سچ تو یہ ہے,
(2)
بشیر سدوزئی،
ہم پچھلے کالم میں آزاد کشمیر میں قدیم روایات کے ٹوٹنے اور ڈوگرہ کے مراعات یافتہ جاگیرداروں کے معاشرتی کردار کا جائزہ لے رہے تھے۔ جنہوں نے علاقے میں اور خاص طور پر اپنی جاگیروں کے قریب یا اطراف کی آراضی پر مزارعے آباد کر رکھے تھے، جو پیشہ ورانہ خدمات کے حوالے سے مشہور ہوئے۔ ابتدائی زمانے میں یہ اقلیتی کنبے جاگیرداروں کے ذاتی ملازم کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ پیشہ ور کارکن کہلائے جن کے پیشے کے بارے میں گزشتہ کالم میں ذکر ہوا۔ جاگیردار تو ڈوگرہ کے نمائندے تھے سو ان کی عادت و اطور ڈوگروں جیسے ہی تھے جو عام لوگوں سے مفت کی مشقت لینا اور ان کا خون چوسنا اپنا حق سمجھتے۔ لیکن آزادی کے بعد اس روش میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئی۔ ڈوگرہ کا نظام جبر اور انتظام اتنا پختہ و مضبوط تھا اور اس کی جڑیں اتنی گہری تھی کہ بغیر کسی انتظامی سہارے کے لگ بھگ 20 سال تک چلتا رہا۔ بلآخر 1970 تک ظلم و جبر کی یہ عمارت زمین بوس ہوئی۔ جاگیردار اور جاگیریں آج بھی ہیں لیکن محض نمائشی البتہ جو سیانے تھے انہوں نے اولادوں کو تعلیم یافتہ کرایا اور وسائل کے زور پر حکومت میں آ گئے۔ آج کے نوجوانوں کو اندازہ ہی نہیں کہ حکمرانوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کے اجداد ڈوگروں کو خوش کر کے ہمارے اجداد پر حکومت کرتے رہے، اور آج ان کی اولادیں دیسی انگریزوں کو خوش کر کے ہم پر حکومت کرتے ہیں۔ اس زمانے میں لوگ اپنا کماو اپنا کھاو کے اصول کے مطابق باہم مل جل کر ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شامل ہوتے اور باہمی تعاون اور ادل بدل کے ایمان دارانہ نظام کے تحت زندگی کے دن کاٹتے اور اسی ادل بدل نظام کے تحت ہی میت کو بھی دفن کیا جاتا۔ مکانات کی تعمیر شادی بیاہ سمیت روز مرا کے امور زندگی کی انجام دہی کے لیے باہمی اشتراک ہی رہتا، جس کے باعث لوگوں کو کوئی دشواری نہ ہوتی۔ کھیتی باڑی اور گلہ بانی ذَرِیعَۂ مَعاش تھا جو پیٹ پوجا کے لیے کافی ہوتا۔ اور فاضل اخراجات بھی اسی میں سے اضافی کو بیچ بوچ کر پورا کرتے۔ زندگی مشکلات میں ہونے کے باوجود پرسکون اور لوگ مطمئن رہتے کہ ان کو ہوس دولت کی ہوا نہیں لگی تھی۔ وہ روایات آزاد کشمیر کے دیہاتوں کا حسن اور عوام کی طاقت تھیں جو اب ٹوٹتی جا رہی ہیں، بلکہ ٹوٹ چکی ہیں۔ غیر محسوس انداز میں زمانہ سرک گیا، اسلوب و اصول تبدیل ہو گئے۔ بقول شاعر
” ادل بدل میں ہی خیمے تباہ کر ڈالے
یہاں نہ گاڑ وہاں سے اکھاڑ کرتے ہوئے”
آج کے آزاد جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں کی زندگی اور جدید شہری زندگی میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہا جس سے کچھ آسانیاں اور سہولیات تو میسر آئیں لیکن مسائل اور دشواریاں اس سے زیادہ ہو گئیں۔ ماضی میں روایات سے جڑے لوگ ممکن ہے بہت ساری سہولیات سے محروم رہے تھے لیکن ذہنی اور قلبی سکون ان کو آج کی زندگی سے بہتر مراعات و ماحول مہیا کرتا تھا۔ دور پہاڑوں اور جنگلات میں امریکن کیچن، شاور اور کموڈ لگے بڑے بڑے واش روم، جدید اور مہنگے فرنیچر سے مزئین ڈرائنگ روم، بیڈ روم میں آسود اور کشادہ پلنگ کیا ہی ماڈرن شہروں میں ہوں گے جو یہاں آزاد کشمیر کے دیہاتوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ برانڈ کا استعمال عام ہی نہیں بلکہ ہر عام و خاص اور امیر و غریب کے درمیان مقابلہ چل رہا ہے۔ کئی پکوان پر مشتمل دعوتوں کا تو تذکرہ ہی نہیں، کوئی کسی مجبوری میں بھی کسی سے ملنے یا تعزیت کے لیےجائے تو مختلف انواح و اقسام کی ڈشیں تو ضرور پکیں گی، سلاد و ریتہ اور میٹھا نہ ہو تو کھانے کا لطف ہی کیا، چائے بسکٹ اور دیگر لوازمات سے ایسے تواضع کی جائے گی جیسے رشتہ مانگنے آیا ہو۔ میں نے پندرہ روز میں جتنی چائے پی اور کھانا گھایا وہ کراچی میں تین چار ماہ کا کوٹہ ہے۔ صاحب حیثیت کے لیے ممکن ہے فرق نہ پڑے، لیکن میڈلسٹ میں 12 سو ریال تنخواہ دار افراد یا پاکستان میں 30 ہزار آمدنی والا خاندان اس مقابلے میں لگ جائے جس کے گھر پر چھ افراد کا کنبہ بغیر کچھ کاج کئے، پورا دن فضول اور بے صرف گزار دیتا ہے کے سر پر مسائل کا انبار نظر آتا ہے۔ لیکن صاحب خانہ کو بالکل اس کا اندازہ نہیں نہ فکر فاقہ ہے کہ دیار غیر میں عارضی ملازم کو وہاں سے دیس نکالا ہوا تو اگلا گزارا کیسے ہو گا۔ خاندانی نظام ایسا ٹوٹا کہ اب تو مانگے تانگے کوئی اپنا بھی قرض نہیں دیتا اور اس آسرے پر کوئی کب تک دیتا رہے کہ لڑکا باہر جائے گا کمائے گا ہمیں بھی دے گا اور آپ کو بھی۔۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آج بھی اکثریت محدود آمدنی میں سے کثیر حصہ فضولیات پر خرچ کرتی ہے اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کچھ بھجتا ہی نہیں۔ ہر گھر کے بجٹ کی یہی صورت حال ہے جیسے پاکستان کے بجٹ کی اللے تللے خرچ کیا جاتا ہے اور قوم کرب سے دوچار ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت کام سے عاری۔ بے پری کے بحث مباحثہ میں مشغول مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو مکمل طور پر بھول چکی جو ان کی مدد کے منتظر ہیں۔ زمینیں بنجر پڑھی ہیں، لسہن، ٹماٹر اور مرچ تک کوئی کاشت نہیں کرتا جو زمین کا حسن اور گھروں کے اطراف خوبصورتی کا مظہر ہیں۔ پرانی سڑی سبزیوں کی تلاش میں گھنٹوں بازاروں اور دوکانوں پر انتظار کیا جاتا ہے۔ پھل دار اور کشمیر کے مقامی درخت کوئی نہیں لگاتا۔ یہ غربت اور افلاس میں اضافے کا اشارہ ہے جو آزاد کشمیر کے دیہاتوں میں نازل ہونے کو ہے۔ اگر خوش قسمتی سے فاقہ کشی کی نوبت نہ بھی آئی تو غربت کی لکیر گہری ہوتی جائے گی جس کی شروعات تقریبا ہو چکی۔ آج بھی آزاد کشمیر اور خاص طور پر پونچھ کا معاشرہ دو واضح گروپوں میں تقسیم ہو چکا، امیر اور غریب۔ دونوں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ امیر، امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہو رہا ہے۔ راولاکوٹ شہر کی مثال کیا دوں گاوں دیہاتوں میں بعض گھروں کے باہر انتہائی مہنگی گاڑیاں کھڑی ہیں جن کی مثال عرب شیخوں کی دی جا سکتی ہے۔ البتہ امیر کو ساہوکار نہیں کہا جا سکتا، جیسا کہ کچھ نوجوان اسی طرح کی نعرہ بازی میں وقت صرف کر رہے
