طالبان اور اسکول

ڈاکٹر توصیف احمد خان
==================


طالبات کے اسکولوں کو تباہ کرنے کی وباء پھر زور پکڑگئی۔ شمالی وزیرستان کی رزمک تحصیل کے طالبات کی اسکول پر رات کے اندھیرے میں نامعلوم افراد نے حملہ کر کے نذرِ آتش کردیا۔ یہ سانحہ رزمک گاؤں سنگی میل میں پیش آیا۔آگ کے شعلوں نے اسکول کے فرنیچر، کمپیوٹر اور آلات کو جلا کر خاک کر دیا۔ اسکول کی عمارت کو نذرِ آتش کرنے والے افراد اپنا مشن مکمل کرکے کمین گاہوں میں روپوش ہوگئے۔ ستکی میرگاؤں کی ویلفیئر آرگنائزیشن کے رکن ابرار نے رپورٹروں کو بتایا ہے کہ یہ اسکول ویلفیئر آرگنائزیشن نے 2020 میں پاک فوج کی مدد سے تعمیرکیا تھا۔

اس سے پہلے 9 مئی کو جنونی دہشت گردوں نے جنوبی وزیرستان کے گاؤں ساوا کے علاقے میں طالبات کے ایک اور اسکول کوکامیابی کے ساتھ آگ کے شعلوں کی مدد سے خاک میں ملا دیا تھا۔ معاملہ صرف طالبات کے دو اسکولوں کی تباہی تک نہیں رکا بلکہ 17 مئی کو ان جنونی دہشت گردوں نے لوئر ساؤتھ وزیرستان میں ایک پرائیویٹ اسکول کی زیرِ تعمیر عمارت کو بموں کے حملہ سے تباہ کیا تھا۔ پولیس نے مقدمہ ضرور درج کیا مگر پولیس دہشت گردوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔

دستیاب اعدادوشمار کے مطابق کابل پر طالبا ن کے قبضے کے بعد سابقہ قبائلی علاقوں میں 12 سے زیادہ اسکولوں کی عمارتوں کو مسمار کیا جاچکا ہے۔ وزیرستان، شمال مغربی پاکستان میں افغانستان سے منسلک علاقہ ہے۔ وزیرستان دو اضلاع شمالی اور جنوبی وزیرستان کہلاتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان کی آبادی 760,000 اور شمالی وزیرستان کی آبادی 740,000ہے، مگر وزیرستان کے 7قبائلی اضلاع میں 52 فیصد کے قریب ناخواندہ ہے۔

انٹرنیٹ سے ملنے والے اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کل آبادی کے صرف 22 فیصد حصے نے پرائمری جماعتوں میں تعلیم حاصل کی ہے جب کہ آبادی کا صرف 10فیصد حصے نے مڈل لیول اور 7 فیصد افراد میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے جب کہ 3.5فیصد افراد نے انٹرمیڈیٹ اور صرف 2 فیصد افراد پوسٹ گریجویشن اور 0.1 فیصد افراد نے ایم فل اور پی ایچ ڈی تک تعلیم حاصل کی ہے۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے حالا ت انتہائی خراب ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں 14 فیصد اور شمالی وزیرستان میں صرف 17.4 فیصد طالبات خواندہ ہیں۔

طالبات کی تعلیم کے تناظر میں تاریخ کا جائزہ لیا جائے توکچھ تلخ حقائق یوں سامنے آتے ہیں کہ افغانستان اور خیبر پختون خوا کے سابقہ قبائلی علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رواج نہیں تھا۔ اس خطے کے مولوی صاحبان جدید تعلیم کو مغرب کی بے راہ روی پھیلانے کا ہتھیار سمجھتے تھے اور خواتین کے تنہا گھر سے نکلنے اور تعلیم حاصل کرنے کو اسلام کے احکامات کے منافی جانا جاتا تھا۔ افغانستان میں ظاہر شاہ اور پھر سردار داؤد نے مردوں اور خواتین کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے کچھ پالیسیاں بنائی تھیں۔ جب افغانستان کی کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈ نور محمد تراکئی نے اقتدار سنبھالا تو مردوں اور خواتین کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا۔ پاکستان میں آزادی کے بعد برسرِ اقتدار حکومتوں نے مردوں اور خواتین کو خواندہ بنانے کے لیے پالیسیاں نہیں بنائیں۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ریاست نے عوام کے تعلیم کے حق کو تسلیم کیا تھا۔

