بائیڈن صدارتی دوڑ سے باہر، کملا ہیرس کی نامزدگی کی توثیق،

امریکی صدر جوبائیڈن نے بالآخر ڈیموکریٹس رہنمائوں، سینیٹرز اور اراکین کانگریس کے دبائو اور مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے آئندہ نومبر کے صدارتی انتخا ب میں حصہ لینے سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیا۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک اور پارٹی کے وسیع تر مفاد میں دستبردار ہورہے ہیں، انہوں نے صدارتی امیدوار کیلئے نائب امریکی صدر کملا ہیرس کی نامزدگی کی بھی توثیق کی، صدر بائیڈن نے کملا ہیرس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک’غیر معمولی خاتون‘ ہیں، پارٹی سے باقاعدہ توثیق کے بعد کملا ہیرس پہلی ایشیائی نژاد غیر سفید فام خاتون امیدوار ہونگی۔

بائیڈن کی جانب سے کملا ہیرس کی توثیق اور ان کو فنڈ دینے کی اپیل ٹرمپ کیلئے خوش خبری اور ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے مزید مسائل اور مشکلات کا باعث ہوگی۔ بائیڈن اپنی پارٹی سے ناراض معلوم ہوتے ہیں۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی کملا ہیرس کی نامزدگی کی توثیق کی ہے، ڈیموکریٹس کی اکثریت نے پہلے ہی نائب صدر 55 سالہ کملا ہیرس کو بہترین صدارتی امیدوار قرار دے دیا تھا۔

سابق اسپیکر پارلیمنٹ نینسی پیلوسی اور ریبپلکن سینیٹر چک شمر نے بائیڈن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی صدر سب سے زیادہ محب وطن ہیں، سابق امریکی صدر اور ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ بائیڈن کبھی بھی صدارت کے منصب کیلئے فٹ نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ بائیڈن کے مقابلے میں کملا ہیرس کو ہرانا ان کیلئے زیادہ آسان ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن صرف جھوٹ اور جعلی خبروں کے ذریعے صدارت پر قابض رہے، ٹرمپ نے کہا کہ ان کے قریبی ساتھی اور ڈاکٹر جانتے تھے کہ وہ صدارت کے اہل نہیں تھے۔

امریکی کانگریس کے اسپیکر مائیک جانسن، ٹرمپ کی مہم کے سینئر ایڈوائزرز کرس لیسویتا اور سوسی وائلز نے مطالبہ کیا ہے کہ صدر بائیڈن عہدہ صدارت سے بھی مستعفی ہوں، ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ بطور امیدوار فٹ نہیں تو بطور صدر بھی مکمل فٹ نہیں ہیں۔

کملا ہیرس امریکی قوم کیلئے بائیڈن سے بھی زیادہ بدتر ثابت ہوں گی، روس کا کہنا ہے کہ جوبائیڈن کی دستبرداری کے اعلان کے بعد انہوں نے بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے جبکہ جرمن چانسلر اولاف شولز نےامریکی صدر کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے جرات مندانہ اقدام قرار دیا ہے۔

امریکی صدر جوبائیڈن نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ وہ جنوری 2025 میں عہدے کی میعاد ختم ہونے تک بطور صدر اور کمانڈر ان چیف کے طور پر اپنی ذمہ داریاں جاری رکھیں گے، بائیڈن نے مزید لکھا کہ وہ اپنے فیصلے سے رواں ہفتے قوم سے خطاب کریں گے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’بطور صدر آپ کی خدمت کرنا میری زندگی کا سب سے بڑا اعزاز رہا ہے، گوکہ دوبارہ الیکشن لڑنے کا میرا ارادہ ہے لیکن یہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں یہ ہے کہ میں بطور امیدوار دستبردار ہو جاؤں اور اپنے بقیہ مدت میں بطور صدر اپنی ذمہ داری ادا کرنے پر اپنی تمام توجہ مرکوز رکھوں۔

