حالیہ ملکی معاشی حالات اور لڑکیوں کی تعلیم پر اسکےاثرات

(فاطمہ بتول)
fatimahbatul@gmail.com

سال 2023 کے وسط میں آنے والے بدترین اقتصادی بحران اور مہنگائی کی خوفناک لہر نے پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی بلخصوص مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کو بری طرح متاثر کیا ۔ اس بحران نے لاکھوں لوگوں کے لیے زندگی کرنے کی بنیادی ضروریات بشمول خوراک، صحت اور تعلیم کا حصول مشکل تر بنا دیا – ورلڈ بینک کی رپورٹ نے سال 2023 میں پاکستان میں غربت کی شرح کو 37.2%بیان کیا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی کم و بیش آدھے سے زیادہ آبادی کی زندگی اس سال غربت کی لکیر سے نیچے سسکتی اور سرکتی نظر آتی ہے –
تعلیم کی بات کریں تو پاکستان کا لٹریسی ریٹ (شرح خواندگی) سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ٪62 ہے جبکہ ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے جہاں آؤٹ آف سکول بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے-یونیسف کے سروے کے مطابق پاکستان میں انداز” ٪44 بچے اسکول نہیں جاتے- صوبوں کا تقابلی جائزہ ہو تو سب سے زیادہ تشویشناک صورت حال بلوچستان کی ہے جہاں تقریبا’ ٪47 بچے سکول نہیں جا پاتے اور اس بلند شرح کی درجنوں وجوہات میں سے نمایاں ترین محکمہ تعلیم کا کمزور، نامکمل اور غیر فعال انتظامی ڈھانچہ ، دہائیوں پر محیط دہشت گردی کا نا ختم ہونے والا سلسلہ اور بے تحاشہ غربت ہے جن کی وجہ سے جغرافیائی تقابل میں سب سے بڑے صوبہ کے باسی محرومیوں میں سب سے آگے ہیں- پاکستان اکنامک سروے2023-2022 کے مطابق سال 2021-2022 میں جی ڈی پی کا صرف٪ 1.77 تعلیم پر خرچ کیا گیا جب کہ حالیہ شرح خواندگی%51.9 زنانہ اور مردانہ ٪73.4ہے جو کہ خطے میں کم ترین تصور کی جاتی ہے-
یہ سچ ہے کہ تعلیی سہولیات میں سندھ اور پنجاب نسبتا” دوسرے دو صوبوں سےبہتر گردانے جاتے ہیں لیکن 2023 کی خوفناک معاشی صورت حال نے یہاں بھی سب سے زیادہ متاثر تعلیم کے شعبہ کو ہی کیا ہے۔ اسی سال تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعداد میں اچانک نمایاں کمی دیکھی گئی ، خاص کر لڑکیوں کے سرکاری تعلیمی ادارے بشمول پرائمری تعلیی ادارے، سیکینڈری سکول اور کالجز میں طالبات کی ایک بڑی تعداد والدین کے بظاہر تعلیمی اخراجات نہ اٹھائے جانے کی وجہ سے تعلیم کو خیر آباد کہہ چکی ہے ۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں عموما” سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی بڑی تعداد ان گھروں سے آتی ہے جو معاشی لحاظ سے لوئر مڈل کلاس یا نہایت پسماندہ گھروں میں شمار ہوتےہیں اور مہنگی پرائیویٹ تعلیم افورڈ نہیں کر سکتے ۔ایسے گھروں میں مہنگائی اور سخت ترین معاشی تنگیوں کے باعث والدین کے پاس اپنی مشکلات کا یہی واحد اور آسان حل بچتا ہے کہ وہ اپنی بچیوں کی تعلیم پر سمجھوتا کر کے ان کو گھر بٹھا لیں کیونکہ تعلیمی اخراجات اور ضروریات زندگی کے پورا کرنے کی جدوجہد میں ترجیہا تعلیم کا انتخاب ثانوی ہی ہوتا ہے اور بنیادی ضروریات کا پلڑا ہمیشہ ہی بھاری نظر آیا ہے۔
