
یاور علی، چیئرمین نیسلے پاکستان، نے ملکی معیشت کو بدلنے والے اہم مواقع پر روشنی ڈالی
یاور علی، چیئرمین نیسلی پاکستان، نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے اہم مواقع کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کاروبار کرنے میں آسانیاں پیدا کی جائیں اور ملک کے ڈیری سیکٹر کی بے پناہ صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے، تو پاکستان ترقی کی نئی راہیں اختیار کر سکتا ہے۔
پاکستان کا ڈیری اور زرعی شعبہ: ترقی کی ضرورت
پاکستان کی گائے آج بھی اوسطاً 5 لیٹر دودھ یومیہ دیتی ہے، جو 100 سال پہلے بھی اتنا ہی تھا۔ اس کے برعکس، امریکہ میں گائے 100 سال پہلے 5 لیٹر دودھ دیتی تھی، لیکن جدید تحقیق، بہتر خوراک اور جانوروں کی صحت کے نظام کی بدولت اب وہاں اوسطاً 35 لیٹر یومیہ دودھ کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ اگر پاکستان اپنے ڈیری سیکٹر کو جدید خطوط پر استوار کرے، تو نہ صرف دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے، بلکہ لاکھوں کسانوں کی آمدنی بھی بڑھ سکتی ہے۔
زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت

یہی صورتحال زراعت کے شعبے میں بھی ہے۔ پاکستان میں فصلوں کی پیداوار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے، جس کی بڑی وجہ پرانی کاشتکاری کے طریقے اور جدید تحقیق کا فقدان ہے۔ اگر حکومت، نجی شعبے اور کسان مل کر جدید بیجوں، آبپاشی کے بہتر نظام اور جدید زرعی مشینری کو اپنائیں، تو پاکستان نہ صرف خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہو سکتا ہے، بلکہ زرعی برآمدات بڑھا کر زرمبادلہ بھی کما سکتا ہے۔
ڈیری اور زرعی شعبے کی ترقی کے لیے اقدامات
یاور علی کے مطابق، پاکستان کو اپنے ڈیری اور زرعی شعبے کو فروغ دینے کے لیے درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں:
جدید تحقیق اور تربیت: کسانوں اور ڈیری فارمرز کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا جائے۔
خوراک اور صحت کی بہتری: جانوروں کے لیے معیاری خوراک اور ویکسینیشن کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔
مارکیٹ تک رسائی: کسانوں کو منافع بخش قیمتوں پر اپنی پیداوار فروخت کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
سرکاری پالیسیوں میں بہتری: زرعی قرضوں میں آسانی اور ٹیکس مراعات دی جائیں تاکہ کاشتکار جدید سہولیات خرید سکیں۔
اگر ان اقدامات پر عملدرآمد ہو، تو پاکستان اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں روزگار کے مواقع بھی پیدا کر سکتا ہے۔























