
جیوے پاکستان کے امیر محمد خان سے سعودی عرب میں پاکستان کے سرمایہ کار فرزند پاکستان چوہدری شفقت محمود کی بات چیت،
شفقت محمود نے جیوے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔
سعودی عرب سے ذرمبادلہ پاکستان بھیجنے کی تلقین میں ہر فورم پر سرگرم ہیں
چوہدری شفقت محمود کا نام سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی کیلئے غیرمعروف نہیں رہا،انکی حسن کارکردگی کی بنیاد پرکمیونٹی کی مختلف تنظیموں نے تعریفی اسناد اور ایوارڈ سے نوازا ہے،گزشتہ دنوں انہیں ایسے منفرد ایوارڈ ملے جسکی پذیرائی کا سلسلہ جاری ہے، جیوے پاکستان نٹ ورک نے کوشش کی جاننے کی کہ یہ شفقت ہیں کون؟ کیا کام کرتے ہیں؟ ایک ملاقات میں چوہدری شفقت محمود نے بتایا کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم گجرات میں حاصل کی اور پھر انجنیئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کر کے 1990ء میں سعودی عرب تشریف لا ئے،جہاں بڑے بھائی مختار نبی پہلے سے سعودی پروجیکٹ پہ کام کررہے تھے،سعودی فرمانروا شاہ فہد کے دور میں 2000 میں سعودی عربیہ جنرل اانوسمینٹ اتھارٹی[SAGIA] قائم کیا اور 2020 میں خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کے جاری کردہ ایک شاہی فرمان کے ذریعے اسے ایک وزارت میں تبدیل کر دیا گیا تھا ہم نے 2001میں بزنس رجسٹریشن حاصل کیا جبکہ اس سے قبل ریاض میں چوہدری نذیر جٹ،جدہ میں مسعود احمد پوری،سلمان آرائیں اور دیگر نے SAGIA لائسنس حاصل کیئے اور اپنے کاروبار کو سعودی سہولتوں کے ساتھ ریگولرائز کیا،میرے بڑے بھائی پہلے سے ٹیلی کام کے پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے میں بھی انکا معاون بن گیا اور ٹیلی کمونیکیشن میں ایس ٹی سی،ہوائی وے،موبائلی،زین،نوکیا کے پروجیکٹ مکمل کیئے، اسکے بعد ہم نے بن لادن کمپنی کے ساتھ مل کے حرم شریف پروجیکٹ میں بجلی کے کیبلنگ کے کام کئے، چوہدری شفقت کا کہنا تھا کہ ہماری کمپنی اسکانکم نے مسجد نبوی شریف میں الیکٹرانک چھتری کی تنصیب کے پروجیکٹ میں کام کیا، یہ سارے پروجیکٹ ہم نے وقت پہ مکمل کرکے خصوصی اسناد حاصل کئیے، اسوقت اسکانکم میں دیگر کونٹکٹرز سمیت تقریبا600 سے زائدپاکستانی محنت کش برسرِروزگار ہیں اور ہر ماہ اپنی استطاعت کے مطابق زرمبادلہ پاکستان بھیج رہے ہیں،2008 میں ہم نے اس وقت کے کمرشیل قونصل جو بعد میں ٹریڈ منسٹرکی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھے،مرحوم حجاب گُل، ایک انتہائی تجربہ کار اور پاکستان سے محبت کرنے والے شخص تھے جو اپنے تجارتی فروغ کے علاوہ پاکستان کمیونٹی کو جوڑ کے رکھتے تھے، انکی نگرانی میں ہم چند انوسٹرز دوستوں کے ساتھ ’پاکستان انوسٹرز فورم‘ کی بنیاد رکھی، اس میں جدہ چیپٹر اور ریاض چیپٹرقائم کیا، جسکا خاص مقصد پاکستانی پروڈکٹس کو سعودی مارکیٹ میں متعارف کروانا اور اسکی کھپت کے طریقہ کار کو بہتر بنانا،دوطرفہ تجارت کے فروغ،سعودی مارکٹ میں کھپت،اور اس سے متعلق معلومات کو جمع کرنا،پاکستان کیلئے ذرمبادلہ میں کیسے اضافہ کیا جائے،یہاں رہنے والے پاکستانیوں