گزشتہ سال کی مہنگائی نے والدین کے لیے اس امر کو مشکل تر بنا دیا کہ وہ اپنے بچوں کی فیس، یونیفارم، کتابوں ، اسٹیشنری اور خاص طور پر ٹرانسپورٹ کا بوجھ برداشت کر سکیں کیونکہ پٹرول کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کے باعث بچوں کےسکول اور کالج آنے جانے کےخرچ میں کئی گنا اضافہ ہو گیا جو دیگر تعلیمی اخراجات سے کہیں زیادہ ہے-
ایسے گھرانوں کے مشکل معاشی حالات کے منظر نامے میں جو بات سب سے زیادہ قابل ذکر اور تکلیف دہ ہے وہ ان کم سن بچیوں کو چائلڈ لیبر میں دھکیلنا ہے – دیہاتی علاقوں میں جب والدین دگر گوں معاشی حالات کا شکار ہوتے ہیں تو تعلیم عموما” ان کی آخری ترجیح ہوتی ہے جس پہ وہ دیگر بنیادی ضروریات کے لیے سمجھوتا کرلیتے ہیں- اور بچوں کو کسی چھوٹے موٹے کام پر لگا کر دو وقت کی روٹی کو پورا کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں- یہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن گھروں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہو اور سب بچوں کو سکول نہ بھیجا جا سکتا ہو تو قربانی ہمیشہ لڑکیوں کی تعلیم کی دی جاتی ہے اورمشکل حالات میں بچیوں کی تعلیم چھڑوانا آسان ہدف تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں ایک سروئے کے مطابق سکول نہ بھیجے جانے والی بچیوں کی شرح 37 فیصد ہے جو کہ سکول نہ جانے والے لڑکوں کے مقابلے میں 11 فیصد زیادہ ہے –صوبوں میں پنجاب تعلیمی اشاریوں میں دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ گردانا جاتا ہے جہاں ہر سطح کی تعلیم کے مواقع نسبتا” زیادہ موجود ہیں۔ پنجاب کے حالیہ جاری کردہ ترقیاتی اعداد وشمار کے مطابق صوبہ بھر میں سرکاری سکولوں، کالجوں کی تعداد بالترتیب 47173 ، 3172 جبکہ مختلف ڈسپلنز کی ١٠٠ سے زاٸد یونیورسٹیوں موجود ہیں-
اگر مزید بات کی جائے تو ادارہ شماریات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں راولپنڈی ضلع تعلیمی اعتبار سے سب سے آگے نظر آتا ہے۔ راولپنڈی کے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایک اہم سرکاری عہدے دار سے غیر رسمی گفتگو کا موقع ملا تو انھوں نے بتایا کہ 2023 میں بچیوں کے سکولوں میں انکی تعداد میں یکدم کمی دیکھنے میں آئی اور صد کوشش کے باوجود بھی انرولمنٹ میں خاطر خواہ اضافہ نہ کیا جا سکا جسکی بڑی وجہ مہنگائی کے باعث والدین کا تعلیمی اخراجات کا بوجھ نہ اٹھا سکنا تھا- انھوں نے مزید بتایا کہ ان سکولوں میں ایسی بچیاں بھی ز یر تعلیم ہیں جن کے والدین اپنا پیٹ کاٹ کر انکو تعلیم دلوانے کی سعی کرتے ہیں لیکن مشکل حلات میں انھی بچیوں کی ایک بڑی تعداد تعلیم سے محرومی کا شکار بنتی ہے اور چائلڈ لیبر میں بھیج دی جاتی ہے کیونکہ والدین وسائل کی شدید کمی میں مجبوراً اپنی کم عمر بچیوں کو انتہائی کم پیسوں اور تنخواہ پر ہی دوسروں کے گھروں میں کام پر بھیج دیتے ہیں تاکہ گھر کی آمدن میں کچھ اضافہ کیا جا سکے۔