امریکا نے افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے ایک پروجیکٹ شروع کیا۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت اور افغانستان کا اقتدار سے محروم ہونے والا امریکا نواز طبقہ اس پروجیکٹ کا حصہ بن گئے ۔افغانستان کی مذہبی جماعتیں اور ان کے نظریات سے ہم آہنگ پاکستان کی مذہبی جماعتیں بھی اس پروجیکٹ میں شامل ہوگئیں۔ امریکا،یورپی ممالک اورامیر عرب ملکوں سے ڈالروں اور مالی امداد کی بارش برسنے لگی۔ افغان قبائلی سردار اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں آکر آباد ہوگئے اور رجعت پسندی کے نظریات کا سرکاری سرپرستی میں پروپیگنڈا شروع ہوا۔ اس پروپیگنڈے کا ایک اہم عنصر خواتین کو گھروں میں مقید کرنا تھا۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اﷲ بابر کو وزیر داخلہ مقررکیا۔ جنرل بابر ہمیشہ افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے نظریے کے حامی تھے، یوں ملک مختلف علاقوں کے مدرسوں میں زیرِ تعلیم افغان طلبہ کو منظم کرکے طالبان کی تشکیل ہوئی۔

پاکستان کی مدد سے طالبان نے کابل کے تخت پر قبضہ کیا اور افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ طالبان نے سب سے پہلے پاکستان کے قبائلی علاقے میں طالبات کی تعلیم کے حق کو روکنے کی کوشش کی مگر پاکستان کی انتظامیہ اور سول سوسائٹی کی مزاحمت پر وہ اپنا مقصد حاصل نہ کرسکے تو خواتین کے اسکولوں کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے تباہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب پاکستان میں طالبان نے سوات پر قبضہ کیا تو مخالفین کو چوک پر پھانسی دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ خواتین کے اسکول اور کالج بند کر دیے گئے۔

اس وقت ملالہ یوسف زئی اسکول کی طالبہ تھیں۔ تعلیم پر پابندیون سے ملالہ بھی متاثر ہوئی، پھر فوج نے سوات میں آپریشن کیا۔ آپریشن سے پہلے لاکھوں افراد کو خیبر پختون خوا کے مختلف علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ اسی وقت ملالہ نے ساری صورتحال ایک ڈائری میں لکھنا شروع کی۔ ملالہ کے والد ضیاء الدین نے جب ڈائری پڑھی تو ان کے ایک دوست نے جو بی بی سی میں اردو سروس کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے، ملالہ کی ڈائری ’’ گل مکئی‘‘ کے نام سے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر وائرل کر دی۔ طالبان دہشت گرد ملالہ کے دشمن ہوگئے اور ایک دن ملالہ اسکول سے ویگن میں گھر جا رہی تھی تو اس پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ملالہ کی جان بچانے کے لیے پشاور اور پھر برطانیہ انھیں منتقل کیا گیا۔

المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں اور ان کی ذیلی تنظیموں نے ملالہ کو معطون کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر مہم شروع کردی اور نئی نسل کے ذہنوں کو پراگندہ کیا مگر ملالہ کو خواتین کے لیے خدمات پر نوبل انعام ملا۔ ملالہ نے انعام کی رقم سے طالبات کی تعلیم کے لیے ٹرسٹ قائم کیا۔ پشاور پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملوں کے بعد آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں کسی حد تک امن ہوا مگر پھر دوہا معاہدے کے تحت طالبان کابل پر قابض ہوگئے۔ یوں پاکستانی طالبان کو ایک نئی قوت مل گئی۔ پاکستان میں اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی اور عمران خان ملک کے وزیراعظم اور عارف علوی صدر کے عہدے پر موجود تھے، پنجاب اور خیبر پختون خوا میںبھی تحریک انصاف کی حکومتیں قائم تھیں۔ عمران خان طالبان کے بیانیے کی کھل کر حمایت کرتے تھے۔

تحریک انصاف نے ہمیشہ تحریک طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت کی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے تحریک طالبان پاکستان سے معاہدہ کیا،جس کے تحت ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو سابقہ قبائلی علاقوں میں آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، یوں سیکڑوں جنگجو پاکستانی علاقوں میں داخل ہوئے اور دہشت گردوں کو نئی قوت مل گئی۔ اب تحریک طالبان پاکستان نے منظم دہشت گردی شروع کردی۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے تحقیقات کے بعد بتایا کہ داسو پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئروں پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی۔ اب پھر ان دہشت گردوں نے طالبات کے اسکولوں کو تباہ کرنا شروع کیا ہے۔
https://www.express.pk/story/2648161/268/