ایم کیو ایم نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر سندھ میں نفرت کی سیاست بڑھانے کی کوشش کی جس کا سبق ان کو ان کے بانی الطاف حسین نے پڑھایا ہے اور ان کو جب جہاں موقع ملتا ہے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ اس بانی کے پیروکار ہیں۔

کراچی (اسٹاف رپورٹر) وزیر بلدیات، ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ، پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ و رورل ڈویلپمنٹ سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر سندھ میں نفرت کی سیاست بڑھانے کی کوشش کی جس کا سبق ان کو ان کے بانی الطاف حسین نے پڑھایا ہے اور ان کو جب جہاں موقع ملتا ہے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ اس بانی کے پیروکار ہیں۔ خالد مقبول صدیقی نے شہید ذوالفقار علی صاحب کے حوالے سے گمراہ کن باتیں کی ہیں ، کوٹہ سسٹم کا آغاز لیاقت علی خان نے کیا تھا بھٹو نے نہیں کیا تھا۔ نون لیگ حکومت بنتے وقت پیپلز پارٹی کے ساتھ گورنر سندھ کے حوالے سے کئے گئے معاہدے پر عمل کرے اور فوری طور پر گورنر سندھ کو ہٹا کر یا اپنا گورنر لگائے یا پھر پیپلز پارٹی کا گورنر سندھ لگائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز سندھ اسمبلی کمیٹی روم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری سید وقار مہدی، کراچی ڈویژن کے جنرل سیکرٹری جاوید ناگوری، وزیر اعلٰی سندھ کے مشیر نجمی عالم، سردار نزاکت اور دیگر بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ کورنگی میں ہمارے کنٹونمنٹ بورڈ کے کونسلر عامر عباسی کو کل قتل کیا گیا اس عمل کی مزمت کرتے ہیں اور ہم جلد انکے قاتلوں تک پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی قوت نے کراچی میں ایک بار پھر ٹارگٹ کلنگ کا آغاز کیا ہے تو ہم اسکو ناکام بنائیں گے۔ سعید غنی نے کہا کہ بدقسمتی سے ماضی میں اس شہر میں بہت کچھ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم ہمیشہ کی طرح سندھ میں نفرت کی سیاست بڑھانے کی کوشش کررہی ہے، جس کا سبق ان کو ان کے بانی نے پڑھایا ہے اور جب جہاں انہیں موقع ملتا ہے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ اس بانی کے پیروکار ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ جب جب اس صوبے میں ماحول میں بہتری آتی ہے یہ زہر اگلنا شروع کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت تھی تو خالی اسامیوں کو پر کرنے کے لئے اخبارات میں اشتہار دئیے اور قانونی طریقہ اختیار کیا۔ جس پر ایم کیو ایم نے عدالت میں کیس کردیا اور کہا کہ الیکشن سے قبل نوکریاں دی جاری ہیں جس سے الیکشن پر اثر ہوگا اور اس کیس کا جو فیصلہ آیا ہے وہ ایم کیو ایم کی مرضی سے نہیں ہے، بلکہ ہم تو اب خود یہ سمجھتے ہیں کہ جو اشتہار آج سے ایک سال قبل آیا تھا اب دوبارہ سے بھرتی کا عمل شروع ہونا چائیے۔ سعید غنی نے کہا کہ کابینہ کا فیصلہ تھا کہ امیدواروں سے سکھر آئی بے اے سے اسکا ٹیسٹ کروایا جائے گا بار بار اسکا ٹیسٹ نہیں کروایا جائے گا انٹرویو کا عمل ہونا تھا بس لیکن ان عقل کےاندھوں نے اس عمل بھی اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا اس وقت پاکستان میں آئی بی اے سکھر سے اچھا ٹیسٹنگ محکمہ کوِئی ہے نہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ جب سندھ حکومت نے یہ بات کی تو کیس آگے چلنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم چاہتی تھی کہ جو بھرتیاں ہوں اس کے لئیے کمیٹی بنے اور ایم کیو ایم کے نمائندے اس میں شامل ہوں، لیکن قانون میں ایسا کچھ نہیں ہے، محکمہ کے افسران ہی محکمہ میں اپنے طور پر بھرتیاں میرٹ پر کرتے ہیں اور اگر ہمیں بھرتیاں اپنی مرضی سے کرنا ہوتی تو محکمہ تعلیم میں ہم۔