یہ بات تو عیاں ہے کہ پاکستان میں بچیوں کے تعلیم سے محرومی کے دور رس معاشی اور معاشرتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ہمارے سماجی مسائل میں اضافہ کا بڑا سبب بنتے ہیں- ان اثرات اور مسائل میں چند اہم شرح خواندگی میں کمی ،صنفی عدم مساوات، معاشرے میں کلاس سسٹم میں اضافہ، کم عمری کی شادی اور اسکے نتیجے میں خاندانی نظام کی ابتری، چائلڈ لیبر ، ڈومیسٹک لیبر میں اضافہ اور کم سن بچیوں کے استحصال اور تشدد کے واقعات کا بڑھنا ہے – اسکے ساتھ ساتھ بہت سے شاندار اذہان اور انکی قابلیت غربت اور وسائل کی کمی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں-
حکومتی سطح پر ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار اور پالیسی ساز اس مسئلہ کی جانب توجہ دیں تاکہ تعلیم نچلے طبقے کی پہنچ سے دور تر نہ ہوتی جائے لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں پالیسی ساز اور ان کی پالیسیوں کو لاگو کرنے والے بھی سیاسی بنیادوں پر دفعتا” تبدیل کر دیے جاتے ہیں جسکی ایک مثال صرف گزشتہ تین سالوں میں پنجاب میں سکول اور ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بالترتیب 13 اور 17 سیکریٹریز کا تبدیل کیے جانا ہے جو کہ تشویش کا باعث اور اس بات کا مظہر بھی ہے کہ تعلیم ہماری ترجیحات میں ابھی بہت پیچھے ہے-
اس سلسلے میں والدین کی مدد کے لیے چند دیگر اقدامات جو ہنگامی بنیادوں پر اٹھائے جا سکتے ہیں ان میں مستحق طلبہ کے لیے سرکاری اداروں میں تعلیمی وضائف میں اضافہ، دیہاتی سکولوں کی اپ گریڈیشن تاکہ والدین کے ٹرانسپورٹیشن اخراجات کو ختم یا کم کیا جا سکے، کالج لیول تک مفت تعلیم اورسرکاری تعلیمی اداروں میں پچھلے سال خیر باد کہہ کر جانے والی طالبات کے والدین سے ملاقات اور کونسلنگ کے لیے مخصوص کونسنگ ونگز کا قیام ہے تاکہ سکول انتظامیہ خود متحرک ہو کر والدین سے ملے اور ان بچیوں کو واپس سکول اور کالجز میں لا سکے – نیز حکومت کو تعلیمی اشیاء اور اسٹیشنری پر عائد ٹیکسز کا بھی نئے سرےسے جائزہ لینا ہوگا تاکہ پہلے سے پسا ہوا طبقہ ان ٹیکسز کی بنا پر مزید مشکل کا شکار نہ ہو سکے-
ایک اور ضروری قدم جو حکومت مستحق طالبات کے لیے اٹھا سکتی ہے وہ فری ٹرانسپورٹیشن کا انتظام ہے-سرکاری تعلیمی اداروں میں پہلے ہے بسوں کا خرچ تقریباً 70 فیصد تک طلبہ خود برداشت کرتے ہیں اگر ذرا سی کو شش کی جائے تو ٹرانسپورٹیشن فیس ادا نہ کر سکنے والی بچیوں کی مدد کر کے انکی تعلیم میں اس رکاوٹ کو دور کیا جا سکتا ہے جس کے لیے علاقائی کمیونٹی میں اچھے وسائل رکھنے والے لوگوں کو بھی اس کاوش میں شامل کیا جا سکتا ہے-
یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہمارے ملک میں معیشت کی ڈوبتی کشتی کے سب سےبرے اثرات تعلیم پر رونما ہو رہے ہیں جس سے آنے والی کئی نسلیں متاثر ہوسکتی ہیں- آئین کےآرٹیکل A-25 کے مطابق ملک کے ہر فرد کے لیے بلاتخصیص بنیادی ضروری تعلیم کا مہیا کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے تمام تر وسائل کا انتظام اور ان کو بر وقت برؤے کا ر لانا آج کی معاشی صورت حال میں سب سے بڑھ کر ضروری ہو چکا ہے-