائی کو قتل کیا، جبکہ ہابیل صبر و رضا کے ساتھ حق پر قائم رہا۔

www.jeeveypakistan.com

==============
انبیا کا کردار
انبیائے کرام علیہم السلام کی زندگی معرکۂ حق کی سب سے درخشاں مثال ہے۔ ہر نبی نے اپنی قوم کو توحید، عدل، اور بھلائی کی طرف بلایا، مگر ہر دور میں انہیں شدید مخالفت، ظلم، اور تکذیب کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال قوم کو حق کی دعوت دی، مگر قلیل لوگ ہی ایمان لائے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے باطل نظام کے خلاف بغاوت کی، بت پرستی کے خلاف علمِ حق بلند کیا، اور آگ میں ڈالے گئے مگر حق سے نہ ہٹے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے جبر کے سامنے ڈٹ کر حق کی صدا بلند کی۔ ان تمام واقعات میں ایک بات واضح ہے کہ معرکۂ حق کبھی آسان نہیں رہا، مگر آخرکار حق ہی کو فتح نصیب ہوئی۔
اسلام کا معرکۂ حق
اسلام کی تاریخ کا ہر لمحہ معرکۂ حق کا آئینہ دار ہے۔ سب سے عظیم مثال حضور نبی اکرم ﷺ کی زندگی ہے۔ جب آپ نے مکہ میں اعلانِ نبوت کیا تو مشرکین نے مخالفت، بائیکاٹ، اور ظلم کی انتہا کر دی، مگر آپ حق پر قائم رہے۔ شعبِ ابی طالب کی سختیاں، طائف کا پتھروں بھرا راستہ، اور ہجرتِ مدینہ – سب حق کے اسی معرکے کا حصہ ہیں۔
مدینہ میں اسلامی ریاست کا قیام دراصل حق کی فتح کا آغاز تھا۔ بدر، اُحد، خندق، اور فتحِ مکہ جیسے معرکے محض جنگیں نہ تھیں، بلکہ یہ حق و باطل کی تاریخی جنگیں تھیں، جن میں ایمان، تقویٰ، اور یقین نے تعداد، وسائل، اور طاقت کو شکست دی۔
کربلا: معرکۂ حق کی معراج

=============


=============

اگر معرکۂ حق کی سب سے اعلیٰ مثال تلاش کی جائے تو وہ واقعۂ کربلا ہے۔ امام حسینؓ نے یزیدی باطل نظام کے خلاف علمِ حق بلند کیا۔ آپ جانتے تھے کہ ظاہری فتح ممکن نہیں، مگر حق کی صدا بلند کرنا ضروری ہے۔ آپ نے اہلِ بیت اور اصحاب سمیت اپنی جانیں قربان کر دیں، مگر ظلم کے آگے سر نہ جھکایا۔ یہی وہ قربانی ہے جو آج بھی معرکۂ حق کی سب سے بڑی علامت ہے۔
کربلا ہمیں سکھاتا ہے کہ عددی اکثریت یا حکومت کی طاقت حق ہونے کی دلیل نہیں۔ حق وہی ہے جو اصولی ہو، جس میں عدل، انصاف، اور سچائی ہو، چاہے اسے ایک فرد ہی کیوں نہ تھامے ہو۔
معرکۂ حق آج بھی جاری ہے
یہ معرکہ صرف ماضی کی داستان نہیں، بلکہ آج بھی ہر شخص، ہر معاشرہ، اور ہر قوم اس معرکے کا حصہ ہے۔ آج حق اور باطل کا فرق کبھی کبھار مبہم ہو جاتا ہے، کیونکہ باطل نے خود کو خوشنما لبادوں میں چھپا لیا ہے۔ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، ظلم کو انصاف کے نام پر جائز قرار دیا جا رہا ہے، اور منافقت کو مصلحت کا نام دے دیا گیا ہے۔
مگر جو لوگ بصیرت رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ آج بھی حق وہی ہے جو ضمیر کو مطمئن کرے، جو انصاف کا ساتھ دے، جو انسانیت کے لیے مفید ہو، اور جو اللہ کے احکامات کے مطابق ہو۔

=============

=================

معرکۂ حق میں ہمارا کردار
آج ہر انسان کے سامنے یہ سوال کھڑا ہے کہ وہ اس معرکے میں کہاں کھڑا ہے؟ آیا وہ سچائی، دیانت، انصاف، اور عدل کے ساتھ ہے؟ یا مصلحت، خاموشی، اور باطل کی حمایت کے ساتھ؟ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم امام حسینؓ کے راستے پر ہیں یا یزید کی صف میں۔
معرکۂ حق کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے کردار، گفتار، اور افکار میں سچائی کو اپنائیں۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔ حق کا ساتھ دینا صرف تلوار اٹھانے کا نام نہیں، بلکہ قلم، زبان، کردار، اور نیت کا بھی امتحان ہے۔