نے 60 ہزار بھرتیاں میرٹ پر کی ہم اس کو اپنے کارکنوں، ایم این اے اور ایم پی ایز میں بانٹ دیتے تو ہمارے لیے کیا مشکل تھا لیکن ہم نے میرٹ پر کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ ک فیصلے کو لے کر آج ایم کیو ایم والے بغلیں بجا رہے ہیں کہ انہوں نے کوئی بہت بڑا تیر مار لیا ہے جبکہ ہم نے خود بہتر سمجھا اور عدلیہ کو لکھا ہے کہ دوبارہ اشتہار دے کر ہم صاف و شفاف میرٹ پر بھرتیاں کرنا چاہتے ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ گذشتہ روز ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی کا جو عمل تھا وہ کسی صورت مناسب نہیں تھا۔ انہوں نے بھٹو صاحب کے حوالے سے گمراہ کن باتیں کی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ کوٹہ سسٹم کا آغاز شہید ذوالفقار علی بھٹو نے نہیں بلکہ لیاقت علی خان نے کیا تھا۔ اس

کی وجہ جب پاکستان بنا تھا تو بنگالی اکثریت میں تھے ، لیکن انکے پاس وسائل نہیں تھے ، کوٹہ سسٹم لائے تاکہ بنگالیوں کو سرکاری نوکریوں میں جگہ ملے۔ انہوں نے کہا کہ 1956 کے آئین میں کوٹہ سسٹم موجود تھا۔ جنرل یحیی خان نے اپنے مارشل لا میں بھی اس کو شامل رکھا اور جب 1973 کا آئین بنا تو بھٹو صاحب نے ماضی کی طرح کوٹہ سسٹم جاری رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں، ہمارا ووٹ بنک دیہی ہے یہ ایم کیو ایم کہتی ہے تو پھر چالیس فیصد نوکریاں تو شہری لوگوں کو دینی ہے یہ تو انا پروٹیکشن ہے۔ لیکن یہ جو زہر اگلتے ہیں تو یہ ہمارے لئیے ون ون پوزیشن ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ ایم کیو ایم اپنی سستی گھٹیا سیاست کو چمکانے کے لئیے جو زہر یہ لوگ گھولتے ہیں آپ صوبے کی خدمت نہیں کر رہے۔ آئی بی اے سکھر میں سکھر کا نام جڑنے پر ایم کیو ایم نے اعتراض شروع کردیا۔ یہ اردو بولنے والے بھائیوں کو خوف دلاتے ہیں کہ سندھی مارے گا، پنجابی مارے گا ،پٹھان مارے گا۔ سعید شہر کی بربادی انکے آنے کے بعد ہوئی ، ان عقل کے اندھوں نے نیشنلائزیشن پر تنقید کی، یہ برملا کہیں نہ کہ 22 خاندانوں کا ملک پر اثر ہونا چائیے ورنہ آج بھی 22 خاندان ہوتے، آج 22 خاندان نہیں 22 ہزار خاندان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حیرت ہوتی ہے خالد مقبول صدیقی یہ بات کر رہا ہے، خالد مقبول کا اصل تو مصطفی کمال ہے، انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم تو پی ایس پی کے نرغے میں ہے اور مصطفی کمال نے کہا کہ خالد مقبول نے پاسپورٹ جلا دیا پتہ نہیں کیا کیا اب وہ ہمیں درس دے گا۔ سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس شہر کی بڑی سیاسی جماعت تھی اور آج بھی وہ اس شہر کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی بات ہو رہی تھی تو یہ بات ہوئی تھی کہ گورنر سندھ کو تبدیل کیا جائے گا، اس وقت ن لیگ نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے کا گورنر آپ لگائیں سندھ میں گورنر ہمارا ہوگا۔ ہم نے کہا تھا کہ اگر گورنر نون لیگ اپنا لگائے گی تو ٹھیک ورنہ پیپلز پارٹی کا گورنر سندھ لگے گا۔ آج میں مطالبہ کرتا ہوں کہ نون لیگ فوری طور پر گورنر سندھ اپنا لگائے یا پھر پیپلز پارٹی کا گورنر لگایا جائے۔ اس موقع پر وقار مہدی نے کہا کہ ایم کیو ایم کا مسئلہ یہ ہے کہ انکی مقبولیت نہیں رہی، ان کی روٹی اور بوٹی بند ہوگئی ہے ، عوام میں اب وہ گمراہ کن پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن میں انہوں نے راہ فرار اختیار کی، اب تو ان کی کراچی حیدر آباد میں نمائندگی نہیں۔ وقار مہدی نے کہا کہ وہ کیوں
2001 میں کیوں یہ الیکشن سے بھاگے تھے اس لئے کہ یہ ڈکٹیشن پر کام کرتے ہیں او4 ہم عوام کی امنگوں کے حساب سے کام کرتے ہیں۔ ایک سوال کا جواب میں سعید غنی نے کہا کہ اگر سندھ میں حکومت قائم ہے تو اگر کراچی میں سیکریٹریٹ قائم ہے تو سیکریٹیریٹ میں ہر رنگ و نسل کا آدمی نظر آتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم سے ہوچھا جائے کس حکومت کے سامنے انہوں نے کوٹہ سسٹم کی بات کی۔ نوکریوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ کراچی کے شہری میرٹ پر آتے ہیں کسی کا کارکن نہیں آتا، ایم کیو ایم والوں سے پوچھا جایے کہ یہ وفاقی حکومت میں رہے کتنی نوکریاں انہوں نے دیں ؟ بلکہ انہوں نے ساری نوکریاں بیچی تھی۔ ان کے تین مئیر کراچی رہے کوئی سہر کی کوئی خدمت نہیں کی۔ انکا دھندا بند ہوگیا ، عزیز آباد لیاقت آباد میں انکا کوئی نہیں نام لینے والا۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ جلسہ بھی کرتے ہیں تو حیدرآباد اور ادھر ادھر سے یہ لوگ لاتے ہیں۔ اردو بولنے والے بھائیوں سے تہزیب و آداب سیکھتے تھے، جب سے یہ اندھے کانے، ٹنڈے آگئے تباہی تو ایم کیو ایم لائی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ حکومت کی زمہ داری ہے بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لئیے اپنا کام کر رہے ہیں، کے الیکٹرک، حیسکو اور سیپکو کے اعلٰی افسران سے اجلاس میں ان سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کو کم سے کم کرنے اور رات کو 10 بجے سے صبح 6 بجے تک لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا کہا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی ڈمی آدمی کی پریس کانفرنس پر اپنا کام نہیں چھوڑیں گے، اگر لیڈرشپ پر غلط بات کی جائےگی تو اسکا جواب دینا لازمی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ماضی میں بلدیاتی اداروں پر ظلم کیا گیا، آج صورتحال یہ ہے کہ کئی بلدیاتی محکموں کے پاس تنخواہیں دینے کے لئیے پیسے نہیں، ریٹائر ہونے والے ملازمین پنشن کے لئیے دھکے کھا رہے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ کونسے ادوار تھے جو پینشن کے ہیسے کہیں اور خرچ کر دئیے گئے، آج ہزاروں بزرگ ایسے ہیں جنکی ادائیگی کرنی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا شیوہ نہیں کسی کو نوکریوں سے نکالیں۔ البتہ ہم نے ایسے بھی لوگ پکڑے ہیں جو چار چار نوکریاں کرتے تھے۔ ایک آدمی ڈی ایم سی کا ملازم ہے اور کے ایم سی کا بھی ملازم ہے، ایم کیو ایم کے دور میں بیک ڈیٹس میں بھی نوکریاں دی گئیں ہیں۔ ڈومیسائل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈومیسائل کے حوالے سے کمیٹی بنائی گئی تھی، کوشش ہے نظام فل پروف ہوجائے۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہ کرنے کے میثاق جمہوریت میں ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ میثاق جمہوریت نہیں بلکہ 2007 میں لندن کی آل پارٹی کانفرنس میں ہوا تھا اور اس میں بھی پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی تھی کیونکہ محترمہ شہید ہمیشہ کہتی تھیں کہ ایم کیو ایم کے اندر دو ایلیمنٹس ہیں ایک منٹیلنس اور دوسرا سیاسی ہے اور سیاسی لوگوں سے ہمیشہ بات چیت کی جانی چاہیے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جن تمام لوگوں کا انتقال ہوا، چیک کرا رہے ہیں کہ ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے ہوا اور وہاں بجلی نہیں تھی، سعید غنی نے کہا کہ میں ایف آئی آر کے الیکٹرک کے خلاف کٹوانے کے بات پر قائم ہوں۔ ایف آئی آر مرنے والوں کے لواحقین کو ہی کٹوانا ہے۔ ایک سوال پر سعید غنی نے کہا کہ مئیر کراچی اور میرے درمیان کوئی اختلاف نہیں یہ تاثر پتہ نہیں کہاں سے آگیا ہے۔