کو تجارتی معاملات میں کیسے مدد کی جائے اور اسے قابل عمل بنانے کیلئے حکمت عملی تیار کرنا اور حکومت پاکستان کو تجاویز بھیجنا شامل تھا، تاہم ایک اور جو سب سے اہم کام ہوا وہ پاکستان سے آنے والے عازمین حج کی رہنمائی کیلئے’پاکستان حج والنٹیئر گروپ‘ تشکیل دیا،جس میں تین سو رضاکار ہر عمر کے شامل کیئے گئے، اسی قانونی شکل دینے کے لئیپاکستان قونصلیٹ،پاکستان حج مشن نے ’رابطہ عالم اسلامی‘ کی چھت تلے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل کیا،اس طرح مکہ مکرمہ،منیٰ عرفات،مزدلفہ، اور مناسک حج کی ادائیگی کے وقت وہیل چئیر پہ کمزور،بوڑھے حجاج کی رضاکارانہ
خدمات بلا معاوضہ انجام دے رہے ہیں،یہ سلسلہ آج تک جاری ہے جس میں جدہ اور ریاض کی تربیت یافتہ ٹیم کی بڑی تعداد حجاج کی خدمات میں پیش پیش ہیں کسی لالچ کی بغیر کسی معاوضے کے بغیر،اس میں چوہدری محمد نواز ،سجاد انور بڑی سر گرم اور پیش پیش رہے،پاکستانی اسکول، عزیزیہ اور رحاب نے ٹرانسپورٹ میں بڑا تعاون کیا جو رضاکاروں کو لے کر مکہ،منیٰ اور مشاعر مقدسہ پہنچاتے تھے، اسکے بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان سے آنے والے معاونین کو حجاج کی رہائش کے لوکیشن کا پتہ اور نہ ہی انہیں گائیڈ کرنے کی تربیت ہوتی تھی،حدود حرم کی حد تک تو وہ کا م کرلیتے تھے لیکن گمشدہ حجاج،یا انکے سامان،ہوٹل تک پہنچانے، طبی امداد کی فراہمی میں انہیں مشکلات درپیش ہوتیں،اس مسئلے کو حل کرنا ضروری تھا،ہر سال کوٓارڈینیٹر تبدیل کردیا جاتا ہے، اس سال جدہ سے سردار نصر اقبال اور ریاض سے ابرار تنولی تھے ہمارے رضاکار نہ صرف پاکستانی حجاج بلکہ دوسرے ممالک کے حجاج کی بھی خدمات میں پیش پیش رہے ہیں،پھر ہماری ٹیم کو دیکھ کے بنگلہ دیش،انڈیا نے بھی اپنا رضاکار گروپ تشکیل دیا، چند ناگزیر وجوہ کی بنا پر2016ء میں فورم کی سرگرمیاں سست رہی اور پھر کچھ ساتھی سعودی عرب سے چلے گئے اور کورونا وائرس بھی اک بڑی وجہ تھی، لیکن ہم نے اب 2025ء میں دوبارہ ایکٹیویٹ کیا ہے جس میں ہمیں

شفقت محمود لندن میں فرزند پاکستان کا ایوارڈ وصولُ کرتے ہوئے منتظم ذولفقار علی بھٹو اور صدر تقریب اداکار شاہد کے ہمراہ
======================
قونصل جنرل خالد مجید چیف پیٹرن ہیں جبکہ ہماری ٹریڈ ڈیولپمنٹ قونصل سعدیہ خان ہماری رہنمائی کررہی ہیں، گزشتہ کئی ماہ کے دوران ہم نے اپنی ٹیم کے ساتھ سعودی چیمبر آف کامرس میں مختلف سرمایہ کاری کے سیکٹرز کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور کئی تجاویز دی جسکے جواب میں ایسا لگا کہ حکومت سعودی و یزن 2030کے مطابق سرمایہ کاری کے بہت سے شعبوں میں کام کرنے کے مواقع اور قوانین میں نرمی کردی ہے، جس سے اک چھوٹے سے چھوٹا کاروبار بھی کم سرمائے سے شروع کیا جا سکتا ہے، سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چیلنج قبول نہیں کرنا چاہتے، جبکہ اب سعودی انوسٹمنٹ بورڈ اور چیمبرآف کامرس نے بڑی سہولت دی ہوئی ہے، یہاں بعض سکٹرز میں اگر دیکھا جائے تو دوسرے ممالک آگے آرہے ہیں ہم بہت پیچھے رہ گئے،لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم ایسے کام کریں کہ ملک کو آئی ایم سے نجات دلائیں، سعودی وزارت صحت نے حالیہ ملاقات میں ہمیں بتایا ہے کہ میڈیکل اسٹور،فارمیسی،پولی کلینک،ڈایٹ سینٹر، اسکے علاوہ بلدیہ جدہ ریجن میں کئی پروجیکٹ بتائے ہیں جہاں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، چوہدری شفقت محمود نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ فورم اس بات پر زور دیگی کہ سعودی عرب میں کام کرنے والے محنت کش بڑی عرق ریزی کے ساتھ دن رات محنت کر کے زرِ مبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں لیکن انکو ”ریڑھ کی ہڈی“ کا نام تو مل جاتا ہے مگر جو انکا حق ہے پذیرائی کا وہ نہیں ملتا ، حکومت کو چاہیئے کہ
جو بھی دس سال یا بیس سال تک بینکنگ چینل سے اپنے زرِمبادلہ پاکستان بھیجے اسے پینشن کے زمرے میں شامل کیا جائے، اسکے لیئے ماہرین layoutتیار کریں کیونکہ ساری عمر کی کمائی وہ زرمبادلہ کی شکل میں ملک بھیجتے ہیں اور واپسی پر انکے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔۔لیکن پنشن، اسکے باقی ماندہ زندگی گزارنے کیلئے ایک بہترین پیش کش اور ایوارڈ ہوگا، انکی جب اس طرح کی پیشکش اور حوصلہ افزائی ہوگی تو ان میں ریمنٹنس بڑھانے کا جذبہ بھی ابھرے گا، چوہدری شفقت محمو کا کہنا تھا کہ ز رِمبادلہ کی ترسیلات میں 30.9 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا، جس کے بعد مجموعی ترسیلات زر 31.2 ارب امریکی ڈالر تک جا پہنچیں جبکہ حکومت اور سفارتی کوششوں سے یہ شرح بڑھ کے پچاس ارب امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے اور ہمیں عالمی بینک کے قرضوں سے نجات مل سکتا ہے، کرنا صرف یہ ہے کہ سفارت خانہ اور پاکستان قونصلیٹ روزانہ آنے
والے ہموطنو ں کو ڈیٹا رجسٹر کیا جائے اور انہیں الیکٹرانک سسٹم کے ساتھ محفوظ کرکے ترسیل زر کی اہمیت اور ہنڈی کی بجائے بینکنگ چینل سے بھیجنے کی ترغیب دی جائے،سب سے زیادہ ترسیل زر پر ہر سال محنت کشوں کو پنشن اور سالانہ فری ٹکٹ یا کوئی اور سہولت دینے کا اعلان کیا جائے، انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں میں سعودی عرب کو اہمیت دیتے ہوئے قومی اسمبلی میں انہیں نمائیندگی دی جانی چاہیئے تاکہ وہ اوورسیز پاکستانی کے مسائل سے باخبر رہتے ہوئے انکے مسائل پیش کیئے جا سکیں۔چوہدری شفقت کی وطن دوستی کی داستان سنکر دوران انٹرویو مجھے افسوس ہوا کہ حال میں ہونے والے اسلام آباد میں اوؤسیز فورم سعودی عرب کے پاکستانیوں کے ذرمبادلہ کا نہ ہی کوئی ذکر تھا اور نہ ہی انکی اسٹیج سے کوئی پذیرائی ہوئی جبکہ سب سے زیادہ ذرمبادلہ سعودی عرب سے ہی پاکستانی وطن عزیز بھیجتے ہیں جنکا ذکر صرف اعداد و شمار میں ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے ملنے والے سول ایوارڈ شفقت محمود جیسے وطن کے فرزندوں کو ملنا ضروری ہے۔ انکی بڑی ہمت ہے کہ بغیر کسی حکومتی پذیرائی کے وہ دن رات اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ملک سے باہر پاکستان کا نام کسطرح مثبت منور ہو۔























