پاک بھارت بات چیت۔ مسعود خان کا نیویارک میں انٹرویو؟

saduzai

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی

تجزیہ نگار اس پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ امریکا میں کشمیری نزاد پاکستانی سفیر مسعود خان نے “نیوز ویک” کو انٹرویو دینے کے لیے 8 فروری کے قریب ترین دن کا انتخاب ہی کیوں کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ” کشمیر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک ’فلیش پوائنٹ‘ ہے۔ دو مہذب ہمسایوں اور قوموں کی طرح ہمیں مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے اور اس مسئلے کو مذاکرات، سفارت کاری، بلکہ کثیر الجہتی سفارت کاری، دو طرفہ یا تیسرے فریق کی ثالثی یا کسی نیک نیتی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے”۔ “نیوز ویک”امریکا کا کثیر الاشاعت ہی نہیں بلکہ معروف ہفت روزہ میگزین ہے جس کے تبصروں، تجزیوں اور اس میں شائع ہونے والے مضامین و انٹرویو کی بڑی اہمیت ہے۔ بسااوقات اس میں شائع ہونے والا مواد امریکن پالیسیوں کا رخ موڑتا، اور اثرانداز ہوتا ہے۔ عین اس وقت جب پاکستان میں 8 فروری متنازعہ انتخابات کا سانحہ رونماء ہونے والا تھا، مسعود خان امریکا میں بیٹھ کر پاک بھارت تنازعہ ختم کر کے خطے میں امن و سکون پر گفتگو میں کس کو کیا پیغام دے رہے تھے۔ جو دراصل مودی کی خواہش پر امریکن ایجنڈا ہے۔ خیر دونوں ممالک کے درمیان دوستی، تجارت اور بہتر تعلقات کے حوالے سے کبھی بھی یاسین ملک، علی گیلانی یا میرواعظ عمر فاروق نے مخالفت نہیں کی جو ماضی میں تحریک آزادی کے سرخیل رہے ہیں۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات میں مسئلہ کشمیر ہی کوہ ہمالیہ کی طرح کھڑا ہے۔ نواز شریف جس کے سرپر اقتدار کی ہما پھڑپھڑا رہی ہے، نے پہلے بھی اس تناظر میں سنجیدہ کوشش کی تھی اور بھاجپا کے وزیر اعظم کو لاہور لے آئے تھے اور کہا گیا تھا کہ مسلہ کشمیر حل ہوا کہ حل ہوا، لیکن پرویز مشرف نے کارگل ایشو کھڑا کر کے اس کو سبوتاژ کیا تھا۔ پرویز مشرف نے پوری طاقت کے ساتھ زور لگایا کہ یہ مسئلہ حل ہو، اس حوالے سے کئی آپشن بھی دیئے لیکن پرویز مشرف ڈاکٹرین کو نواز شریف نے وکلا لانگ مارچ کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ اب پھر نئی صورت حال سامنے آئی کہ ووٹرز نے پذیرائی دی یا نہیں، اسپوٹرز کا فیصلہ ہے کہ گدی پر نواز شریف ہی بیٹھیں گے۔ سو ہم بھی مان گئے کہ اقتدار اسی کو ملنا چاہیے جس کے پیچھے طاقت ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں طاقت ہی ہوتی ہے۔ طاقت کی ہما نواز شریف، بلکہ شریف خاندان سے کبھی کبھار روٹھ جاتی ہے، لیکن مقناطیسی کشش ہما کو دائرے سے باہر نہیں نکلنے دیتی۔ ہم کون ہوتے ہیں کہ دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں یہ نہ مانیں کہ نواز شریف وزیراعظم بن رہے ہیں۔ البتہ امریکا اور یورپ میں شور ہے کہ پاکستانی ووٹوں کا کون چور ہے۔ ان امریکی پارلیمنٹرین کو تو ماہر اور تجربہ کار سفارت کار مسعود خان سمجھا ہی لیں گئے کہ پاکستان کے قومی مفاد کو جتنا ہم جانتے ہیں تم نہیں جانتے۔ جنہوں نے بلا وجہ رولا ڈالا ہوا ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ پاکستان کے حالیہ انتخابات کو تسلیم نہ کرے۔ ان کی دیکھا دیکھی، برطانیہ، یورپی یونین سمیت آسٹریلیا اور دیگر جمہوریہ بھی ان کے ہم آواز بن چکے، کینیڈا تو کبھی بھی ہماری جمہوریت کے لیے اچھا نہیں رہا۔ یہ رولا غوغا تھوڑے دنوں کا ہے، ان سب انسانی حقوق کے علم برداروں اور جمہوریت کے چیمپئن کی بولتی بند ہو جائے گی جب امریکا بہادر قائل ہو جائے گا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے کہ وہاں کیسی جمہوریت ہونا چاہیے۔ 8 فروری کے انتخابات میں کوئی کمی بیشی رہ گئی ہے تو 9 فروری کو اسے مکمل کرنے میں کیا قباحت ہے۔ جمہوریت تو تب ہی مستحکم ہو گی کہ اس میں کوئی کمی کوتاہی بروقت دور کی جائے۔ اس موقع پر چوہدری شجاعت حسین کا قول سب پر بھاری ہے کہ “مٹی پاو تے اگئیں لنگو” یقین واثق ہے کہ مسعود خان جو 70 سالہ پیرانہ سالی میں دیار غیر میں قومی مفاد کی خاطر کشت کاٹ رہے ہیں امریکن کو سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ رولا بند کرو ہمارے لیے نہیں تو اپنے مفاد کا ہی خیال رکھو۔ “نیوز ویک ” کے ساتھ انٹرویو میں مسعود خان نے سکریپٹ کے ایک حصے پر گفتگو کی جو مبینہ طورپر لندن سے وطن واپسی سے قبل نواز شریف کو دیا گیا تھا۔ اس میں پاک بھارت تعلقات کی بہتری نہیں دوستی ہے۔ اندازہ نہیں کہ سکریپٹ میں مسئلہ کشمیر کہاں تک کمپرومائز کیا جا سکتا ہے یا فی الحال 20 سال تک اس کو بھول کر دونوں ممالک تجارت سمیت دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔ لیکن نئے انتخابات سے قبل امریکہ میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے آوٹ لائن بتا دی کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کشمیر ’’فلیش پوائنٹ‘‘ ہے۔ گویا نواز شریف کو ہی پیغام تھا کہ ہولہ ہاتھ رکھا جے، یا امریکن کو کہ اندرونی معاملات میں مداخلت پر مسلہ کشمیر فلیش پوائنٹ نمایاں ہو سکتا ہے۔ ذومعنی پیغام پر مبنی انٹرویو میں مسعود خان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو نہ صرف اپنے کئی دہائیوں پرانے تنازعات پر بات چیت کرنی چاہیے بلکہ جوہری اعتماد سازی کے اقدامات پر بھی بات چیت ہونی چاہیے۔ انہوں نےکہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقت پسندانہ بات کی جائے تو ہمیں نہ صرف جموں و کشمیر کے مستقبل اور وہاں کے عوام کی امنگوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ بلکہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے چاہیے۔ مسعود خان کا کہنا تھا کہ ہمیں جوہری اعتماد سازی کی بات چیت بھی کرنی چاہیے، تاکہ ہم قابل اعتماد مواصلاتی چینلز قائم کریں۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ بھارت سمجھتا ہے کہ اس کی کشمیر اور کشمیریوں پر قانونی اختیار ہے۔ لیکن کشمیری ایسا نہیں سمجھتے اور پاکستانی ایسا نہیں سوچتے۔ ممکن ہے یہ سوچا جاتا ہو کہ کشمیر سے توجہ یوکرین کی وجہ سے ہٹ رہی ہے یا مغربی دنیا کے لیے چین کے سامنے مدمقابل کھڑا کرنے کی وجہ سے عدم دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ لیکن صرف یہی وجہ نہیں اور بھی عوامل ایسے ہیں، جن میں خاص طور پر یوکرین کے ساتھ ہند کی سیاسی و جغرافیائی صورتحال، بحرالکاہل اور مشرق وسطیٰ بھی ہے۔ لہٰذا کشمیر اب عالمی برادری کے ریڈار اسکرین پر نہیں رہا، لیکن جموں و کشمیر کے عوام آج بھی اپنے بنیادی حق کی خاطر سراپا احتجاج ہیں اور وہاں ان پر ظلم جاری ہے۔ جو عالمی برادری کے لیے ایک اندھا دھبہ اور بہت خطرناک ہے۔ کیونکہ کشمیریوں کی آزادی اتنی ہی مقدس ہے جتنی دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے لوگوں کی آزادی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تعلقات کا تعلق ہے، صرف بات چیت ہی ان کے گہرے تنازعات اور اس سے منسلک خطرات پر قابو پا سکتی ہے۔ مسعود خان نے کشمیریوں کی جان دار سفارت کاری کرتے ہوئے کہا کہ جہاں کی میں بات کر رہا ہوں وہ جہالت یا دہشت گردی نہیں، نہ ہندوستان مخالف بیانیہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک مسئلہ ہے جس میں جموں اور کشمیر کے لوگوں کی تقدیر شامل ہے۔ ایسا خطے اور دنیا کے امن کے لئے کرنا چاہئے”. پاکستانی سفیر کا یہ طویل انٹرویو اور اس میں دیئے گئے مندرجات غور طلب اور معنی خیز ہیں۔ قیاس یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے اندریں خانہ کسی نہ کسی سطح پر مذاکرات ہو رہے ہیں جیسے کہ چند برس قبل کے بارے میں باخبر میڈیا پرسن نے بتایا کہ بیک ڈور یا اندریں خانہ مذاکرات چل رہے تھے۔ اللہ بلا کرے شاہ محمود قریشی کا بروقت راز فاش کر دیا ورنہ عالمی امن ایوارڈ کے چکر میں کشمیر تو لپیٹ دیا گیا تھا ۔ ممکن ہے ابھی بھی ایسا ہو رہا ہو جو یہاں تک پہنچ چکے کہ ایک اہم ترین سفیر سے اس کے مندرجات کو نیویارک میں ظاہر کیا گیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ خطہ میں امن و سکون کے لیے دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور تجارت ہونا چاہیے لیکن ایک لاکھ نوجوانوں کے خون، ایک لاکھ جوبیس ہزار یتیموں اور ہزاروں ریپ زدہ افت ماب بیٹیوں کے آنسوؤں پر یہ دوستی کیسی ہو گی اللہ ہی بہترجانتا ہے۔ کشمیریوں سے بھی پوچھا جائے کہ ان کی مرضی کیا ہے تو امن کی کوشش دیرپا ہو سکتی ہیں۔ بھارت پہلے مرحلے میں کم از کم صورت حال کو 2004 کی پوزیشن میں لائے، جہاں کشمیریوں کو کسی حد تک آزادیاں اور بنیادی حقوق بحال تھے۔ بھارت کی جیلوں میں بند کشمیری قیادت اور سیاسی، سماجی، انسانی حقوق اور میڈیا کے کارکنوں کو غیر مشروط رہا کرے۔ جموں و کشمیر کی ریاستی پوزیشن اور سیاسی و جمہوری آزادیاں بحال کرے۔ مسئلہ کشمیر پر دو فریقی نہیں سہ فریقی مذاکرات ہوں۔ کشمیریوں کو آزادانہ طور پر آر پار آنے جانے کی آزادی ہو۔ مجھے یقین ہے کہ نواز شریف ایسی کسی سازش کا حصہ نہیں بنے گا جس سے کشمیریوں کی دل آزاری ہو، اور کشمیری اس کو نامانیں جیسا کہ پرویز مشرف کی تجویز کو علی گیلانی نے مسترد کردیا تھا۔