سلیکٹر سے سلیکٹڈ تک، سنگھاسن پر کون


ڈاکٹر توصیف احمد خان
================

’’سلیکٹر سے سلیکٹڈ تک، سنگھاسن پر کون‘‘ ایک صحافی مظہر عباس کی حالیہ تصنیف ہے۔ اس کتاب کے عنوان نے ہی ملک کے سیاسی نظام کے افلاس کو آشکار کردیا ہے۔

مظہر عباس کا تعلق متوسط طبقہ سے ہے، ان کے خاندان کی میراث تعلیم، ادب اور ایمانداری ہے۔ مظہر عباس کے والد ایک استاد اور شاعر بھی تھے۔

حیدرآباد کے شہری مرزا عابد عباس سے بخوبی واقف ہیں۔ مرزا عابد عباس نے 60 اور 70 کی دہائی میں حیدرآباد کے سٹی کالج کے دروازے غریب طالب علموں کے لیے کھول دیے تھے۔

ملک میں اہم ذمے داریاں انجام دینے والے بیوروکریٹ، محقق، اساتذہ اور سرکار ی افسران اپنی ترقی میں پروفیسر عابد عباس کے کردار کا ذکر کرنا افتخار کاباعث سمجھتے ہیں۔ پروفیسر عابد عباس کو علم دوستی کی سزا ملی اور انھیں پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں ملازمت سے محروم کردیا گیا۔

مظہر عباس کے خاندان کا بھارت کی کمیونسٹ تحریک سے قریبی تعلق رہا ہے۔ مظہر عباس اور ان کے بھائیوں نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور خوشحالی کے بعد زندگی کی مشکلات کو جھیلا ہے اور سخت محنت کرکے اپنا مقام بنایا ہے۔ یہ ملک کا واحد خاندان ہے جس کے تین سگے بھائی میڈیا کے مختلف اداروں میں اہم خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

مظہر عباس ایک اسٹوڈنٹ ایکٹیوسٹ رہے ہیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک کمیٹڈ ٹریڈ یونینسٹ ہیں۔ مظہر عباس کی یہ کتاب 554صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مظہر کے وہ آرٹیکلز ہیں جو 2021سے اب تک شایع ہوئے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ’’ بائیں بازو سے منسلک رہنے والے لوگ لازمی طور پر صاحبِ مطالعہ ہوتے ہیں۔

ان کا دنیا کے بارے میں وژن بڑا واضح اور عوام دوست ہوتا ہے۔ مظہر عباس ان ہی خوبیوں سے مزین ہو کر میدانِ صحافت میں اترے۔ مظہر عباس اس لیے بھی آئیڈیل ہیں کہ انھیں لٹریچر کا بھی تڑکہ لگا ہوا ہے۔ ‘‘عاصمہ شیرازی نے کتاب کے فلیپ کے لیے لکھا ہے کہ’’ پیشہ کے اعتبار سے اپنی رفتہ گاں کی عزت کا پاس مظہر عباس نے ہمیشہ رکھا۔

عزت کو امارات سے اور ہنر و علم کو نمود و نمائش سے بچائے رکھنا بھی مظہر عباس کا ہی خاصہ ہے۔‘‘ معروف ماہر معاشیات یوسف نذر نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ’’مظہر نے سیاست کے بجائے صحافتی سیاست (ٹریڈ یونین) پر توجہ دی۔ ان کا سفر روزِ اول کی طرح آج بھی جاری ہے۔

مظہر نے اپنے دور کے نامور صحافیوں اور ٹریڈ یونینسٹ سے بہت کچھ سیکھا۔ مارشل لاء ادوار میں زبردست جدوجہد کی۔‘‘ یوسف نذر نے مزید لکھا ہے کہ’’ میرا یہ ماننا ہے کہ پاکستان کو مظہر جیسے تجربہ کار دیانت دار اور پیشہ ور صحافیوں کی ضرورت ہے جو معاشرہ کی تبدیلی کے خواہاں ہوں اور اپنا فرضِ منصبی ایمانداری سے ادا کریں۔‘‘

