
“کراچی يونيورسٹی کا وائس چانسلر یا محمد شاہ رنگيلا”
وزیر اعلی سندھ کا امتحان ؟
“کراچی يونيورسٹی کے جھومر پر بد نما داغ”
کراچی يونيورسٹی کی بد قسمتی ديکھیئے، ملک کی سب سے بڑی اور قابل ذکر يونيورسٹی کے ماضی پر نظر ڈاليں تو يہاں کبھی ، ڈاکٹر اے حليم، پروفيسر بشير احمد ہاشمی ،ڈاکٹر اشتياق حسين قريشی ڈاکٹر سليم الزماں صدیقی، ڈاکٹر احسان رشيد، ڈاکٹر محمود حسين، ڈاکٹر جميل جالبی، ڈاکٹر وہاب، ڈاکٹر منظور الدين احمد، ڈاکٹر ارتفاق علی جيسے درویش ،وائس چانسلر ہوا کرتے تھے،
وائس چانسلر باوقار گاؤں پہن کر جب آرٹس لابی کی طرف آتے تو طلبہ و طالبات کالا گاؤن پہن کر باادب ہو جاتے تھے،
مگر کراچی يونيورسٹی کا وائس چانسلر خالد عراقی بغير گاؤن کے جب کسی شعبہ کے دورے پر جاتا ہے، اس شعبہ کے اساتذہ خاص طور پر خواتين سے نہايت بد تميزی سے پيش آتا ہے، دھمکياں دينا ہے، اسکا دعویٰ ہے کہ اسے سندھ حکومت کی مکمل حمايت حاصل ہے، وہ يونيورسٹی کا سب سے بڑا غنڈہ ہے،
وزير اعلیٰ کی يونيورسٹی کے معاملات سے لاعلمی کی بڑی وجہ يہ ہے کہ اب سنڈيکيٹ جيسے باوقار ادارے ميں حکومت کی نمائندگی، انٹر اور بی اے پاس جيالے کر رہے ہيں، جو پہلے جعل سازی سے اپنی تعليمی صلاحيت، جيسے ، عراقی برگيڈ کے زريعے ، ايم اے ، ايم فل مکمل کرتے ہيں پھر انہيں پی ايچ ڈی کرنے کی ترغيب دی جاتی ہے، صاحبزادہ معظم قريشی، سعديہ جاويد، شاہدہ رحمانی اسکی زندہ مثال ہيں ،جلد يہ سب اپنے نام کے ساتھ ،” ڈاکٹر” لگانے مجاز ہونگے،اور تو اور ، پی پی کی رکن قومی اسمبلی شرميلا فاروقی ،نے بھی “کراچی يونيورسٹی کی عراقی برگيڈ” کی صلاحيتوں سے فائدہ اٹھا کر “ڈاکٹريٹ “کی ڈگری حاصل کر لی يوں اب وہ ڈاکٹر شرميلا فاروقی کہلاتی ہيں ،
اگر وزير اعلی جاہلو کی اس ٹیم کے بجائے سنڈيکيٹ ميں شہر کی نماياں علمی ادبی شخصيات کو سنڈيکيٹ کے لئے نامذد کرتے تو وہ وائس چانسلر کے غير قانونی کاموں سے بر وقت آگاہ رکھتے ، چونکہ وزير اعلی کے پاس اتنی فرصت نہيں ہوتی کہ وہ روز مرہ کے معاملات پر توجہ دے،
وزير اعلی سندھ کے پاس اب موقع ہے کہ وہ اس بات پر توجہ ديں کہ وائس چانسلر کراچی يونيورسٹی خالد عراقی ، کس طرح ڈرا دھمکا کر ڈيٹ سوشل سائنسز کی تقری ميں چوتھے پانچوے نمبر پر انکی دوست سمينہ سعيد کو ميرے تبديل کر کے ڈین بنانے تياری کر رہے ہيں،
وزير اعلی سندھ اگر وائس چانسلر کی غير نصابی سرگرميوں سے اتنے باخبر ہيں تو پھر وہ اس تقريب ميں بيٹھے کراچی يونيورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی جيسے، بد عنوان ،اور بدکردار شخص کی سرگرميوں سے بھی واقف ہونگے ، شيخ ا لجامعہ عراقی جو آفس ميں بھی اکثر شراب پی کر بيٹھتے ہيں ، بوٹ ليکر روز شام کو انکے لئے بوتل فراہم کرنے کيمپس آتا ہے،رات گئے انکی کبجی کی رنگين محفليں اس کے علاوہ ہيں،
محترم وزير اعلی ،کراچی يونيورسٹی کی بے نظير بھٹو چيئر کو ملنے والے فنڈز اور ان ميں خرد برد کرنے والی سابق ڈين نصرت ادريس عرف فرح گوگی ، جو خالد عراقی کی کرائم پارٹنر اور قريبی دوست ہے کہ خلاف تحقيقات سے تو آپ کو کسی نے نہيں روکا، افسوس عالم اسلام کی پہلی خاتون وزير اعظم بے نظير بھٹو کے نام پر قائم ،” چيئر” اب کھنڈرات کا منظر پيش کر رہی ہے، جہاں چيل ، کوؤں اور جانوروں نے اپنا مسکن بنا ليا ہے ،
مالی امور ميں خيانت اور بنک الفلاح ميں رقم کی ترسيل ، کی کہانی بہت خوفناک ہے، جو پھر کبھی، اب وزير اعلی سندھ کا امتحان ہے کہ وہ کيا کرتے ہيں ،
“کراچی يونيورسٹی اور ماضی کے اوراق”
ڈاکٹر معصوم علی ترمزی مرحوم کا ذکر ایک کرپٹ وائس چانسلر کے طور پر تاريخ ميں رہے گا،کيونکہ انہوں نے جامعہ کراچی پرائم لينڈ ايک بلڈر کو فروخت کی ،آج بھی ، آئی بی اے گيٹ پر ،”بھيانی ہائٹس کراچی يونيورسٹی کے چہرے پر بدنما داغ ہے ،
1990 کی دھائی سے اس پر وقار عہدے پر تقری ميں سياسی مداخلت شروع ہوئی، جسکی بنياد ايم کيو ايم نے رکھی، يونيوسٹی کے معيار تعليم کے گرنے کا نقطہ آغاز تھا،ڈاکٹر اجمل مرحوم اور ڈاکٹر محمد قیصر ، سياسی تقری کا تسلسل تھا،
ڈاکٹر پيرزادہ قاسم ، اسکی زندہ مثال ہيں مگر وہ بھی کرپٹ نہيں تھے، انکا قصور صرف يہ تھا کہ انہوں نے الطاف حسين کے قدموں ميں بيٹھ کر وائس چانسلر بنے کی خواہش پوری کی، ايم کيو ايم اور اپنے خاندان کے لوگوں کو ملازمتيں ديں ، اپنے صاحبزادے کی خلاف ضابطہ بطور ليکچرار تقری کروائی،
پيپلز پارٹی نے صرف اس بنياد پر کہ خالد عراقی کبھی پيپلز اسٹوڈنٹ فيڈريشن کا کارکن تھا ،اسے 2019 ميں کراچی يو نيورسٹی کا وائس چانسلر بناکر ، اس محترم ادارے کے جھومر پر بد نما داغ مسلط کر ديا























