عابد حسین قریشی
ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج لاہور (ر)
======================
بے قابو , بے لباس کھسرے۔۔ عابد حسین قریشی . ہم نے تو یہی پڑھا، سنا اور دیکھا تھا ، کہ کھسرے جنہیں ذرا شستہ زبان میں خواجہ سرا بھی کہتے ہیں، وہ بہت مظلوم اور پسہ ہوا طبقہ ہے۔ اور کسی کا خواجہ سرا بننا اسکے بس میں نہیں ہوتا۔ جن کے ساتھ یہ ہوتا ہے یہ وہی جانتے ہیں یا انکے بدقسمت لواحقین۔ کبھی بھلے وقتوں میں انہیں تیسری دنیا بھی کہتے تھے۔ پھر وقت نے انگڑائی لی تو ان خواجہ سراؤں کے حقوق کی بات چل نکلی۔ اور بڑے اعلیٰ سطح کی عدلیہ نے بھی ان حقوق کو تسلیم کرانے اور انہیں دلوانے میں بڑا موثر کردار ادا کیا۔ کسی زمانے میں جب ابھی میڈیا یا سوشل میڈیا پر موسیقی یا دیگر رنگینیاں عام نہیں ہوئی تھیں، تو یہ کھسرے یا خواجہ سرا ہماری سوشل زندگی کا لازمی جزو تھے۔ خصوصاً ہمارے دیہات میں کسی گھر میں شادی یا بیٹے کی ولادت پر یہ خواجہ سرا جس بھرپور طریقہ سے اپنی انٹری ڈالتے تھے اور گھر والوں سے ودائ مانگتے تھے۔ ساتھ ڈھولک کی ٹھاپ اور بے سرے گیتوں کی لے، گھر والوں کو خواجہ سراؤں کی من پسند رقم دیکر جان چھڑانی پڑتی، مگر اس سارے عمل میں آدھا گاؤں موقع پر اکٹھا ہو جاتا۔ لیکن لوگ انہیں تنگ نہیں کرتے تھے۔ پھر انکے فن موسیقی و ناچ پر زوال آنا شروع ہوا کہ لوگ امیر ہوتے گئے اور اب خواجہ سراؤں کی جگہ شادی بیاہ کی تقریبات میں فنکار اور فنکاراءیں گانے اور ناچنے لگیں۔۔
وہ جو کہتے ہیں کہ مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے کے مصداق اب روٹی روزی کے لیے ان خواجہ سراؤں کو لاہور جیسے فن کے قدر دانوں کے شہر میں بھی سڑکوں پر ٹریفک سگنلز پر باقاعدہ تیار ہو کر بھیک مانگنا پڑی۔ پسینے سے شرابور میک اپ میں خواجہ سرا گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے تو انکی بے بسی اور مفلوک الحالی پر کچھ تکلیف سی ہوتی کہ یہ بیچارے کس کام پہ لگ گئے ہیں۔ ہمارے ہاں تو لوگ ان کی بد دعا سے بھی ڈرتے ہیں۔۔ گزشتہ ایک دو ماہ سے متواتر یہ خواجہ سرا عجیب قسم کی خبروں میں ہیں۔ پہلے کھاریاں کے تھانہ میں حملہ آور ہوکر انہوں نے علی الصبح جس طرح پولیس والوں کو پکڑ پکڑ کر سڑک وہ بھی جی ٹی روڈ پر کھڑا کرکے رات تھانہ میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی کا بدلہ لیا وہ ناقابل یقین تھا۔ پھر شاید بہاولپور میں بھی کچھ اسی طرح کا وقوعہ رونما ہوا، چند روز قبل کے پی کے شہر نوشہرہ میں بھی تھانہ کے اندر اس طرح کی ہی واردات ہوئی ۔ گزشتہ روز لاہور میں ایک درزی کی کھسروں نے خوب درگت بنائی اور پولیس کو خوف سے اسی درزی کو ہی گرفتار کرنا پڑا۔۔ ان تمام وارداتوں میں ایک بات مشترک تھی کہ ہر موقع پر خواجہ سراؤں نے بے لباس اور ننگ تڑنگ ہوکر احتجاج کیا۔ ہمارے جیسے درد دل رکھنے والےلوگ تو ان خواجہ سراؤں کو صنف نازک ہی سمجھتے رہے، مگر بے لباسی میں تو کئی بھرم کھل گئے ۔ قطع نظر اس بات کے کہ یہ نازک اندام ، ناز و نخرہ سے چلنے اور باتیں کرنے والے اتنے ہتھ چھٹ کیسے ہوگئے کہ پورے پورے تھانہ کو آگے لگا لیا اور سیاسی ورکروں پر بھی طبع آزمائی کر لی۔ حکومت اگر باقی امور مملکت سے فارغ ہو اور اگر مناسب سمجھے تو ایک وزارت امور کھسرا بھی قائم کر سکتی ہے، یا کوئی کمشن قائم کرکے کھسروں کے اندر اچانک اس مردانہ پن پیدا ہونے کی وجوہات تلاش کر سکتی ہے۔ ہمارے ہاں تو لوگ کمزور صاحب اختیار افسروں کو خواجہ سرا یا کھسرے کا طعنہ دیا کرتے تھے، مگر اب ان کھسروں کی مردانگی اور غیرت کو دیکھ کر یہ بھی ممکن نہیں رہا ۔ وجہ معاشی محرومیاں ہیں یا سماجی، سیاسی ہیں یا انتظامی ، درجہ حرارت میں شدید اضافہ ہے یا ان خواجہ سراؤں کو کوئی موثر اور حاذق حکیم دستیاب ہو گیا ہے۔ یا حکومتی مشینری کمزور و ناتواں ہو گئی ہے کہ ان ہتھ چھٹ کھسروں کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔ مگر ان تحقیقات میں ان خواجہ سراؤں کے جو حقیقتاً مظلوم و مجبور مخلوق ہے، ان پر معاشرہ اور ریاستی اداروں کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں پر بھی تو بات ہونی چاہیئے ۔ اگر ہر دوسرے روز ہم نے بے لباس کھسرے احتجاج کرتے ہوئے تھانوں پر حملہ آور ہو تے دیکھتے رہنا ہے تو جس روز لباس پہنے “مرد”میدان میں آگئے تو پھر۔