مظہر عباس کی اس کتاب میں خصوصی تحریر شامل کی گئی ہے جس کا عنوان ہے ’’سلیکٹر سے سلیکٹڈ تک۔‘‘ اس تجزیہ میں مظہر عباس لکھتے ہیں کہ’’ یہ حسرت ہی رہی اس ملک میں کبھی انتخابات کو صاف شفاف دیکھنے کی۔ ہماری الیکشن کی تاریخ اس طرح کے سلیکشن سے بھری پڑی ہے۔‘‘

مظہر کا استدلال ہے کہ ایسا نہیں کہ یہاں سیاسی جماعتوں نے سیاست نا کی ہو، کئی جماعتوں کو عوام میں پذیرائی بھی نصیب ہوئی مگر جب قوم ، اخوت عوام کا وقت آیا اور لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کی تو یا تو انھیں حکومت نہیں کرنے دی گئی یا ان سے اقتدار ایک دو سال میں چھین لیا گیااور اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ جن کے حلف میں لکھا ہے ’’سیاست سے دور رہنا ہے‘‘ یہی ہمیں سیاست کا سبق پڑھاتے ہیں، اگر اس میں کچھ غلط بیانی ہے تو صرف دو مثالیں ہی کافی ہیں۔

1988میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کا راستہ روکنے کے لیے پی پی پی مخالف اسلامی جمہوری اتحاد (I.J.I) بنایا اور اگر بنانے والا برملا کہے کہ ہاں آئی جے آئی میں نے بنوائی تھی، کرو میرے خلا ف کارروائی اور پھر بھی نا کوئی عدالت میں جائے اور نا کوئی سوال اٹھائے تو سمجھ لیں کہ اس ملک میں جمہوریت کہاں کھڑی ہے۔

مظہر عباس لکھتے ہیں کہ ایک بدترین مثال 1990کے الیکشن ہیں۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کو 1988 میں مشروط اقتدار دیا گیا مگر اس وقت کے سلیکٹرز جن کا لگایا ہوا پودا آئی جے آئی تھا اور ان کے پاس پنجاب تھا جس نے پی پی کو چلنے نہیں دیا اور چند ماہ میں ہی ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کردی۔ سلیکٹرز نے نواز شریف اور بانی ایم کیو ایم کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔

مصنف کا کہنا ہے کہ 2008سے 2018 تک ملک میں لنگڑی لولی جمہوریت رہی مگر پھر روایتی سلیکٹرز سے ہٹ کر اس میں اعلیٰ عدلیہ کا تڑکہ بھی لگا۔ لگتا کچھ یوں ہے کہ سلیکٹرز نے اب خاصی حد تک سلیکشن کمیٹی میں عدلیہ کو بھی شامل کرلیا ہے، پہلے اگر 58-2(B) استعمال ہوتا تھا تو اب 183(3) اور نا جانے اور کتنے طور طریقوں سے یوسف رضا گیلانی اور خود نواز شریف کو گھر بھیج دیا جب کہ عمران خان کو ہٹانے کے لیے بظاہر آئینی عدم اعتماد کو آزمایا گیا مگر یہ سب اس وقت ہوا جب سلیکٹرز کا اختلاف خان صاحب سے ہوا۔

مظہر عباس نے ’’ہم آئینہ فروشوں کو آئینہ دکھاتے ہیں‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ماضی پر نظر ڈالے بغیر آگے بڑھا نہیں جاسکتا کیونکہ ایک بار پھر ہم نئے سال میں ایک پرانے پاکستان کے ساتھ داخل ہورہے ہیں، جس ملک میں بچوں کے نصاب میں آمریت دور کے فوائد گنوائے جاتے ہیں وہاں آمریت ہی کی پیداوار ہوگی چاہے اس کی شکل بظاہر جمہوری نظر آئے۔

ہمارے بیشتر سیاست دان جمہوری نرسریوں میں جائے بغیر سیاست میں ایم اے کر لیتے ہیں۔ پھر ہم ان کو خطاب بھی دیتے ہیں کہ سیاست میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ اگر پوچھو کہ بھائی کبھی طلبہ یونین کے انتخاب میں حصہ لیا یا کبھی بلدیاتی الیکشن لڑا تو جواب میں زیادہ تر صفرنظر آئے گا۔

