ن و القلم۔۔۔مدثر قدیر
عالمی یوم دل، حکومتی اقدامات اور ڈاکٹرز کی آگاہی۔
ٓپاکستان سمیت دنیا بھر میں دل کی بیماریوںکے خلاف آگاہی کا دن منایا گیا گزشتہ سال سابق نگران دور حکومت میں پروفیسر جاوید اکرم نے نعرہ مارا تھا کہ سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں ہارٹ فیلئیر کلینک بنے گا جس کی ابھی تک ایک سال کے دوران فزی بیلٹی ہی نہیں بن سکی مگر پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں جو سب سے بڑا کام ہوا وہ یہ کہ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں رجسٹرڈ ہونے والے مریضوں کو ادویات ان کے گھر پر پہنچانے کا عزم کیا اور اس حوالےسے جو میکانزم بنایا گیا اس کی وجہ سے دل کے مریضوں کو ادویات اب انکھ گھر پر ہی فراہم کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے تمام مریضوںکی لائنوں میں لگ کر ادویات لینے سے جان چھوٹ گئی ہے اور وہ اس اقدام پر وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کو دعائیں دے رہےہیں ۔گزشتہ دنوں کسی کام کے سلسلے میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی جانا ہوا اور وہاں پہنچ کر جو صورتحال سامنے آئی اس کو بیان کرنا کسی جوئے شیر لانے سے کم نہیں،مریضوں اور ان کے لواحقین کی گارڈز کے ساتھ تکرار،ایمرجنسی میں مریض کا بلڈ سیمپل نکالنے والی جگہ پر رش اور وہاں پر بیٹھنے کے انتظامات کی کمی بلکہ مریض جو دل کے علاج کے حصول کے لیے پنجاب کے دوسرے شہر سے ریفر ہوکر آیا وہ اپنی باری کے انتظار میں فرش پر ہی بیٹھا اپنے بنیادی حق کو ترس رہا تھا،ایمرجنسی میں ایک بیڈ پر دو مریض بلکہ ساتھ ہی نکڑ پر ویل چئیر پر بیٹھے ہی مریض کو برنولا لگا کر ادویات جسم میں داخل کی جارہی ہیں اس منظر کو دیکھ کر مجھے خود ہی دل میں گبھراہٹ محسوس ہوئی اورمنیر حسین کا گایا ہوا گیت میرے ذہن میں گردش کرنے لگا دلاں ٹھر جا یار دا نظارہ لین دے،کوئی پیار والی سجنا نوں گل کہن دے۔بات تو میں کسی سے کوئی نہ کرسکا اور آنکھوں میں آنسو لیے میں کارڈیالوجی سے باہر آگیا۔ورلڈ ہارٹ ڈے، کا مقصد دل کی بیماریوں کے بارے میں عوامی بیداری کو بڑھانا ان کی روک تھام کرنا ہے۔ 1999 میں ورلڈ ہارٹ فیڈریشن (WHF) نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے ساتھ مل کر ورلڈ ہارٹ ڈے منانے کا اعلان کیااور پہلی تقریب 24 ستمبر 2000 کو منائی گئی مگر بعد میں اس کو 29ستمبر کو منایا جانے لگا۔دل کی بیماریاں عالمی سطح پر موت کی سب سے عام وجہ ہیں۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں دنیا بھر میں تقریباً 17 ملین افراد ہر سال قلبی امراض سے مرتے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر اموات کورونری دل کی بیماری یا فالج کے نتیجے میں ہوئیں۔ ان بیماریوں سے ہونے والی 80 فیصد سے زیادہ اموات کم اور درمیانی آمدنی والے ترقی پذیر ممالک میں ہوتی ہیں۔ قلبی امراض کی بنیادی وجوہات ناقص خوراک، ورزش کی کمی، اور تمباکو نوشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔عالمی یوم قلب کی مناسبت سے کارڈیووسیکولر سرجن عطااللہ نیازی کہتے ہیں اگر ہم خطرے کے چار عوامل یعنی تمباکو نوشی سے پرہیز، غیر صحت بخش غذا سے اجتناب، جسمانی بے عملی کی روک تھام اورنشہ آور چیزوں سے دور رہیں تو دل اور خون کی شریانوں کی بیماریوں سے ہونے والی 80فیصد قبل ازوقت اموات سےبچ سکتے ہیں۔ تمباکو اور مضر صحت دھویں کے باعث ہرسال 60لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جن میں تقریباً 10فیصد امراض قلب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ تمباکو نوشی سے پرہیز کے دو سال کے اندر ، کورونری آرٹریز کی بیماری کا خطرہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے۔ امراض قلب ہرسال 17.9ملین اموات کا سبب بنتا ہے اور یہ تعداد 2030ء تک تقریباً23.23ملین ہوجائے گی۔ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں امراض قلب کے بڑھنے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں، جس کے باعث ان ممالک کی معیشتوں پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔عالمی یوم قلب کی مناسبت سے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر فرقان یعقوب نے دل کی صحت کے اقدامات اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ دل کو جسم کا پمپنگ اسٹیشن کہا جاتا ہے۔اس میں غیر صحت بخش غذاؤں کا کچرا خون کی رگوں اور شریانوں کو بلاک کرکے دل کی دھڑکن میں رکاوٹ ڈال کر دل کے دورے کا موجب بنتا ہے ۔ زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہمارے دل کی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں جیسے کہ دن میں 30منٹ ورزش کرنا، سگریٹ نوشی سے گریز اور صحت بخش خوراک کھانا۔ ہمیں جسمانی سرگرمی بڑھانے کے لئے چلنے پھرنے اور سائیکل چلانے کی عادت اپنانی ہوگی۔ اس کے علاوہ مشترکہ حکمت عملیوں کے ذریعے ایک دوسرے کو دل صحت مند بنانےکی ترغیب بھی دی جاسکتی ہے۔ بچوں کو اسکول ٹفن میں صحت بخش کھانا فراہم کرتے ہوئے،جنک فوڈز کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اوراس ضمن میں تمباکو نوشی کو کنٹرول کرنے کے لیے جامع پالیسیاں بنانی ہوں گی۔ چکنائی، چینی اور نمک کی زائد مقدار والے کھانوں کے نقصانات پر آگاہی فراہم کی جائے۔ منشیات کی روک تھام کے لیے آہنی شکنجہ مضبوط کرنا ہوگا۔پاکستان سمیت دنیا بھرمیں اموات کی سب سے بڑی وجہ دل کی بیماریاں ہوتی ہیں ۔ڈاکٹر عطااللہ نیازی کی آگاہی گفتگو عالمی یوم قلب کی مناسبت سے بڑی اہم تھی جس میں انھوں نے ایک مسئلہ کی جانب اشارہ بھی کیا اور وہ مسئلہ تھا ریمیٹک دل کی بیماریاں جن کا سیدھا اثر بخار کی وجہ سے ہوتا ہے ان کا کہنا تھا ریمیٹک دل کی بیماریاں ایسی ہیں جن کا آغاز گلے کے بخار سے ہوتا ہے،بخار جب بڑھتا ہے تو اس کا اثر دل کے والوز پر پڑتا ہے یعنی یہ بخار دل کے دروازوں کی کھلنے اور بند ہونے کے عمل کو خراب کرنے کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے دل کے مختلف خانے اور پٹھے بڑے ہو جاتے ہیں،ایک اندازے کے مطابق 33ملین لوگ ریمیٹک دل کے امراض کا شکار ہیں۔ بچوں میں اکثر گلے کا بخار کا ٹائم سے علاج نہ کروانے کی وجہ سے جب اپنی شدت اختیار کرتا ہے تو وہ دل کی جانب اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے اب وقت ہے کہ SOUR THRAOT CLINIC کے منصوبے پر عملی کام کیا جائے تاکہ وقت پر ہی بیماری کو پکڑ لیا جائے۔آگاہی گفتگو کے دوران ڈاکڑعطااللہ خان نیازی نے دل کے امراض سے بچاؤ کے لیے 3ڈی ایفیکٹ کے اصول کا طریقہ واضح کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ 20منٹ واک،ڈائٹ پلان یعنی اچھی اور صحت مند خوراک کااستعمال اور ہرطرح کی ڈرگس سے بچاؤ شامل ہے اور بیماری کی صورت میں اپنی ادویات وقت پر لینا شامل ہیں۔