ہیں کہ ہم انقلابی ہیں۔ جب انقلاب آئے گا تو سرمایہ دار کا سرمایہ سب پر مساوی تقسیم ہو گا اور سب مل کر عیش عشرت سے زندگی گزاریں گے، لیکن ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ آزاد کشمیر کے سرمایہ داروں کی اکثریت نے محنت کی، بیرون و اندرون ملک ہجرت کی خود تعلیم و ہنر سیکھا بچوں کی بھی تربیت کی اور معاشی دوڑ میں آگئیں نکل گیا۔ غریب کو بے کار کہنا کوئی حرج نہیں جو دیس پردیس تو کیا زمین کے ساتھ بھی تعلق توڑ چکا تو وسائل آئیں گے کہاں سے جو جدید دنیا کی سہولتوں کا لطف اٹھائے گا۔ اس نے تو بلاوجہ امیر کے ساتھ مقابلہ شروع کر رکھا ہے جس سے وہ تیزی سے غریب سے غریب تر ہو رہا ہے۔ جس کی انتہاء کنواں ہے جہاں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ نوجوان نسل تو بہت ساری روایات سے واقف ہی نہیں اور نہ ان کو تسلیم کرتی ہے جو ان کی سرواول کی بنیاد ہے مگر وہ دیکھا دیکھی میں روز بروز ڈوبتی جا رہی ہے۔ اگر ان سے پرانے کام کاج اور رسم و رواج کے بارے میں بات کی بھی جائے کہ ہمارے پرکھوں کا رہہن سہن ایسا تھا، آپ بھی کچھ اسی طرح کا کریں تو ان کے چہرے پر عجیب ناگواری کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔ ہم نوجوان نسل کو اس پر کوستے ہیں نا ان سے کوئی شکایت ہے۔ سچی بات یہی ہے کہ آزاد کشمیر کی بند وادیوں میں رہنے والے اس زمانے میں جدید دنیا سے واقف ہی نہیں تھے۔ 1970ء کے بعد سڑکوں کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو لوگ نسل در نسل قید و بند سے آزاد ہونا شروع ہوئے جو بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں وادیوں میں رہتے، وہاں ہی گھومتے اور وہاں ہی کماتے اور کھاتے۔ 1970ء کے بعد ہی لوگ آزادانہ طور پر بند وادیوں سے باہر نکلے اور دیگر علاقوں کی طرف آنا جانا شروع کیا۔ میل ملاپ میں اضافے سے جدید دنیا کی ہوا لگی آج جو امیر ہیں ان پر اسی ہوا کا اثر ہے جنہوں نے ہوا نہیں لی وہ آج بھی تنگی میں ہیں۔60 کی دہائی میں تعلیم پر توجہ ہوئی اور پرائمری اسکول قائم ہونا شروع ہوئے۔ جب ہم نے اسکول میں داخلہ لیا تو اس وقت سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات ناپید تھیں، سخت سردی میں پتھروں پر بیٹھ کر پڑھنا اور بڑے شہروں میں جدید سہولتوں سے آراستہ اسکول میں پڑھنے والوں سے مقابلہ کرنا اور پھر علی گڑھ، عثمانیہ، پونا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد کی اولادوں سے مقابلے میں کھڑا ہونا معمولی نہیں جان جوکھوں کا کام تھا۔ یہ گاڑیاں، یہ بنگلے، یہ شان و شوکت ایسے نہیں ملتی، وقت ضائع کئے بغیر دن رات ایک کرنا پڑھتا ہے۔ پھر جا کر کوئی ساتھ میں پاوں دھرنے کی جگہ دیتا ہے۔ میرا نوجوان جس نے دسویں پاس کر دی سیاست کی معراج پر پہنچا ہوا ہے۔ کشمیر خود مختار بنا رہا ہے جب کہ معلوم ہی نہیں یہ خود مختاری ہے کیا اور کیسے بنے گی، کوئی کشمیر پاکستان بنا رہا ہے جب کہ 77 برسوں میں ایک انچ زمین کوئی حاصل نہیں کر سکا، بہت سارا بنا پاکستان دے دیا گیا۔ نوجوان ہر روز احتجاج کرتا ہے کہ یہ نہیں ملا وہ نہیں ملا حکومت یہ نہیں دے رہی وہ نہیں دے رہی۔ جب کہ خود کچھ نہیں کر رہا۔ جو شخص اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ کے حقوق پورے نہیں کر رہا ان کی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا اس نے قوم کی قیادت کیا کرنی۔۔۔۔۔ باقی آئندہ ۔۔۔