سندھ میں روٹی بھی مہنگی


ڈاکٹر توصیف احمد خان
============

کراچی میں تندورکے نان کی قیمت 25 روپے ہے اور روٹی 20 روپے میں ملتی ہے۔ کئی علاقوں میں نان 30 روپے میں بھی ملتا ہے اور پھر نان کی کئی اقسام کی قیمتیں اور زیادہ ہیں۔

جب الیکٹرونک میڈیا کی اسکرین پر خبریں نظر آتی ہیں اور اخبارات میں شایع ہوتی ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں نان 16 روپے اور روٹی اس سے بھی سستی مل رہی ہے تو کراچی کے شہری اپنی قسمت کا ماتم کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کرسکتے۔

کراچی میں گزشتہ ماہ ایک بیوروکریٹ حسن نقوی نے کمشنر کی حیثیت سے چارج سنبھالا تو انھیں روٹی اور نان کی قیمتوں میں کمی کا خیال آیا۔ کمشنر صاحب نے روٹی اور نان کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ کیا، یوں کمشنر آفس کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق تندوری نان (120 gm) کی قیمت 17روپے اور چپاتی (100 gm) کی قیمت 12روپے مقرر کی گئی۔
کمشنر آفس نے فلور مل کا آٹا 90 روپے فی کلوگرام ہول سیل کی 93 روپے فی کلوگرام اور ریٹیل آٹا کی قیمت 98 روپے فی کلو مقرر کی، (یہ ریٹ ریگولر فلور کے لیے مقرر کیے گئے۔) اس طرح فلور ملز مالکان فائن آٹا 117 روپے فی کلو ہول سیل فائن آٹا 120 روپے کلو اور چکی آٹا کی ریٹیل قیمت 123 روپے فی کلو مقرر کی گئی۔ مگر کمشنر آفس کی بے بسی عوام کے سامنے آگئی کہ پورے شہر میں کہیں ان نرخوں پر روٹی اور نان دستیاب نہیں ہے۔

انگریزی کے اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان نئی قیمتوں سے مزید کنفیوژن پیدا ہوگیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تندور والوں نے نئے دلائل تلاش کر لیے ہیں۔ ان لوگوں کا مؤقف ہے کہ 120 گرام کے وزن سے نان اور 100 گرام کی چپاتی صرف تندوری اور مخصوص ریسٹورنٹ پر ملتی ہے۔

عام طور پر 140 سے 150 گرام کی روٹی جو 25 روپے میں دستیاب ہے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ ان تندور مالکان کا کہنا ہے کہ کمشنر آفس کی جانب سے زیادہ وزن کی روٹی کی قیمت کا تعین نہیں کیا گیا ۔ یعنی ایک اور مسئلہ یہ بھی سامنے آیا کہ اگر صارف 120 گرام کی روٹی خریدتا ہے اور اس کو دو روٹیاں خریدنی پڑتی ہیں تو یوں صارف کے لیے زیادہ قیمت دینے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

لوگوں کو اس بات پر بھی حیرت ہے کہ اعلیٰ معیار کے شیرمال، تافتان اورکلچہ کی قیمت پر بھی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ یہ اشیاء 70 روپے سے 100 روپے میں دستیاب ہیں۔ گندم درآمد ہونے اور بہتر فصل ہونے کی بناء پر گندم کی قیمتیں گرگئی ہیں جس کی بناء پر کراچی میں بھی گندم کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں۔ ماضی میں سندھ میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں گندم کی قیمتیں زیادہ رہی ہیں مگر اس دفعہ یہ قیمتیں کم ہوئی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کی کونسل کے رکن سلیم جوار نے حیدرآباد کے سروے کے بعد بتایا ہے کہ حیدرآباد میں نان 25 روپے میں اور چپاتی 20 روپے میں دستیاب ہے اور بڑے سائز کا نان 30 روپے میں ملتا ہے۔ پھر ایک اور حقیقت بھی بڑی واضح ہے کہ اندرون سندھ مختلف شہروں میں روٹی اور نان کی ویسی ہی قیمتیں ہیں جیسی کراچی میں ہیں، مگر اندرون سندھ شہروں میں انتظامیہ کو آٹا اور روٹی کی قیمتوں میں کمی کے لیے اقدامات کی کوئی فکر نہیں ہے۔

صوبے کا نظام چلانے والا سندھ سیکریٹریٹ کے بابوؤں کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دراصل گزشتہ 16 برسوں کی تاریخ کا بغیرکسی تعصب کے جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پنجاب میں خاص طور پر شہریوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے بر سرِاقتدارحکمرانوں کے علاوہ بیوروکریسی نے بھی بھرپور دلچسپی لی ہے۔

میاں شہباز شریف 90کی دہائی کے آخری عشرے میں جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے شادی کی تقاریب کے اوقات کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے تحت رات کو دو گھنٹے شادی کی تقریبات کے لیے وقف کر دیے گئے اور ون ڈش کی پابندی عائد کردی گئی۔ میاں شہباز شریف نے سختی کے ساتھ 10 بجے رات کو شادی ہال بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جب چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت صوبے میں قائم ہوئی تو اس فیصلے پر بخوبی عملدرآمد ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں یہ پابندی برقرار رہی اور یہ سلسلہ ابھی تک برقرار ہے۔

