چاچا اختر خان چانڈیہ کی یاد میں ایک تحریر

ون پوائنٹ
نوید نقوی
سال نو کے شروع ہوتے ہی کئی نابغہ روزگار شخصیات داغ مفارقت دے گئیں ان کی جدائی نے جو خلا پیدا کیا ہے اس کا بھرنا فی الحال تو بے حد مشکل نظر آتا ہے۔ چاچا اختر خان چانڈیہ بھی 7 جنوری کو بظاہر چند دنوں کی علالت کے بعد ہی رخصت ہوگئے، ان کی عظمت کے گن ہر وہ شخص گاتا ہے جس کا کسی بھی طرح ان سے واسطہ رہا ہے۔
یہ دنیا ایک سرائے ہے جس میں کہ لوگ آتے ہیں کچھ دیر کیلئے ٹھہرتے ہیں اور پھر اپنی منزل کو رواں ہو جاتے ہیں ۔ کہیں ایک باپ اپنے جواں سالہ لخت جگر کی جدائی میں ماتم کر رہا ہے اور کہیں پر ایک بیٹا اپنے شفیق باپ کی جدائی پر اشکوں کی سوغات لٹا رہا ہے۔ ایک طرف ماں اپنے نورِنظر کے فراق میں بین کر رہی ہے تو دوسری طرف ایک بچہ اپنی ہردلعزیز ماں سے دوری میں آہیں بلند کر رہا ہے۔ کوئی اپنے محبوب کے فراق میں گریباں چاک کیے پھرتا ہے۔ شاید کہ یہی زندگی ہے جو گزر رہی ہے۔ اس دنیا میں ہر کوئی اپنا ایک خاص وقت لے کر آتا ہے اور مقررہ وقت کے اندر ہی اپنے مالک کے حضور پیش ہوجاتا ہے۔ میرے دوست خان محمد چانڈیہ کے والد محترم جو پیار اور محبت کی مجسم تصویر تھے، آج سے دو دن قبل اپنے بیٹوں خان محمد اور عمران خان کو تنہا چھوڑ کر موت کے سنسنان ویرانے میں جا بسے ہیں۔ وہ ایک ایسی روحانی شخصیت تھے موت سے چند لمحے قبل بھی اپنے بیٹے کو وصیت کرتے رہے کہ مہمان نوازی کرنا ، میرے دوستوں کی قدر کرنا ، سادات عظام کا احترام سب سے بڑھ کر کرنا اور ہمیشہ انصاف اور مہربانی سے پیش آنا۔ یہ دنیا فانی ہے، خان محمد ہمیشہ سادات کی عزت کرنا اور سید کو کبھی بھی خالی یا انکار نہ کرنا۔ میں آل محمد علیہم السلام پر قربان اور میری اولاد بھی قربان۔یہ الفاظ تھے چاچا اختر خان چانڈیہ کے، جو اپنے بڑے بیٹے خان محمد کو بول رہے تھے۔ بیماری کی شدت کی وجہ سے وہ عام طور پر ڈیرے پر آنے والے مہمانوں کو ملنے سے اجتناب کرتے تھے لیکن جب یہ سنتے تھے کہ نوید نقوی آیا ہوا ہے تو خان کے منع کرنے کے باوجود وہ باہر آتے تھے اور رات گئے تک ہمارے ساتھ مختلف موضوعات پر باتیں کرتے رہتے تھے۔ وہ علاقائی سیاست کے ماہر تھے اور مجھ سے بار بار یہ پوچھتے تھے کہ اس بار الیکشن کون جیتے گا؟ میرے کسی بھی جواب پر وہ خود مدلل اور تفصیلی گفتگو فرماتے اور میں حیران ہوں کہ کافی عرصے سے سیاسی اور بڑے لوگوں سے ملنے سے اجتناب کے باوجود ان کو نہ صرف مکمل معلومات ہوتی تھیں بلکہ ان کا تجزیہ سو فیصد درست ہوتا تھا۔ ڈاکٹروں نے ان کو مرچیں اور نمک کھانے سے سختی سے منع کر دیا تھا پر وہ یہ دونوں چیزیں شوق سے کھاتے تھے۔ تمام تر کمزوری اور بیماری کی شدت ہونے کے باوجود وہ نہ صرف نماز پنج وقتہ پڑھتے تھے بلکہ جمعہ نماز بھی کافی فاصلہ طے کرکے پڑھنے جاتے تھے۔ ان کی ایک خوبی جو میں سمجھتا ہوں ہر خوبی سے بڑھ کر تھی یہ کہ اردگرد کی مساجد کو بلا تفریق مالی امداد کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی اولاد کو یہ نصیحت کی ہوئی تھی کہ ان کے گھر اور ڈیرے سے کوئی مہمان یا سوالی خالی نہیں جانا چاہیئے تھا۔ مہمان نوازی ان کی پہچان تھی۔ چاچا اختر خان ایک ایسی عظیم شخصیت تھے جن کا کردار آج کے اس نفسانفسی کے دور میں بھی ایک روشن مثال تھا ان کا باطن ان کے ظاہر سے کہیں زیادہ پاکیزہ اور اجلا تھا۔ اس پر آشوب دور میں رہتے ہوئے اور انسانوں کی اس مطلب پرستی کی بستی میں بستے ہوئے ان کا کردار ایک روشن دلیل تھی۔ انہوں نے انتہائی نامسائد حالات میں محنت و مشقت سے کام کیا اور رب العزت نے انہیں انکی محنت کا صلہ بھی دیا۔ وہ کوئی جاگیردار یا سرمایہ دار نہ تھے لیکن قدرت نے جو کچھ انہیں عطا فرمایا تھا اس میں انہوں نے اپنوں کے حقوق ادا کئے اوریتیموں، مسکینوں کی بھی سرپرستی کی۔ ان کی باتیں، خاصیتیں ان صفحات پر لکھنے بیٹھوں تو شاید کتاب کی ضرورت پڑ جائے۔ اچھے لوگ ہمیشہ یادوں میں رہتے ہیں اور ان کی یادیں ہمیشہ دلوں میں زندہ رہیں گی۔ یہ حقیقت ہے کہ موسموں کی آندھیاں چلتی ہیں تو کئی چراغ گل ہو جاتے ہیں لیکن ان کے گل ہو جانے پر بھی ان کی یادوں کے چراغ روشن رہتے ہیں۔ جانے والی ہستی اس جہاں سے چلی جاتی ہے لیکن اپنے پیچھے محبتوں اور اپنائیتوں کا وہ بیش قیمت سرمایہ چھوڑ جاتی ہے کہ انہیں اگر فراموش کوئی کرنا بھی چاہے تو فراموش نہیں کر سکتا۔ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا تھا اور میں کئی بار سوچتا تھا کہ لوگ مرنے والے پر آخر اتنا کیوں روتے ہیں؟ کسی کے چلے جانے پر عمر بھر کا روگ اپنی جان کو کیوں لگا لیتے ہیں؟ اشکوں کی برستی ہوئی برسات مرنے والے پر کیوں کی جاتی ہے؟ لیکن میں چاچے اختر خان کی وفات پر یہ سمجھ پایا کہ جانے والا جاتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اپنا جسم اور روح لیکر رخصت ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے ساتھ محبت، قربت، اپنائیت، شفقت اور وابستگی کے سینکڑوں جذبے بھی لے جاتا ہے اسی لئے شاید لوگ روتے ہیں۔ ہاں پر اپنی یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ چاچا اختر خان چانڈیہ اپنی پوری برادری کے لیے ایک شفیق اور مہربان بزرگ کی حیثیت رکھتے تھے۔ برادری میں کسی بھی اختلاف کو وہ فوری ختم کروانے کے لیے نہ صرف اپنا وقت خرچ کرتے تھے بلکہ فریقین میں اصلاح کی خاطر اپنی جیب سے پیسے بھی دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔ خان محمد کہتے ہیں میرے والد کا معمول تھا نماز صبح کے بعد تلاوت قرآن پاک لازمی کرتے تھے۔ ان کی زندگی کے کتنے ہی ایسے روشن پہلو ہیں کہ جن کا ذکر کیا جائے تو تشنگی پھر بھی باقی رہ جاتی ہے۔ قارئین یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ دنیاوی وقت گزررہا ہے، گزرتا رہے گا لیکن چاچے اختر خان چانڈیہ کی یادیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کے کام ہمیشہ ان کی یاد کو تازہ کرتے رہیں گے۔ اہل علاقہ جب بھی ان کی ضرورت محسوس کریں گے وہ ان کو اپنے سامنے ان کے فرمانبردار فرزند کی صورت میں پائیں گے۔ ان کی وفات پر میں نے کئی بزرگوں کی آنکھوں میں اشک دیکھے، کیا جوان، کیا بزرگ ہر طبقہ فکر کے لوگ ان کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ وہ شجر سایہ دار تھے جن کی چھاؤں میں اپنے پرائے ستاتے تھے۔ موت برحق ہے، ہر کسی کو اس دنیاوی میلے کو خیرباد کہنا ہے اور اپنے اعمال کے ساتھ اللہ پاک کے روبرو حاضر ہونا ہے۔ اچھا انسان وہی ہے جو اپنی ذات سے اپنے عمل سے کسی کو ہرگز ہرگز نقصان نہیں پہنچاتا ہے بلکہ فائدہ پہنچاتا ہے۔ پر حقیقت یہ ہے کہ اس اصول سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے کہ تحقیق ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC