اورنگزیب صاحب آپکے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے

سہیل دانش
وزیرخزانہ کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی آپ کو چیلنجوں کی یلغار کا سامنا ہے۔ آپ پاکستان کے سب سے بڑے بینک کے سربراہ رہ چکے ہیں اقتصادی اور معاشی صورت کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں ہمیں یہ بھی معلوم ہے کے چند اہداف کے ساتھ آپکو فری ہینڈ دیا گیا ہے کہ آپ ملکی معیشیت کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو بھنور سے نکالیں۔ آج کل آپ امریکہ میں آئی ایم ایف کے سرکردہ شخصیات کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان اُن کی کڑی شرائط پر کس حد تک عمل کرسکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یہ پروگرام ہماری معاشی بقاء کے لئے لازم ہے۔ فرض کیجئے آپ آنے والے دنوں میں غیر ممالک کے دوروں میں سرمایہ کاروں کو اِس بات کی ترغیب دینے کی کوشش کریں گے۔ کہ وہ پاکستان کو اس اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے ہمارے ملک میں سرمایہ کاریں کریں۔ آپ یقیناً بتائیں گے کہ ہم 24 کروڑ لوگوں کا ملک ہیں۔ ہمارے ملک میں لیبر پوری دنیا بھر سے سستی ہے۔ ہماری ایک چوتھائی زمین خالی پڑی ہے۔ ہمارے ملک میں چودہ گھنٹے سورج چمکتا ہے ہمارے پاس سمندر ہے دریا ہیں، زرخیز میدان ہیں، پہاڑ اور گلیشئر ہیں اور ہم یورپ مشرق وسطیٰ سینٹرل ایشیا، برصغیر اور چین کا دروازہ ہیں۔ آپ اُنہیں بتائیں گے کہ ملک میں انتخابات کے بعد سیاسی استحکام پیدا ہوا ہے۔ عام پاکستانی کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے وہ یقینا آپکی باتیں بڑے پُرسکون انداز سے سنیں گے۔ پھر آپ سے یقینا یہ سوال پوچھیں گے “جناب ہمیں صرف یہ بتائیے کہ غیر ممالک میں موجود پاکستانیوں نے اب تک پاکستان میں کتنی سرمایہ کاری کی؟ آپ کے لئے یہ غیر متوقع سوال ہوگا۔ آپ ذہن پر زور دیتے ہوئے کہیں گے۔ “نہ ہونے کے برابر” یاد رکھیں اُن کی طرف ایک اور سوال بھی آئے گا۔ وہ آپ سے پوچھ سکتے ہیں “جناب یہ بھی بتائیے کہ کیا آپ کے ملک کے سرمایہ کار دنیا کے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری نہیں کررہے” یہ جانتے ہوئے کہ اِن سرمایہ کاروں کے پاس تمام اعدادوشمار موجود ہیں اس لئے آپ کا جواب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا “جی کررہے ہیں” آپ کے جواب کے بعد وہ لامحالہ یہی کہیں گے۔ “جس ملک کے اپنے لوگ اپنا سرمایہ دوسرے ممالک میں شفٹ کررہے ہوں۔ اس ملک میں ہم سرمایہ کاری کیوں کریں گے” اس کے بعد آپ صرف چند ترغیبات کا ذکر کرکے اپنی بات ختم کرنے میں عافیت سمجھیں گے۔ اس لئے یاد رکھیں۔ دنیا میں جب بھی کسی انسان، خاندان یا قوم پر بُرا وقت آتا ہے تو سب سے پہلے وہ قوم وہ خاندان اور وہ شخص اپنے وسائل اور اپنی جمع پونجی باہر نکالتا ہے اور اس کے بعد اس کے دوست احباب اِس کی مدد کے لئے آگے بڑھتے ہیں دنیا میں آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی انسان، خاندان یا قوم نے بُرے وقت میں اپنا سرمایہ تو چھپالیا اور غیر اس کی مدد کے لئے میدان میں آگئے ہوں۔ قربانی، مدد، اور تعاون ایک ایسا فعل ہے۔ جس کا آغاز انسان اپنے آپ سے کرتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہمار ملک اِس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے ہم دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ ہمارے ایکسپورٹس کم اور امپورٹس بڑھ رہی ہیں ہمارے ہاں بے روزگاری مہنگائی اور افراطِ زر نئے ریکارڈ قائم کرچکی ہے۔ ہمارے مالیاتی ذخائر تہہ تک پہنچ چکے ہیں۔ اِس کڑے وقت سے نکلنے کے لئے ہمیں 10 سے 15 بلین ڈالرز درکار ہیں۔ ہم پوری دنیا سے مدد مانگ رہے ہیں۔ ہم کشکول لے کر در در گھوم رہے ہیں۔ لیکن ہم اپنی پوٹلی نہیں کھول رہے۔ ہم کتنے بھولے بادشاہ ہیں۔ جو پوری دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ جبکہ پوری دنیا کو پتہ ہے ۔ ہمارے تمام حکمرانوں، تمام سیاستدانوں اور تمام کرتا دھرتاؤں کا سرمایہ غیر ممالک کی بنکوں میں پڑا ہے ہمارے بزنس مین اور سرمایہ کار اپنی رقم دھڑا دھڑ ڈالرز میں تبدیل کروارہے ہیں۔ کرپشن سے کمایا گیا اربوں روپے پہلے ہی غیر ملکی بنکوں میں موجود ہے۔ جس ملک پر اس کے اپنے حکمرانوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور شہریوں کو اعتماد نہ ہو۔ اِس ملک کی آئی ایم ایف، ورلڈ بنک، چین، یورپ اور امریکہ کب تک مدد کرے گا۔ دنیا ہمیں سرمایہ کیوں دے گی۔ چنانچہ اگر ہمارے سیاستدان ریٹائرڈ بیوروکریٹس جرنل سابق وزیرصنعت کار اور تاجر پیسہ ملک میں واپس لائیں گے اِس کے بعد بیرونِ ملک موجود پاکستانیوں سے درخواست کی جائے کہ وہ ہمیں یہاں تین تین ہزار ڈالر بھجوادیں۔ یقین کیجئے آپ کے اس اقدام سے ہم بھیک مانگنےکی ذلت سے بچ جائیں گے اور دنیا ہم پر بھی اعتبار کرنے لگے گی میں جب اپنے معاشی بحران پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے 1997 میں جنوبی کوریا کے معاشی بحران اور تباہی یاد آجاتی ہے۔ پھر انہوں نے کس طرح ایک قوم بن کر اپنے آپ کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا ہمیں بھی آج اسی جذبے کی ضرورت ہے سیاستدان پہل کریں اور اپنا سرمایہ واپس لائیں تارکین پاکستان اپنے ملک کی مدد کریں ہم بھی رومن امپائر کی طرح تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں ہم من حیث القوم کرپٹ ہیں۔ ہم اپنے ملکی وسائل اللوں تللوں پر ضائع کررہے ہیں ہمارے ہاں وہ تمام کھیل کھیلے جارہے ہیں جنہوں نے ہمیں کنگال کردیا ہے۔ اگر ہم نے مل کر خود کو اب بھی مالیاتی بحران سے نہ نکالا تو پھر نتیجے کے لئے تیار رہیں کیونکہ یاد رکھیں قدرت کے اصولوں کا مذاق اُڑانے والی قومیں ایک جیسے انجام کا شکار ہوتی ہیں۔