ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کی، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا صدارتی ریفرنس میں مختصر رائے بھی دے سکتی ہے؟

پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ عدالت ایسا کر سکتی ہے، سپریم کورٹ مکمل انصاف کی فراہمی کیلئے آرٹیکل 187 کا استعمال کر سکتی ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر ہم نے آرٹیکل 187کا استعمال کیا وہ رائے بجائے فیصلہ ہو جائے گا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ اپ ہمیں پھانسی کے بعد میں منظر عام پر آنے والے تعصب کے حقائق کی تفصیلات تحریری طور پر دے دیں۔

رضا ربانی نے دلائل دیے کہ مارشل لا ریگولیشن کے تحت ججوں نے حلف لے رکھا تھا اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ بھی مارشلا قوانین کے تحت چل رہے تھے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے احمد رضا قصوری سے کئی سوالات پوچھے جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ میں بھٹو سے خوفزدہ تھا کہ وہ مجھے قتل کردیں گا۔

دریں اثنا عدالت نے کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یاد رہے کہ 28 فروری کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق سلب کیے گئے ہیں۔

پس منظر
یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔

تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔

‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟
===================

بلاوجہ صدارتی انتخاب کو متنازع بنایا جا رہا ہے: بلاول بھٹو زرداری

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ بلا وجہ صدارتی انتخاب کو متنازع بنایا جارہا ہے، محمود خان اچکزئی کے گھر پر چھاپے کی مذمت کرتا ہوں، محمود خان اچکزئی صدارت کے امیدوار ہیں، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سے اپیل کروں گا کہ وہ ایکشن لیں۔

قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی وجہ سے بلا وجہ صدارتی الیکشن کو متنازع بنایا جا رہا ہے، محمود خان اچکزئی شاید کچھ تقریر کرنا چاہ رہے ہیں، انہیں مائیک دیا جائے، آج صبح پتہ چلا کہ اچکزئی صاحب کے گھر کوئی چھاپہ پڑا ہے، اس کی مذمت کرتا ہوں۔

اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ مجھے اس معاملے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

اس موقع پر محمود خان اچکزئی نے کہا کہ نہ میں نے کوئی جذباتی تقریر کرنی ہے، نہ کسی کو بے عزت کرنا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نےکہا کہ انگریزی کی کہاوت ہے کہ تاریخ اپنا آپ دہراتی ہے، میں اپنے خاندان کی تیسری نسل کا نمائندہ ہوں جو ایوان میں ہے، اس ایوان کا سنگِ بنیاد میرے نانا نے رکھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے فیصلے لینا ہوں گے جس سے یہ ایوان مضبوط اور ملک کا مستقبل روشن ہو، یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو چھ چھ بار اس ایوان کے ممبر بنے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نےکہا کہ کل بہت افسوس ہوا جب وزیرِ اعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف کی تقاریر کے دوران احتجاج ہوا،تقاریر کے دوران احتجاج کے نام پر ایک دوسرے کو گالیاں دی جا رہی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عوام یہ سب دیکھ کر بہت مایوس ہو رہے ہوں گے، لوگوں نے ووٹ اس لیے دیے کہ انہیں مہنگائی اور مشکلات سے نکالا جائے، وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں اپنے مستقبل کے منصوبوں پر بات کی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قائدِ حزبِ اختلاف کہہ رہے ہیں کہ ان کی تقریر پی ٹی وی پر نہیں دکھائی گئی، یہ روایت خان صاحب نے ڈالی تھی، ہمیں یہ برقرار نہیں رکھنی چاہیے تاکہ جب اگلے ممبرز آئیں تو وہ ہمیں دعائیں دیں نہ کہ گالیاں دیں۔

اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے الیکشن کے دوران پیپلز پارٹی کے شہید ہونے والے کارکنان کے نام بتائے اور کہا کہ پاکستان میں الیکشن ایسے ہوتے ہیں کہ ہمارے کارکنان کو شہید کیا جاتا ہے، اس طرح کے واقعات کی ایک بار پھر مذمت کرتا ہوں۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ایسا نظام بنانا چاہیے کہ الیکشن کی وجہ سے ہمارے کارکن کو جان نہ دینا پڑے، وزیرِ اعظم شہباز شریف اور قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب کو مبارکباد دیتا ہوں، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور، وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز، وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، وزیرِ اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کو منتخب ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں۔

