پانی اور کشمیر
———–
ون پوائنٹ
=========
نوید نقوی

پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب امور بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائیں اور جنگ کی نوبت نہ آنے۔ لیکن بھارتی حکومتیں ہمیشہ تکبر اور اپنی افرادی قوت کے بھروسے پر مذاکرات کو ناکام کرتی آئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ایٹمی طاقتیں چار جنگیں لڑ چکی ہیں۔ اور اب بھی ہر وقت الرٹ پر ہیں، ان دو پڑوسی ملکوں کے درمیان ابھی بھی حالات کشیدہ ہیں، جس کی وجہ سے جنگ کا طبل کسی بھی وقت بج سکتا ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب 22 اپریل 2025 کو بھارت کے نا جائز قبضے والے کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر حملہ ہوتا ہے، جس میں 26 لوگ مارے جاتے ہیں۔ کچھ منٹ بعد ہی بھارتی گودی میڈیا اس کا مورد الزام پاکستان کو ٹھہراتا ہے۔ مودی کی پاکستان اور مسلمان دشمن حکومت بھی اپنے میڈیا کی طرح جنگ کی بات کرنے لگتی ہے۔ سندھ طاس معاہدے سمیت تجارتی معاہدے بھی معطل کر دیتی ہے۔ پاکستان بار بار وضاحت کرتا ہے کہ اس حملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں اور پاکستان اس حملے کی مذمت بھی کرتا ہے۔ مودی چونکہ فرانسیسی لڑاکا طیارے رفائیل لے چکا ہے تو وہ پاکستان کی امن پسندانہ سوچ کو کمزوری گردانتے ہوئے اپنی افواج کو سرجیکل سٹرائیک یا کسی بھی آپریشن کی اجازت دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پانچ اور چھ مئی کی درمیانی رات کو بھارت پاکستان اور آزاد کشمیر کے مختلف مقامات پر رات کی تاریکی میں بزدلانہ حملہ کرتا ہے جس کی وجہ سے دو درجن سے زائد سویلین شہید ہو جاتے ہیں۔ پاکستان جوابی کارروائی میں بھارت کے کئی ائیر بیس تباہ کرتا ہے اور تین رافائل طیاروں سمیت چھ جنگی طیارے بھی گرا
![]()
کر مودی کا غرور خاک میں ملا دیتا ہے۔ بھارت اپنے اتحادی اسرائیل کے جدید ترین ہیروپ ڈرونز سے پاکستان کے مختلف مقامات پر ناکام حملے کرتا ہے۔ 90 کے قریب ڈرون ہماری فورسز گرا کر مودی کو مزید پریشان کر دیتی ہیں۔ ڈرون جنگ کے دوران پاکستان بھی اپنے جدید ترین ڈرونز سے بھارت پر جوابی وار کرتا ہے اور پوری دنیا دیکھتی ہے کہ مودی کو کس طرح نکیل ڈالی جاتی ہے۔ بعد کی کہانی کا سب کو معلوم ہے کہ وہی بھارت جو بار بار جنگ کی بات کرتا تھا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ثالثی کی ریکوئسٹ کرتا ہے اور پاکستان کے ساتھ سیز فائر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی پالیسی چونکہ امن پہلے پر مبنی ہے اس لیے پاکستان امن کی درخواست قبول کرتا ہے، لیکن ہمارے وزیر اعظم یہ بات واضح کرتے ہیں کہ بھارت سے جب بھی مذاکرات ہوں گے کشمیر اور پانی سمیت 4 اہم نکات پر گفتگو ہو گی۔ اب جبکہ مودی کو سنبھلنے کا موقع مل چکا ہے اور وہ اپنی عوام کو ایک بار پھر پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دے کر مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر اور پانی پاکستان کے لیے کس حد تک لازم اور ملزوم بن چکے ہیں کہ مودی نے جب بھی ریڈ لائن کراس کی، ہماری مسلح افواج اس کو منہ توڑ جواب دیں گی؟ پاکستان اور بھارت کے کم وبیش تمام اہم دریا بھارتی ناجائز قبضے والے کشمیر سے ہی گزرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مضبوط کرنے کے لیے بھارتی حکومت نے سات لاکھ سے زائد ٹڈی دل فوج تعینات کر رکھی ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ پاکستان کے حصے کا پانی جب بھی روکا گیا دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوگی اور پھر کشمیر جس کا، پانی بھی اسی کا ہوگا۔ یاد رہے کہ دنیا کے 71 فیصد حصے پر پانی ہے مگر جو پانی پینے کے قابل ہے وہ صرف 2.75 فیصد ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے ڈیٹا کے مطابق صاف پانی کے حوالے سے برازیل پہلے، روس دوسرے، کینیڈا تیسرے، امریکہ چوتھے اور چین پانچویں نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں انڈیا کا نواں، تاجکستان کا 67واں اور پاکستان کا 73 واں نمبر ہے۔ ایک عالمی جائزے کے مطابق شہری آبادی کو 40 گیلن فی کس روزانہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب پاکستان کی آبادی پچیس کروڑ ہے تو حساب لگایا جائے تو پاکستان کو روزانہ دس ارب گیلن پانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت ان ممالک میں شامل ہو چکا ہے جو پانی کی شدید قلّت کا شکار ہیں، خاص طور پر صاف پانی کے حوالے سے پاکستان کافی مشکلات کا شکار ہے، ایسے میں اگر مودی کی حکومت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہے تو یقیناً یہ اعلان جنگ کے مترادف ہوگا۔ مودی کی گیدڑ بھپکیاں نہ صرف سنجیدہ لینی چاہییں بلکہ پاکستان کو اس وقت ایک منظم اور واضح واٹر پالیسی مرتب کر کے اس پر عمل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ جو نہ صرف پانی کی اندرون ملک شفاف تقسیم کو یقینی بنائے۔ صوبوں کے درمیان بھی کسی قسم کا اختلاف باقی نہ رہے اور آنے والے دنوں میں بھارت کی شر پسندی کا بھی حقیقی معنوں میں مقابلہ کیا جاسکے۔ کشمیر اور پانی پاکستان کی ریڈ لائن ہیں اور اس لائن کو کوئی بھی جنونی کراس نہ کر پائے یہ ہماری اصل کامیابی ہوگی
