کراچی میں بھی 90 کی دہائی کے آخری عشرے میں شادی ہال 10بجے تک بند کرنے کا فیصلہ ہوا مگر پھر اس فیصلہ پر عملدرآمد سست پڑگیا۔ ٹی وی چینلز پر برسر اقتدار حکمرانوں کی رات گئے تک شادی کی تقریبات جاری رہنے کی وڈیوز نشر ہونے لگیں۔

شادی ہال کے منتظمین اور متعلقہ تھانے میں خاموش معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت 12 بجے کے بعد شادی ہال کھولنے پر جرمانہ 5 ہزار روپے بھتہ پہلے ہی وصول کیا جانے لگا۔ اب بھی شہر کے مختلف علاقوں میں شادی ہال کے منتظمین رات 12 بجے ایک دفعہ ضرور ہال کی بجلیاں بند کرتے ہیں۔

میاں شہباز شریف نے کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کو جانچنے کے لیے فوڈ کنٹرول اتھارٹی بنائی۔ اس اتھارٹی کے اہلکاروں نے کئی ریسٹورنٹ سیل کیے اور کئی بیکریوں پر چھاپے مارے گئے۔ ہزاروں ٹن گوشت، دودھ اور دیگر مضرِ صحت اشیاء ضایع کرنے کی خبریں شایع ہوئیں۔ فوڈ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکاروں کی کارروائیوں سے عام آدمی کو معیاری اشیاء ملنے لگیں۔ تحریک انصاف کے عثمان بزدار دور میں بھی فوڈ کنٹرول اتھارٹی فعال رہی مگر سندھ کی حکومت نے کبھی شہریوں کو صاف ستھری اشیاء کی فراہمی کے بارے میں نہیں سوچا۔

بلدیہ کراچی اور صوبے کی دیگر بلدیات میں ہیلتھ انسپکٹرز کی اسامیاں موجود ہیں۔ ہیلتھ انسپکٹرز کا کام اشیاء کے معیار پر نظر رکھنا اور مضرِ صحت اشیاء فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہے مگر بلدیات کا یہ شعبہ بھی دیگر شعبوں کی طرح لاپتہ ہے۔ پنجاب کی موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے روٹی اور نان کی قیمتیں 20 روپے سے پہلے 16 روپے اور پھر 15 روپے تک کرنے کے لیے ایک منظم مہم چلائی۔

اس مہم کے بارے میں کئی منفی رپورٹیں الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں مگر راقم کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ گزشتہ مہینے کے آخری ہفتے میں ایک اجلاس کے لیے لاہور جانے کا موقع ملا تو ایک ڈھابے پر سبزی دال کھانے کا موقع ملا۔ اس ڈھابے پر 16 روپے میں بہترین لال آٹے کی روٹی گرما گرم دستیاب تھی مگر پھر خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت نے نان کی قیمت 16روپے مقررکی۔

اگرچہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور صوبے کے گورنر اور وفاق کے خلاف لفظی گولہ باری میں مصروف ہیں مگر ان کی کمزور حکومت نے روٹی اور نان کی کم قیمت پر فروخت کے لیے نان بائیوں کو مجبورکر دیا۔ ایک غیر ملکی ریڈیو اسٹیشن کی رپورٹ کے مطابق حیدرآباد سے گزشتہ سال کئی ہزار ٹن گندم چوری ہوئی۔

سندھ حکومت کی اہم شہری مسائل پر بے حسی کی مختلف وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ کچھ صحافی کہتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کی اکثریت کا تعلق زرعی شعبے سے ہے۔ اس بناء پر وہ گندم کی قیمت کم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، تاکہ ان کے ووٹروں کے مفادات کا زیادہ سے زیادہ تحفظ ہوسکے، یوں کروڑوں لوگوں کے لیے مہنگی گندم کی فروخت ان کے مفاد میں ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو اندرونِ سندھ کسی قسم کا انتخابی چیلنج درپیش نہیں ہے اور مستقبل میں بھی ایسے چیلنجز کا امکان نہیں۔ اس بناء پر سندھ کی منتخب قیادت اچھی طرزِ حکومت کی اہمیت کا ادراک کرنے کو تیار نہیں ہے مگر سماجی قوانین کا مطالعہ کرنے والے کہتے ہیں کہ جدلیاتی مادیت کے اصولوں کے تحت مختلف Variables کی تبدیلیوں سے حالات کسی وقت تبدیل ہوسکتے ہیں مگر اس کی فکر کسی کو نہیں۔ بھارت کی ریاست مشرقی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی نے 16
سال تک حکومت کی مگر کمیونسٹ پارٹی اچھی طرزِ حکومت کا معیار برقرار نا رکھ سکی اور آج بنگال میں کوئی اس کا نام لینے کو تیار نہیں۔
https://www.express.pk/story/2642838/268/