آخر کوئی تو وجہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے باوجود نہ صوبے خوشحال ہوسکے نہ بلدیات بااختیار ہوسکیں، البتہ چند سیاسی و غیر سیاسی گھرانے ضرور ارب پتی ہوگئے۔ طلبہ یونین قانونی طور پر بحال ہے مگر کالجوں اور جامعات میں یونین کے الیکشن نہیں ہوتے۔

’’بڑی سیاسی غلطی ‘‘کے عنوان سے مصنف نے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ ’’سوچتا ہوں کہ دسمبر کو کیسے یاد رکھوں۔ 16 دسمبر 1971کو یاد کروں یا 16 دسمبر 2014، دونوں ہی دن کسی بھی مردہ قوم کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ ہم ان سے بھی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ سوچتا ہوں کہ دسمبر کو کیسے یاد رکھوں۔

7دسمبر 1970کو یاد کروں کہ جب پہلی بار ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر 300 میں سے 290 نشستوں پر الیکشن ہوئے، نتائج تسلیم کیے گئے مگر اقتدار عوامی نمایندوں کو منتقل کرنے میں بے جا تاخیر کی گئی جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔

پچھلے دنوں ایک دوست نے ان دنوں کی شیخ مجیب الرحمن کی ایک جلسہ عام کی تصویر بھیجی جس میں وہ سویلین بالادستی کی بات کررہا تھا اور اقتدرا منتخب نمایندوں کو دینے کی بات کررہا تھا ۔ یاد رکھیں یہ وہی شخص تھا جس نے ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشن مہم چلائی تھی۔ آج اس بات کو پورے 50سال ہوگئے ہیں۔

ہم سویلین بالادستی کی بحث سے ہی باہر نہیں نکل پارہے ہیں۔ مینارِ پاکستان پر سب جلسے جلوس کرتے رہیں مگر پلٹ کر 1940کی قرارداد پر نظر ڈالنے کو تیار نہیں ۔‘‘ اس کتاب میں شامل ایک اور آرٹیکل ’’بھٹو بننا آسان نہیں‘‘ میں مظہر لکھتے ہیں کہ چین کے عظیم لیڈر چواین لائی نے ایک بار کہا تھا ’’ذوالفقار علی بھٹو بہت جلدی میں ہے۔‘‘ کچھ ایسا ہی ہوا۔

1950میں سیاست میں قدم رکھا اور 1970 میں پھانسی پر چڑھ گیا۔ پیشہ کے لحاظ سے بھٹو وکیل تھے، نئی نئی پریکٹس شروع کی تو ان کے سینئر نے کہا ’’ایک ضمانت کا مقدمہ ہے،مگر کیس مشکل ہے، بس جا کر تاریخ لے آؤ ‘‘اور واپس لوٹے تو استاد نے پوچھا ’’کیا ہوا‘‘ تو جواب دیا ’’ضمانت ہو گئی۔‘‘ وہ بھی حیران رہ گئے اور کہا ’’تم بہت آگے جاؤ گے۔‘‘

ایوب خان کو اس نے پہلی ملاقات میں متاثر کیا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بھٹو کے لیے بھی ایک NRO لینے کی کوشش ہوئی جس کا ذکر ایک بار سابق نگراں وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی مرحوم نے ایک انٹرویو میں کیا ۔ اس کتاب میں 150 کے قریب آرٹیکل شایع کیے گئے ہیں جن میں سے کچھ کالم ہیں اور ہر آرٹیکل اور کالم میں ایک نئی خبر موجود ہے۔

کتاب کے مطالعہ کے دوران کئی آرٹیکل میں خبر فوراً نظر آجاتی ہے اور بعض میں خبریں بین السطور ملتی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ اور سیاست کے طلبہ کے لیے یہ ایک بیش قیمت تحفہ ہے۔ بہرحال پیپلز پارٹی کے لندن میں مقیم رہنما اکرم قائم خانی کی کوششوں سے اور بدلتی دنیا کے حسن جاوید کی جستجو سے ایک اچھی کتاب شایع ہوگئی ہے۔

https://www.express.pk/story/2602926/268/
===============