*”سپلا کی آڑ میں جسم فروشی کا نیٹ ورک بے نقاب – خواتین اساتذہ کو بلیک میل کر کے ہوس کا نشانہ بنانے والے درندے سپلا (منور عباس گروپ کے رسول بخش قاضی گرفتار٭

*”سپلا کی آڑ میں جسم فروشی کا نیٹ ورک بے نقاب – خواتین اساتذہ کو بلیک میل کر کے ہوس کا نشانہ بنانے والے درندے سپلا (منور عباس گروپ کے رسول بخش قاضی گرفتار٭

*کراچی (خصوصی رپورٹ):*
سندھ کے تعلیمی اداروں میں اخلاقی تباہی کا ایک ایسا ہولناک اسکینڈل منظر عام پر آ گیا ہے جس نے باشعور طبقے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پولیس کی جانب سے جوہر ٹاؤن کے ایک فلیٹ پر کی گئی بروقت کارروائی کے نتیجے میں خواتین اساتذہ کو پروموشن اور ٹرانسفر کے نام پر جھانسہ دے کر برہنہ حالت میں پکڑے گئے افراد نے تعلیم کے مقدس پیشے کو شرمندہ کر دیا ہے۔

*خفیہ اطلاع پر پولیس کا چھاپہ – عبرتناک مناظر*

احمدالدین بن ثمرالدین، جو کہ محترمہ زوبیہ کے شوہر ہیں، نے مسلسل بلیک میلنگ اور عہدوں کی لالچ کے تحت اپنی بیوی کو بلائے جانے کی شکایت جوہر تھانے میں درج کروائی۔ شکایت پر ایکشن لیتے ہوئے ایس آئی اسد علی نے اپنی ٹیم کے ہمراہ چھاپہ مارا۔ جو مناظر اس فلیٹ میں دیکھنے کو ملے، وہ اخلاقی پستی اور انسانیت کی بے حرمتی کی بدترین مثال تھے۔

*گرفتار افراد:*

* *رسول بخش قاضی*: مکمل برہنہ حالت میں
* *متعلقہ خاتون*: مکمل برہنہ حالت میں

*پولیس رپورٹ کی دفعات**

پولیس کی ایف آئی آر میں درج اہم دفعات درج ذیل ہیں:

* **دفعہ 376**: زنا (ریپ)
* **دفعہ 506**: دھمکیاں دینا
* **دفعہ 354-A**: عورت کی بے حرمتی کرنا
* **دفعہ 109**: جرم میں معاونت
* **دفعہ 420**: فراڈ و جعلسازی
* **دفعہ 292**: فحش مواد کی ترسیل
* **دفعہ 34**: مجرمانہ سازش
* ⁠*”سپلا کراچی ریجن” کے نام پر خواتین کی عزتوں کا سودا٭

پولیس تفتیش سے انکشاف ہوا ہے کہ جس فلیٹ پر چھاپہ مارا گیا وہ باقاعدہ ایک جسم فروشی کے مرکز کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔ اور منوور عباس اس کی سربراہی کررہے تھے شبانہ افضل سہولت کاری کررہے تھے سپلا کراچی ریجن کے نام پر سرکاری کالجز کی خواتین اساتذہ کو بلایا جاتا، ان سے تعلقات بنانے کے بعد ویڈیوز کے ذریعے بلیک میلنگ کی جاتی، اور اُن کی ترقی و تبادلے کے جھوٹے وعدے کیے جاتے۔

*بینک اسٹیٹمنٹس کے مطابق مالی تعاون کرنے والے افراد:*

* حلیم درس
* ابوبکر بلوچ
* انور میمن

*اساتذہ کی خاموشی کا سبب – عزت کے لٹنے کا خوف*

یہی وجہ ہے کہ جب سے کراچی ریجن کے صدر کو گرفتار کیا گیا، اساتذہ برادری نے اس کے لیے کوئی احتجاج نہ کیا۔ کیونکہ اگر احتجاج ہوتا، تو پولیس ان کے قائد منور عباس کی وہ ایف آئی آر منظر عام پر لاتی، جس میں اُن کی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت پوری بے باکی سے درج ہے۔

*معاشرتی ناسور – تعلیم کے نام پر دھبہ*

یہ عناصر نہ صرف تعلیم جیسے مقدس شعبے کے لیے ناسور ہیں، بلکہ وہ سانپ ہیں جو خواتین کی عزتیں نوچ کر خود کو “اساتذہ کے نمائندے” کہتے ہیں۔ ان افراد کو کسی تعلیمی ادارے کے قریب بھی نہ آنے دیا جائے۔ خاص طور پر خواتین کالجز کو ان کی آمد و رفت سے مکمل طور پر محفوظ رکھا جائے۔

*وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر تعلیم سندھ سے مطالبہ*

یہ معاملہ اب صرف اخلاقی یا ادارہ جاتی نہیں، بلکہ *ریاستی ساکھ* کا ہے۔ لہٰذا:

٭ہم وزیر اعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ اور وزیر تعلیم جناب سید سردار علی شاہ سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ:*

1. ان تمام نامزد اور مشتبہ افراد کو فوری معطل کیا جائے۔
2. ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیشن قائم کیا جائے۔
3. تمام متاثرہ خواتین کو تحفظ دیا جائے اور ان کے بیانات قلمبند کیے جائیں۔
4. سندھ بھر کے کالجز میں ایسے عناصر کی موجودگی کا سروے اور کریک ڈاؤن کیا جائے۔
5. سپلا کی مرکزی اور علاقائی قیادت کی تمام سرگرمیوں کی تحقیقات کی جائیں

*عبرت ناک سزائیں دی جائیں*

یہ وہ مجرم ہیں جو خواتین اساتذہ کو نہ صرف بلیک میل کرتے رہے، بلکہ ان کی نجی زندگیوں کو تباہ کر کے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے۔ اگر ان کو نشانِ عبرت نہ بنایا گیا تو کل کوئی اور ان کی جگہ لے

*اساتذہ کرام!*
اب خاموشی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اپنے اداروں کو ان بھیڑیوں سے پاک کرنے کے لیے متحد ہوں۔ یہ آپ کی عزت، آپ کی بیٹیوں، اور آپ کے شعبے کی بقاء کا سوال ۔