لاڑکانہ میں سیاسی جماعتوں کے حامیوں میں تصادم، مسلح افراد کی فائرنگ سے 2 افراد قتل، پولیس اے ایس آئی شہید، ڈی ایس پی اور اہلکار سمیت 6 افراد زخمی، ایس ایس پی اور پیپلز پارٹی رہنما جائے وقوعہ پر پہنچ گئے

لاڑکانہ(بیورورپورٹ) لاڑکانہ میں سیاسی جماعتوں کے حامیوں میں تصادم، مسلح افراد کی فائرنگ سے 2 افراد قتل، پولیس اے ایس آئی شہید، ڈی ایس پی اور اہلکار سمیت 6 افراد زخمی، ایس ایس پی اور پیپلز پارٹی رہنما جائے وقوعہ پر پہنچ گئے، پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا واقعے پر افسوس کا اظہار، نگران وزیراعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لے کر آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کرلی، تفصیلات کے مطابق لاڑکانہ شہر کے تھانہ ماہوٹہ کی حدود ڈاہانی موڑ کے علاقے میں ڈاہانی اور چانڈیہ گروپوں سے تعلق رکھنے والے سیاست جماعتوں کے حامیوں میں تصادم، مسلح افراد نے فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں محمد حسن چانڈیو، عمران ڈاہانی موقع پر قتل ہوگئے جس کے بعد علاقہ جنگ کا میدان بن گیا، حالات پر کنٹرول کرنے کے لیے ڈی ایس پی صدر بشیر شر اور ایس ایچ او کانگا جائے وقوعہ پر پہنچ گئے جہاں مسلحہ افراد نے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں پولیس اے ایس آئی سلطان شاہ شہید ہوگئے جبکہ ڈی ایس پی بشیر شر، پولیس اہلکار صدام موہل، مسعود ڈاہانی، غفار ڈاہانی، عرفان ڈاہانی سمیت 6 افراد شدید زخمی ہوگئے، واقعے کے بعد شہید پولیس اے ایس آئی، مقتولین کی لاشیں اور زخمیوں کو ٹراما سینٹر منتقل کردیا گیا جہاں زخمیوں کو طبی امداد دی گئی، اس سلسلے میں ماہوٹہ پولیس سے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ڈہانی اور چانڈیہ برادری سے تعلق رکھنے والے دو سیاست جماعتوں کے حامیوں کے درمیان سیاسی ریلی نکالنے کے معاملے پر جگھڑا ہوا جس کے نتیجے میں ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس پر پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر فائرنگ روک دی ہے، دریں اثناء ایس ایس پی لاڑکانہ سید عبدالرحیم شیرازی جائے وقوعہ پر پہنچے اور ہوٹل کے مالک، مزدوروں اور علاقہ مکینوں سے تفصیلات معلوم کیں اور انہیں سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی، ایس ایس پی لاڑکانہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افسوسناک واقعہ ہے، گزشتہ روز ان کا جھگڑا ہوا تھا جس میں علی حسن ڈہانی نے آکر ہوٹل میں توڑ پھوڑ کی جس کا تعلق سیاسی جماعت سے ہے، آج صبح وہ دوبارہ اپنے مسلحہ افراد کے ہمراہ آیا جس پر ہوٹل کے عملے نے 15 کو کال کی، بعد ازاں ڈی ایس پی صدر اور ایس ایچ او کنگا پولیس نفری کے ہمراہ پہنچے اور حالات پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن مسلح افراد نے فائرنگ کر دی جس میں تھانہ ماہوٹہ کے اے ایس آئی سلطان شاہ شہید اور ایک چانڈیو بھی جاں بحق ہوگئے، واقعے میں ملوث افراد بالخصوص پولیس کو نقصان پہنچانے والوں کو کٹہرے میں لایا جائے گا، انہوں نے کہا کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے کے بعد کوئی گرفتاری نہیں کی اور اصل مجرموں کو گرفتار کیا جائے گا، انہوں نے کہا کہ ڈی ایس پی صدر اور ان کے گن مین صدام کو بھی نشانہ بنایا گیا اور وہ زخمی ہوئے، دوسری جانب پیپلز پارٹی کے رہنما برہان خان چانڈیو بھی جائے وقوعہ پر پہنچے اور چانڈیہ برادری کے معززین اور ہوٹل مالک اور کارکنوں سے تفصیلات حاصل کیں، میڈیا سے بات کرتے ہوئے برہان خان چانڈیو نے کہا کہ میں بھی حیران ہوں کہ شہر کے وسط میں اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے، اس کی توقع نہیں کی جا سکتی، حملے کے بعد صبح ہمارے لوگ اور پولیس اہلکار شہید ہوئے ہیں، میں نے آئی جی سندھ، مراد علی شاہ، اور ڈی آئی جی ناصر آفتاب سے بھی بات کی ہے، امید ہے چانڈیہ برادری کے متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے گا، دوسری جانب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے واقعے میں پولیس اے ایس آئی کی شہادت اور شہریوں کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ہے، پارٹی ترجمان کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے واقعے میں ملوث ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے، اس تناظر میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وہ شہید پولیس اے ایس آئی کے لواحقین سے دلی یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، دریں اثناء چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی واقعے میں زخمی ہونے والے ڈی ایس پی اور دیگر کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے، دوسری جانب نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے لاڑکانہ میں فائرنگ سے 3 افراد کی ہلاکت کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی ہے، نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ کو واقعے کی فوری رپورٹ فراہم کرنے کا حکم دیا ہے، اس حوالے سے آئی جی سندھ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو گاہی دی ہے کہ لاڑکانہ کے علاقے نوڈیرو بائی پاس کے قریب دو فریقین کے درمیان فائرنگ ہوئی، جس کے نتیجے میں تھانہ ماہوٹہ کے پولیس اہلکار اے ایس آئی سلطان شاہ شہید ہوگئے، دوسری جانب پوسٹ مارٹم کے بعد شہید اے ایس آئی اور دونوں مقتولین کی لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی گئیں، جہاں لاش گھر پہنچنے پر کہرام مچ گیا تاہم آخری اطلاع موصول ہونے تک واقعے کا مقدمہ درج نہ ہوسکا۔