قبل ازیں 12 نامور ڈیموکریٹس رہنمائوں نے صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی ضد چھوڑ دیں۔ ان ڈیموکریٹس کی سربراہی میں امریکی ایوانِ صدر کے باہر ریلی بھی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکا نے نعرے لگاتے ہوئے صدر بائیڈن سے کہا کہ صدارتی امیدوار بننے کے مقابلے میں ملک کو ترجیح دو۔

کملا ہیرس کو نامزد کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ڈیموکریٹک پارٹی ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور کملا ہیرس کو بائیڈن کے تاخیری فیصلوں کے نتائج بھگتنے کے لئے قربانی کے طور پر پیش کردے۔ بائیڈن کی جانب سے تاخیر سے دستبرداری کے اعلان سے ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔

ڈیموکریٹ حلقوں میں پریشانی اور ٹرمپ کے حلقوں میں خوشخبری پائی جاتی ہے۔ ٹرمپ اب مزید پراعتماد ہیں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کی نامزدگی اور اس سے قبل پارٹی فیصلے سامنے آنے کا انتظار کرنا ہوگا۔ ابھی اس امیدواری کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں اگلے ماہ اگست میں ہونے کا مرحلہ باقی تھا۔

اتنی تاخیر، عوامی بحث اور پارٹی کے دبائو کے بعد بائیڈن کی دستبرداری ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے متعدد مسائل پیدا کرنے کا باعث بنی ہے جبکہ ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ عوامی مقبولیت کے سروے میں مسلسل اضافہ اور قاتلانہ حملے کے بعد اپنی پارٹی سے متفقہ حمایت اور نامزدگی کے مراحل سے بھی گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اعلان کردہ ایجنڈا میں متوسط طبقے اور عام بھلائی کے امور کو بھی شامل کرکے اپنے مخالف حلقوںمیں بھی اپنی نرم امیج پیش کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔

ڈیموکریٹ حلقوں میں کملا ہیرس، ریاست ایری زونا کے سینیٹر مارک کیلی، کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوسم اور کچھ نام سامنے آرہے ہیں۔ اب پارٹی کو جلد ہی اگست میں ہونے والے پارٹی کنونشن سے قبل اپنا فیصلہ کرنا ہوگا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی انتخابی امیدوار کون ہوگا۔

جہاں تک کملا ہیرس کا تعلق ہے تو امریکا ابھی تک ہیلری کلنٹن جیسی امریکی نژاد خاتون کو بھی صدر منتخب کرنے پر تیار نہیں تھا۔ ٹرمپ، ری پبلکن پارٹی ہی نہیں متعدد کنزرویٹو ڈیموکریٹ بھی ابھی تک خاتون کو امریکی صدر منتخب کرنے پر مائل نظر نہیں آتے۔

ایشیائی نژاد کملا ہیرس کو اگر پارٹی نے صدارتی امیدوار نامزد بھی کردیا تو اس سے ٹرمپ کی انتخابی مہم کیلئے ایک اچھی خبر ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف بڑی آسانی سے صدر منتخب ہوجائیں گے بلکہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں بھی ری پبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہوجائے۔

اس وقت بھی ایوان نمائندگان میں ری پبلکن پارٹی کو اکثریت حاصل ہے اور سینیٹ میں بھی ری پبلکن پارٹی کواکثریت حاصل کرنے کے لئے صرف 2؍ نشستوں کی مزید ضرورت ہے لہٰذا وہائٹ ہائوس میں ری پبلکن صدر کے ساتھ امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں بھی ری پبلکن پارٹی کی اکثریت کا امکان ہے۔

البتہ کیلی فورنیا کے گورنر اور ایری زونا کے سینیٹر میں سے کسی ایک کی نامزدگی ڈیموکریٹک پارٹی کے لئے ایک بہتر مقابلہ کی صورت ہوگی۔