سچ تو یہ ہے،

سچ تو یہ ہے،

DO YOU REMEMER
KUNAN POSHPORS?

بشیر سدوزئی

مندرجہ بالا عنوان کی یہ محض ایک کتاب ہی نہیں انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے ایک داستان غم ہے۔ ایسی داستان جو کوئی مذہب، کوئی دھرم اور عقیدہ اس کی اجازت نہیں دیتا۔ دنیا کی جدید ریاستی تصور ہو یا قدیم راجگانہ نظام حکومت کسی بھی حکمران نے اہلکاروں کو رعایا اور مطیع پر یہ ظلم کرنے کی اجازت نہیں دی ہو گی جو بھارتی سرکار نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی عورتوں پر اپنی فوج کو بربریت اور مظالم کا اختیار دے رکھا ہے۔ وہ سب مظالم اور داستانیں اس کتاب میں موجود ہیں ۔ جموں و کشمیر کے ایک ایک فرد سے جو دنیا کے کسی ملک میں ہو یا جموں و کشمیر کے کسی بھی خطے میں رہائش پذیر ہے، یہ کتاب اس سے سوال کرتی ہے کہ “کیا آپ کو کنن پوش پورہ یاد ہے ” میرا نہیں خیال کہ کسی کشمیری کو کنن پوش پورہ کی تاریخ پڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ واقعی کشمیری ہے، اس کا ضمیر اس کو اس بات پر فخر دیتا ہے کہ وہ ڈوگرہ کشمیر کے قانون کے مطابق کشمیر کا پشتی باشندہ ہے۔ البتہ ان لوگوں کے لیے جو کہتے ہیں کہ کشمیریوں نے آزادی کے لیے کیا جدوجہد کی، وادی کے لوگ کھڑے ہی نہیں ہوتے تو دوسرا کیا کرے۔اب خطہ میں امن کے لیے ماضی کو بھول کر آگئیں بڑھیں اور تجارت و تعلقات بحال کریں، کا جواب ہے کہ وادی کے لوگ تماری نعرہ بازی سے کھڑے ہوئے تو ان کا یہ حشر ہوا، اس وقت تم کہاں کھڑے جب بھارتی فورسز یہ حشر برپا کر رہی تھیں۔تمارے گھر میں ایسا ہو جائے تو کیا تم ماضی بھول جاو گے ۔ ان کشمیریوں کے لیے یہ کتاب خوف کی علامت ہے جو مین سٹریم پارٹیوں کے قائدین اور کارکن کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں چاہے یہاں ہوں یا وہاں۔ مقبوضہ کشمیر کی ان عورتوں کی روح تمارے ضمیر کا پیچھا کرتی رہیں گی جب تک وہ چاگ نہیں جاتا۔ سری نگر کی پانچ طالبات نے اس کتاب کو مرتب کیا جو کینیڈا سے شائع ہوئی اور اب دنیا میں ناپید ہو رہی ہے۔ اس کتاب پر بھارت میں پابندی ہے لیکن آن لائن پاکستان میں بھی نہیں منگوائی جا سکتی۔ اگر آپ آرڈر دیتے ہیں تو اسی وقت آپ کو بتا دیا جائے گا کہ سرحد سے باہر کسی جگہ وصول کریں تو آپ کی مہیا کی جا سکتی ہے۔ جو پتہ آپ نے درج کیا اس پتے پر پہنچانا ممکن نہیں۔ وجوہات کا معلوم نہیں لیکن سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارتی فوجیوں کے سیاہ کرتوتوں کی داستان پاکستانی سرحد کے اندر کیوں نہیں آ سکتی۔ میں حکومت آزاد جموں و کشمیر سے درخواست کروں گا کہ لبریشن سیل کے فنڈ حکمرانوں اور ان کے ہم راہیوں کے علاج پر خرچ کرنے کے بجائے اس کتاب کی طباعت اور اشاعت پر خرچ کئے جائیں اور اس کتاب کو آزاد کشمیر اور پاکستان میں اتنی عام کی جائے کہ ہر ذی شعور فرد اس واقعہ سے واقف ہو جائے کہ 23 اور 24 فروری 1991ء کی درمیانی رات سری نگر سے 90 کلومیٹر دور کپواڑہ کے دو گاوں کنن پوش پورہ میں ایک سو عورتوں کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔ ہم نے نیو یارک سے بھاری قیمت ادا کر کے اس کتاب کو منگوایا۔ پہلے اس کا ترجمہ کیا، پھر اس کو دختر کشمیر کے نام سے ” ناول ” میں تبدیل کیا۔ یہ شاہ کار ناول ” دختر کشمیر ” شائع کیا جا رہا ہے۔ بکنگ کرانے والوں کو سب سے پہلے ان کے دئیے گئے پتہ پر ارسال کیا جایے گا۔ تاہم اردو ترجمہ کے ساتھ کتاب بھی مل سکتی ہے۔۔۔کتاب کے پانچ باب ہیں اور ہر طالبہ نے ایک باب لکھا، ایک باب میں بھارتی آرمی کی کنن پوش پورہ پہنچنے کی پوری داستان ہے۔ دوسری طالبہ نے فوج کی طرف سے گاوں گھیرنے کے بعد کی صورت حال کو اجاگر کیا کہ فوجیوں نے سرد ترین موسم میں کس طرح مردوں کو گھروں سے باہر نکالا، تیسری طالبہ نے عینی شاہدین اور متاثرہ خواتین کے انٹرویو ریکارڈ کئے ہیں کہ بھارتی فوجیوں نے گھروں میں گھس کر کیا گھناونا جرم کیا۔ چوتھی طالبہ نے اس واقعہ کے بعد ان کاوں پر پڑھنے والے سماجی اثرات بیان کئے جس میں واقعہ کے دوسرے روز زخمی مرد کس طرح برف میں رینگتے ہوئے گھر تک پہنچے اور یہاں آکر انہوں نے عفت ماب خواتین کو کن حالات اور کس قرب قیامت میں پایا۔ پانچویں نے بتایا کہ کس طرح فوج اور سرکار بھارت کے نمائندے ڈھٹائی کے ساتھ ان مظلوم عورتوں کے انصاف کے حصول میں رکاٹ ڈالتے رہے۔ انصاف کے حصول کے لیے متاثرین کی جدوجہد اور ایک اور باب میں بتایا گیا کہ کس طرح یہ واقعہ بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنا اور ساری دنیا تک پہنچا مگر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیری دنیا سے بھارت کو مجبور نہ کر سکے کے اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ انکوائری ہو۔ کشمیری قیادت وہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ ہوں، فاروق حیدر، سردار عتیق احمد ہوں، انوار الحق چوہدری، محبوبہ مفتی ہوں، شاہ غلام قادر یا اور کوئی جو کشمیریوں کی قیادت کا دعویدار ہے سے بھی یہ کتاب سوال کرتی ہے کہ آپ واقعی ایک انسان ہیں اور کشمیری بھی تو پھر کس طرح آپ کو نید آتی ہے، کس طرح آپ اپنے خاندان کے ساتھ خوش رہ سکتے ہیں اور کس طرح آپ کھا پی اور خوشیاں منا سکتے ہیں، ہر کشمیری کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، ایک بار نہیں بار بار۔ 2024 کے وسط تک یہ کتاب اردو ترجمہ کے ساتھ پاکستان اور آزاد کشمیر کے بازار میں موجود ہو گی۔ سرے دست اس کتاب کا عکس عوامی تھیٹر “دختر کشمیر ” آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں 23فروری 2024 کی رات کو پیش کیا گیا جسے عوامی سطح پر بہت پذیرائی ملی، سیکڑوں افراد دیکھنے پہنچے اور جو نہیں پہنچے مختلف مقامات پر اس عوامی تھیٹر کے بارے میں ہونے والے تبصروں میں شامل رہے اور جان کاری حاصل کی۔ اس تھیٹر کو جتنی پذیرائی حاصل ہوئی گزشتہ تین عشروں کے دوران کسی دوسرے عوامی تھیٹر کو حاصل نہیں ہوئی۔ اس عوامی تھیٹر پر ایک مکمل رپورٹ بعد میں انہی کالموں میں پڑھی جا سکتی ہے۔