بلاول کے سائفر کی تحقیقات کے مطالبے پر اپوزیشن کی نعرے بازی

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر ہمارے ساتھی کل احتجاج نہ کر رہے ہوتے تو وزیرِاعظم کی تقریر سنتے، وزیرِ اعظم نے جونکات اٹھائے اگر ان پر عمل ہو تو ہم بحران کچھ حد تک حل کر سکتے ہیں، اپوزیشن کے دوستوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس پراسس میں حصہ لیں ، چارٹر آف اکانومی کی بات کی گئی، یہ بھی بہت ضروری ہے، پاکستان کے عوام نے ایسا فیصلہ سنایا کہ آپ کو مجبوراً مل کر فیصلے کرنا پڑیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام پیغام بھیج رہے ہیں کہ ہمارے لڑائیوں سے وہ تھک چکے ہیں، عوام چاہتے تو وہ کسی ایک جماعت کو اکثریت دلوا سکتے تھے، ہم ایوان میں کسی فارم 45 یا 47 کی وجہ سے نہیں آئے، بلوچستان میں ہمارے امیدواروں پر مہم کے دوران گرینیڈ کے حملے ہوئے، ہم سب کو چاہیے کہ ہم قومی مفاہمت پر کام کریں، جب کرکٹ کھیلتے ہیں تو رولز کے تحت کھیلتے ہیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ پاکستان کے عوام ہمیں پیغام دے رہے ہیں کہ وہ لڑائیوں سے تھک چکے ہیں، ہمیں آپس میں بات کرنی چاہیے، عوام غربت، مہنگائی،بے روزگاری کی وجہ سے تنگ آ چکے ہیں، عوام نے کسی ایک جماعت کو اکثریت نہیں دی، عوام نے اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ یہاں آ کر گالی دیں، اگر آپ کو ووٹ دیے ہیں تو اس لیے کہ عوام کو معاشی بحران سے بچائیں، چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن آمدنی میں اضافہ نہیں ہو رہا، ہم نے کچھ ایسے فیصلے لیے ہیں جن سے آج ہمارے عوام اور معیشت مشکل میں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سب آپ کو دعوت دے رہے ہیں کہ مل بیٹھ کر پاکستان کو اس مشکل سے نکالیں، آپ اس بات پر ہمارا ساتھ دیں، قائدِ حزبِ اختلاف نے کہا کہ ہمارا نظریہ اور ہے میں اس سے اختلاف کرتا ہوں، عمر ایوب صاحب کو اپنے منشور کا اتنا پتہ نہیں ہو گا جتنا مجھے پتہ ہے، آٹھ نو سال پہلے 35 سو سے 4 ہزار روپے میں 1 خاندان اشیائے خور و نوش خرید سکتا تھا، اب اشیائے خور و نوش لینےکےلیے کم سے کم 17 ہزار روپے درکار ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی پالیسی پر اپنا ان پٹ دیتے ہیں تو پالیسی اچھی ہوگی، اگرآپ پالیسی پر رائے نہیں دیتے تو آپ کو ان کی پالیسی پر اعتراض کا حق نہیں ہو گا، کل وزیرِ اعظم نے ملک کی معاشی مشکلات کے بارے میں بات کی، ایک بات کی جا رہی تھی کہ این ایف سی ایوارڈ کے بعد وفاقی حکومت قرض پر چل رہی ہے، 18 ویں ترمیم کے مطابق جو وزارتیں ڈیوالو ہونی چاہئیں تھی وہ چل رہی ہیں، انہوں نے خان صاحب کو بھی یہ بتایا تھا کہ ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں ، 18 وزارتیں ایسی ہیں جن کو 2015ء میں ختم ہو جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی حکومت بننے جارہی ہے اس میں پیپلز پارٹی نہیں ہو گی، اگر ہم اس میں آ جاتے تو 10، 15 وزارتیں ہم بھی لے لیتے، شہباز شریف صاحب انقلابی قدم اٹھا سکتے ہیں، خوشی ہوئی کل وزیرِ اعظم نے کہا کہ جو سبسڈی کھاد والوں کوجاتی ہے وہ براہِ راست کسان کو دیں گے، سالانہ 1 ہزار ارب روپے کی سبسڈی اشرافیہ کو دی جاتی ہے، وزارتیں بند، سبسڈی بند کرتے ہیں تو معاشی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے اسپیس ہو گا۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اگر آپ کے پاس فسکل اسپیس ہو گا تو آپ عوام کو ریلیف دے سکیں گے، یہ نکات میری جماعت کے ہیں، سنی اتحاد کونسل اور دیگر جماعتوں کے نکات بھی ہوں گے، عوام ہم سے امید رکھتے ہیں کہ ہم ان مسائل کا حل نکالیں، جب ہم شکایتیں کرتے تھے تو آپ طنز کرتے تھے، ہم آپ کی شکایتوں کا مذاق نہیں اڑائیں گے۔

ان کا کہنا ہے کہ میں اس ہاؤس میں 2 الیکشن لڑ کر آیا ہوں، اُس وقت اسد قیصر صاحب اسپیکر تھے، میں آج تک اپنے فارم 45 کے انتظار میں ہوں، میں نے پچھلی اسمبلی میں یہی تقریر کی کہ میں اب تک اپنے فارم 45 کے انتظار میں ہوں، ہم اس پر دھرنا دھرنا کھیل سکتے تھے، ملک کے لیے عدالتی اصلاحات اور انتخابی اصلاحات کرنا ہوں گی۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ اپوزیشن سے کہوں گا کہ وہ بھی ان اصلاحات کے عمل میں حصہ لیں، آپ جانتے ہوں گے کہ الیکشن لڑنا کتنا مشکل ہوتا ہے، اگلی بار شہباز شریف الیکشن جیتیں یا قیدی نمبر 804، کوئی انگلی نہ اٹھا سکے، ہر دن ایک جنگ ہوتی ہے اور سب سے بڑی جنگ الیکشن ڈے پر ہوتی ہے، تیسرے الیکشن میں امید کرتا ہوں کہ یہ شور نہیں ہو گا، الیکشن میں جو بے قاعدگیاں ہیں انہیں ٹھیک کرنا ہے تو پیپلز پارٹی سے جو ہو سکا کرے گی، چاہتا ہوں کہ اگلی بار انتخاب لڑ کر آؤں تو اس طرح کا احتجاج نہ ہو۔