حکمت، ہومیو پیتھی اور ایلوپیتھی ،۔

عابد حسین قریشی
ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج لاہور (ر)
ایک بڑی دلچسپ صورتحال ہمارے ہاں ہے، کہ حکیم اور ہومیوپیتھی ڈاکٹر جب بھی کسی مریض کا نسخہ لکھیں گے، ساتھ کچھ پرہیزیں بھی بتائیں گے ۔ جن میں کٹھی میٹھی چیزوں ، گوبھی، بینگن، دال مسور وغیرہ ضرور شامل ہوں گی۔ جبکہ ایلو پیتھک ڈاکٹر نسخہ کے ساتھ کہیں گے کہ جو مریض کا دل کرتا ہے کھا سکتا ہے۔ اسکی سمجھ نہیں آسکی کہ حکیموں اور ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کو کچھ سبزیاں اور دالیں پسند نہیں۔ یا گوبھی اور بینگن سے کوئی خاندانی دشمنی ہے۔ البتہ ایک بڑا نمایاں فرق ہے، ڈاکٹر حضرات مریض سے زیادہ اسکی ٹیسٹ رپورٹس کو دیکھتے اور اس پر انحصار کرتے ہیں جبکہ حکیم صرف نبض پر۔ نبض سے بظاہر مرض کی تشخیص کچھ مشکل نظر آتی ہے۔ مگر حکیم صاحب مریض کی رنگت، آنکھیں دیکھ کر بھی مرض کا اندازہ لگاتے ہیں۔ لیکن وہاں کچھ دلچسپ باتیں بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے سیالکوٹ میں ایک دوست بتایا کرتے تھے کہ جب حکیم صاحب نے مریض سے پوچھا کہ رات کو کتنی مرتبہ پیشاب کرتے ہو اور مریض نے بتایا کہ چھ سات مرتبہ تو حکیم صاحب نے بے ساختہ فرمایا کہ پھر تو بیڑا ہی غرق ہو چکا ہے۔ حکیم صاحب کے اس جملہ میں ذیابیطس یا شوگر کے مرض کی تشخیص تھی۔۔ کمر درد کا علاج کرتے ہوئے جو جملے حکیم صاحبان بولتے ہیں، وہ تو ہمارا بڑا لبرل سنسر بورڈ بھی آن ایئر نہ جانے دے۔ قبض کشائی کی دوائی حکیم کے مطب سے کھا کر بندہ بغیر کسی “سانحہ “کے گھر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ہمارے ایک مہربان لاہور گلبرگ میں ہومیوپیتھی ڈاکٹر تھے، وہ مریض کی تشخیص کرتے وقت اتنی زور سے “”ٹھہرو جی ، ٹھہرو جی”” کہتے کہ مریض کا باقاعدہ تراہ نکل جاتا، مریض کی ساری ہسٹری ایک رجسٹر میں لکھتے جاتے اور بعد میں اسکی دوائی بھجواتے۔ بڑے کمال کے ڈاکٹر تھے ، کچھ عرصہ قبل ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔ آنکھیں دیکھ کر یرکان یا jaundice کی تشخیص کرنا ہماری حکمت میں معمول کی بات ہے۔ اب hepatitis کی اقسام اور انکی صحیح تشخیص کے لیے بڑے مہنگے ٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں اور پھر اس سے بھی مہنگے ٹیکے، جبکہ حکیم صاحب اسی یرکان کا علاج سردائی کی چار خوراکوں میں کر دیتے تھے۔ آجکل گردوں اور جگر کی بیماری کی ایک وجہ غیر مستند حکیموں کی دیسی دوائیاں بھی ہیں، جو عمومی طور پر جنسی قوت بڑھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ جن میں فوری اثر دکھانے کے لیے سٹیرائڈز شامل ہوتے ہیں، جو کچھ عرصہ بعد جنسی قوت تو نہیں بڑھاتے البتہ کھانے والے کے گردے اور جگر پر نہایت مضر اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔. بد قسمتی سے ہماری حکمت زوال پزیر ہے۔ شاید آخری مستند حکیم ہمدرد والے حکیم سعید تھے۔حکیم تو وہ کمال کے تھے ہی مگر انسان بھی بہت عمدہ اور درد دل رکھنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ انکے درجات بلند فرمائے ۔ اب یہ زمین ٹاپ لیول کے حکماء پیدا کرنے میں بانجھ نظر آتی ہے۔ جبکہ ماشاءاللہ ہم بڑے پائے کے ڈاکٹر ضرور پیدا کر رہے ہیں۔ ذاتی طور پر دوران سروس اور بعد از ریٹائرمنٹ بہت سے ڈاکٹروں سے واسطہ پڑا۔ ایک طویل فہرست ہے۔ بڑا مشکل ہے سب کے نام یاد رہیں اور لکھے جائیں ، مگر جن ڈاکٹر صاحبان نے اپنے اعلیٰ اخلاق و کردار ، پروفیشنلزم ، اور بہترین حسن سلوک سے بہت متاثر کیا ، ان میں لاہور کے معروف درویش منش سرجن مرحوم ڈاکٹر T.A.Shah, معروف فزیشن مرحوم ڈاکٹر فیصل مسعود ،۔ عالمی معیار کے dental surgeon پروفیسر عثمان اختر، ہمارے فیملی فرینڈ اور بچوں کے لاجواب ڈاکٹر امتیاز ذوالفقار جو اب ہماری تیسری جنریشن کے بھی ڈاکٹر ہیں۔ نہر کنارے فاروق ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر صابر ملک جنہیں میں طب کا امرت دھارا مانتا ہوں ، اور اسی ہسپتال کے بہت ہی خوبصورت اور خوب سیرت ، اپنے شعبہ کی پہچان سرجن ڈاکٹر راشد سراج، ساہی وال کے بچوں کے بہت ماہر ڈاکٹر غلام عباس، فیصل آباد کے معروف eye specialist پروفیسر ڈاکٹر سلطان، اور فرینڈ آف جوڈیشری ڈاکٹر عامر عادل, PIC کے سابق چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر ندیم حیات ملک اور شیخوپورہ کے ڈاکٹر طارق نمایاں ہیں۔ ابھی تین چار روز قبل میری والدہ محترمہ کا سیالکوٹ میں گھر میں گرنے سے ہڈی کا فریکچر ہو گیا۔ ویک اینڈ کی وجہ سے وہاں کوئی آرتھو ڈاکٹر میسر نہ تھے اور والدہ تکلیف میں تھیں۔ میں نے اپنے دوست چوہدری محمد انور سماں ایڈوکیٹ کے بڑے ہونہار اور بڑے پروفیشنل ،فرزند آرتھو پییڈک سرجن ڈاکٹر عبدالباسط کو میسج کیا ، اور اپنی مجبوری بتائی تو جو جواب آیا اس نے دل اور روح کو معطر کر دیا۔ ڈاکٹر باسط نے کہا کہ انکل آپکی والدہ تکلیف میں ہوں تو ویک اینڈ matter نہیں کرتا۔ آپ انہیں فوراً لا ہور شفٹ کریں۔ اور پھر اتوار کی صبح انہوں نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ یہ کامیاب سرجری کر دی۔ اسکے علاوہ بھی بہت سے اچھے ڈاکٹروں سے رابطہ رہا ، ظاہر ہے سب کے نام لکھنا ممکن نہ ہے۔ اب آخر میں پھر ذرا lighter tone میں بات کرتے ہوئے جس طرح حکیم کچھ چیزوں سے پرہیز ضرور بتاتے ہیں ، اسی طرح زندگی میں کچھ لوگوں سے پرہیز بڑا کار گر ہوتا ہے۔ خصوصاً جب ایسے لوگوں کی قربت ذہنی پریشانی کا سبب بن سکتی ہو، تو دائمی نقصان اور ضرر سے بچنے کے لیے ایسے لوگوں سے وہ حکمت والا پرہیز بڑا ضروری ہے۔