8 مارچ اور حقوق نسواں

پچھلے 10-15 سالوں میں دنیا بھر میں ہزاروں خواتین نے خواتین کے عالمی دن کو پہچاننا اور منانا شروع کر دیا ہے۔ تاہم، یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس کی ابتداء زیادہ وسیع پیمانے پر معلوم نہیں ہے کیونکہ اس کی بنیاد تقریباً 100 سال پہلے اور اس کے بعد کی تاریخ واقعی متاثر کن ہے۔خواتین کے عالمی دن کا محرک دو ذرائع سے آیا ہے ۔محنت کش طبقے کی خواتین کی ٹریڈ یونینز بنانے کی جدوجہد اور خواتین کے حق رائے دہی کی لڑائی۔ ان دو مسائل نے یوروپی خواتین کو امریکہ میں اپنی بہنوں سے جوڑ دیا۔ 1908 میں نیویارک سوئی کے کاروبار میں سینکڑوں خواتین ورکرز نے مین ہٹن کے لوئر ایسٹ سائڈ میں رٹگرز اسکوائر میں اپنی یونین بنانے اور ووٹ کا حق مانگنے کے لیے مظاہرہ کیا۔ یہ تاریخی مظاہرہ 8 مارچ کو ہوا۔ اس نے اگلے سال 30,000 خواتین شرٹ وسٹ بنانے والوں کی ‘بغاوت’ کی قیادت کی جس کے نتیجے میں امریکہ میں خواتین ورکرز کے لیے پہلی مستقل ٹریڈ یونین بنی۔اسی دوران امریکی خواتین کارکنوں کی بہادرانہ لڑائی کی خبریں یورپ تک پہنچ گئیں ، خاص طور پر اس نے یورپی سوشلسٹ خواتین کو متاثر کیا جنہوں نے جرمن سوشلسٹ فیمنسٹ، کلارا زیٹکن کی پہل پر انٹرنیشنل سوشلسٹ ویمنز کانفرنس قائم کی تھی۔ یہ مؤخر الذکر ادارہ پہلی بار 1907 میں دوسری انٹرنیشنل متواتر کانفرنسوں میں سے ایک کے ساتھ سٹٹگارٹ میں ملا۔ تین سال بعد 1910 میں دوسری بین الاقوامی کلارا زیٹکن کی کوپن ہیگن کانفرنس میں درج ذیل تحریک پیش کی گئی۔تمام ممالک کی سوشلسٹ خواتین ہر سال یوم خواتین کا انعقاد کریں گی، جس کا اولین مقصد خواتین کے حق رائے دہی کے حصول میں مدد کرنا ہوگا۔ اس مطالبے کو سوشلسٹ اصولوں کے مطابق خواتین کے پورے سوال کے ساتھ مل کر ہینڈل کیا جانا چاہیے۔ یوم خواتین کا ایک بین الاقوامی کردار ہونا چاہیے اور اسے احتیاط سے تیار کیا جانا چاہیے خواتین کے عالمی دن کو امریکہ اور بہت سے یورپی ممالک میں ریلیوں اور مظاہروں کے ذریعے نشان زد کیا گیا ، حالانکہ ہر سال مختلف دنوں میں (مثلاً 18 مارچ 1911 میں آسٹریا ہنگری، جرمنی ڈنمارک اور سوئٹزرلینڈ میں اور امریکہ میں فروری کے مہینے میں منایا گیا تھا۔1917 میں روس میں خواتین کے عالمی دن کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی یہ روسی انقلاب کا فلیش پوائنٹ تھا۔ 8 مارچ کو پیٹرو گراڈ میں خواتین کارکنوں نے امن اور روٹی کا مطالبہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر ہڑتال اور مظاہرہ کیا۔ ہڑتال کی تحریک ایک فیکٹری سے فیکٹری تک پھیل گئی اور مؤثر طریقے سے بغاوت کی شکل اختیار کر گئی۔ 1917 میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کے کردار کے اعزاز میں، لینن نے اعلان کیا کہ 8 مارچ کو سرکاری طور پر خواتین کے دن کے طور پر نامزد کیا جانا چاہیے۔ بہت بعد میں یہ سوویت یونین اور زیادہ تر سابق سوشلسٹ ممالک میں قومی تعطیل تھی۔ سرد جنگ اس بات کی وضاحت کر سکتی ہے کہ ایسا کیوں تھا کہ کمیونسٹوں کی طرف سے منائی جانے والی عوامی تعطیل کو مغرب میں بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا، اس حقیقت کے باوجود کہ 1975 میں خواتین کا عالمی سال اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر تسلیم کیا۔ماضی میں اس حوالے سے پاکستان میں بھی کئی ایسے نعرے و بینرز منظر عام پر لائے گئے جو اسلامی تعلیمات و اقدار، تہذیبی روایات اور قومی وقار کے منافی تھے جن کا دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ حالاں کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے عورت کو برابری، عائلی تحفظ، عزت و تقدس کا درجہ دیا اور اس کے حقوق کے تحفظ کے احکامات دیے۔ بلقیس ایدھی پاکستان کی حکومت سے تمغہ امتیاز حاصل کرنے والی یہ خاتون کئی دہائیوں سے اپنے شوہر عبدالستار ایدھی کے ہمراہ لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں میں بہتری لانے میں مصروف عمل ہیں۔ 1988 میں بینظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون سربراہ حکومت بنیں۔ سابق خاتون اول بیگم رعنا لیاقت علی خان پاکستان کے کسی بھی صوبے کی پہلی خاتون گورنر مقرر کی گئیں۔ انہیں ہالینڈ، اٹلی اور تیونس میں پاکستان کی سفیر کے طور پر بھی بھیجا گیا۔لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر پاک فوج کی تاریخ میں اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون ہیں جبکہ جسٹس عائشہ ملک کو جنوری 2022 میں سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج مقرر کیا گیا تھا۔مارچ 2008 میں فہمیدہ مرزا جنوبی ایشیا میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی پہلی خاتون اسپیکر منتخب ہوئیں۔ حنا ربانی کھر کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر خارجہ مقرر کیا گیا تھا۔ ارفع عبدالکریم رندھاوا ایک پاکستانی طالبہ اور کمپیوٹر میں غیرمعمولی صلاحیت رکھتی تھیں جو 2004 میں صرف نو سال کی عمر میں دنیا کی سب سے کم عمر مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل بنی۔ ثمینہ خیال بیگ ایک پاکستانی کوہ پیما ہیں جنہوں نے 2013 میں ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیااور 2022 میں کے ٹو کو سرکیا۔عائشہ فاروق 2013 میں پاک فضائیہ میں فائٹر پائلٹ بننے والی پہلی خاتون تھیں۔گلوکارہ عابدہ پروین کسی تعارف کی محتاج نہیں، انہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ غرض زندگی کا کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں اس میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی اور اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔جب کہ اسلام سے قبل تہذیبوں و دور جاہلیت میں محض ’’لڑکی‘‘ ہونے کے جُرم میں اسے زندہ گاڑ دیا جاتا تھا۔ قرآن نے اس کی مذمت کی اور اس کی جان کو حرمت دی۔اس کائنات میں مرد و زن دونوں کو الگ الگ ذمّے داریاں دی گئی ہیں ۔ ایسی کون سی آزادی ہے، جو ہمارے دین میں خواتین کو حاصل نہیں۔ یہ دینِ فطرت ہے، تو اس میں ایساکچھ ہو ہی نہیں سکتا، جو فطرت کے خلاف ہو۔ ہمیں اپنی ذمّے داریاں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے قرآن و حدیث سے رہنمائی درکار ہے، جہاں مردو و خواتین کے حقوق کو واضح انداز میں بیان کر دیا گیاہے ۔ آج ہمارے معاشرے میں بیشتر مسائل مذہب سے دوری کی وجہ ہیں ۔ اگر ہم قرآن و حدیث کے مطابق اپنے اپنے حقوق و فرائض انجام دینا شروع کر دیں تو اپنے معاشرے کو ایک اسلامی اور مثالی معاشرہ بنا سکتے ہیں۔جو لوگ آزادی کے نام پر آپ کو اللہ کے راستے سے بھٹکا رہے ہیں، اُن کی سازشوں کو سمجھیں، پہچانیں اور اُن کا آلۂ کار بننے سے گریز کریں ۔یاد رہے، اسلام میں عورت کا مقام متعیّن کرنے کے ضمن میں بھی اُس کی فطرت کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے کہ اسلام عینِ دینِ فطرت ہے۔ اُس نے مرد و عورت دونوں کو یک ساں حقوق دئیے ہیں، بلکہ عورت کو تو ماں کے رُوپ میں ہر رشتے پر فوقیت عطا کی ہے۔آج کل عورت کی آزادی کے نام پر جوکچھ ہو رہا ہے، جو خنّاس، زہر اُس کے ذہن میں اُنڈیلا جا رہا ہے، وہ اس کی دنیا وآخرت تباہ کر سکتا ہے۔ عورتوں کے جو حقوق و فرائض ا لله نے مقرر نے مقرر کیے ہیں ان سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے اور کرانے کی کوشش ہو رہی ہے۔جس کے نتیجے میں بے حیائی عام ہو گئی ہے۔ الله تعالی نے جو فطری نظام مقرر کیا ہے اس سے بغاوت کرنے کا مغربی دنیا کا انجام سب کے سامنے ہے، جہاں خاندانی نظام بالکل تباہ ہے، والدین، اولاد، دیگر رشتوں کا تصور معدوم ہے، عورت اپنی اس آزادی کے فریب کی وجہ سے اپنا سب کچھ گنواچکی ہے ۔