نئے وائر س کی بازگشت اور اس کی حقیقت

اعتصام الحق ثاقب
============


2019 سے پہلے بھی ان ممالک میں جہاں سردیوں میں ددرجہ حرارت معمول سے کم ہو جاتا ہے کھانسی ،نزلہ زکام جیسی بیماریاں عام تھیں لیکن کیوں کہ اس وقت دنیا کورونا کے بارے میں نہیں جانتی تھی اس لئے لوگوں میں پھیلنے والی ان عام بیماریوں کو “عام بیماری” ہی سمجھا جا تا تھا۔2019 میں کورونا وبا کے دنیا میں پھیلنے کے بعد 2022 تک دنیا میں کسی نہ کسی انداز میں لوگوں کے میل جول اور روز مرہ معاملات میں پابندیاں اور احتیاطیں اختیار رکھی گئیں لیکن 2022 کے سرد موسم میں پاندیوں کے نرم ہونے کے بعد دنیا نے کورونا کے بعد انفلوئنزا کی نئی شکل کو جانا۔ کسی بھی نئی پھیلنے والی بیماری کے بعد یہ بحث اب عام رہتی ہے کہ کیا یہ کورونا وبا کا کوئی نیا ویرینٹ ہے ؟قیاس آرائیاں بڑھتی رہتی ہیں اور جب تک یہ پنپتی ہیں تب تک بیماری ہی ختم ہوجاتی ہے۔یہ سب میں کسی قیاس یا مبالغے کی وجہ سے نہیں بلکہ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہ رہا ہوں۔گزشتہ سال دسمبر اور جنوری میں انفلوئنزا کے کافی کیسز سامنے آئے تھے اور یہاں تک کہ حکومت نے عام حالات سے برھ کر اس سے نمٹنے کے اقدامات کئے ۔ گزشتہ موسم سرما میں، 2022 میں، امریکہ میں بچوں کے اسپتال کووڈ-19، فلو، آر ایس وی اور دیگر عام وائرس سے بیمار بچوں سے بھر گئے تھے۔ اس بیماری کا زیادہ تر سبب کووڈ 19 کو کم کرنے کے اقدامات کے خاتمے کو قرار دیا گیا تھا۔تب بھی دنیا میں یہ باتیں کی گئیں کہ کوئی نیا ویرینٹ سامنے آ گیا ہے اور خدا نہ خواستہ دنیا دوبارہ لاک ڈاؤن کی جانب جا رہی ہے ۔اس سال بھی ایسا ہی ہوا۔
چین کے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ چین میں سانس کی بیماریوں میں حالیہ اضافہ نوول کورونا وائرس کی تبدیلیوں یا وائرس کی وجہ سے مدافعتی کمی سے نہیں ہوا ۔یہ ریمارکس ملک کی صحت عامہ کی برادری کی جانب سے سانس کے انفیکشن میں اضافے پر بڑھتی ہوئی عوامی تشویش کو دور کرنے کی کوششوں کا حصہ تھے کیونکہ شمالی چین میں درجہ حرارت میں کمی اور سردی نے پہلے زیادہ تر بچوں کو متاثر کیا تھا لیکن گزشتہ ہفتوں میں یہ بیماری بالغوں میں پھیل گئی ۔ماہرین نے بتایا کہ مائکوپلازما نمونیا – ایک پیتھوجین ہے جو حال ہی میں بہت سے انفیکشنز کی وجہ ہے اور یہ نوول کورونا وائرس سے بالکل مختلف ہے جو کوویڈ 19 کا سبب بنتا ہے۔ماہرین کا یہ بیان سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے بے بنیاد نظریات کے خلاف سامنے آیا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مائکوپلازما نمونیا کووڈ 19 کا ایک تازہ ترین ورژن ہے کیونکہ دونوں بیماریوں میں گلے میں خراش، کھانسی، تیز بخار اور جسم میں درد جیسی علامات پائی جاتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مائکوپلازما 1900 کی دہائی کے اوائل نوول کورونا وائرس سے بہت پہلے دریافت ہوا تھا۔اس بار اس مائکوپلازما کی وبا نے زیادہ تر بچوں کو متاثر کیا کیونکہ ان کی قوت مدافعت بالغوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہے۔کچھ ہفتوں پہلے چینی حکام نے عالمی ادارہ صحت کی درخواست پر عالمی ادارہ صحت کے ساتھ اس اضافے کے بارے میں اعداد و شمار شیئر کیے تھے۔
ڈبلیو ایچ او کے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کوئی نامعلوم جراثیم نہیں ،جیسا کہ لوگوں کو ڈر تھا بلکہ وبائی امراض کی وجہ سے پیدا ہونے والا قوت مدافعت کا فرق ہے جو گروپوں کو بڑھا وا دے رہا ہے۔چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن نے بھی اعلان کیا کہ رواں موسم سرما میں نئے وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے ہونے والی کسی نئی متعدی بیماری کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے اور ملک میں اس وقت جو شدید سانس کی بیماریاں رپورٹ ہو رہی ہیں وہ سب معلوم وائرس پیتھوجینز کی وجہ سے ہوئی ہیں۔چینی صحت کے حکام موسم سرما میں سانس کی ان بیماریوں کی فعال طور پر نگرانی اور تشخیص کر رہے ہیں ، طبی وسائل کی تقسیم کو بہتر بنانے ، طبی علاج کے عمل کو بہتر بنانے اور علاج میں روایتی چینی ادویات (ٹی سی ایم) کے کردار کو بڑھانے کے لئے بھی کوششیں جاری ہیں جس میں بزرگوں اور بچوں کے لیے جلد ویکسینیشن پر توجہ دی جا رہی ہے تاکہ بیماری کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔موجودہ وائرس اور ویکسین کی مطابقت کے بارے میں حکام ی جان سے کہا جا رہا ہے کہ اس موسم سرما میں چین میں غالب یہ وائرس ، انفلوئنزا وائرس کی ذیلی اقسام انفلوئنزا اے (ایچ 3 این 2) اور انفلوئنزا بی ہیں ، جو پچھلے سال سے تبدیل نہیں ہوئی ہیں ، اور وہ دنیا بھر کے بیشتر خطوں میں گردش کرنے والی غالب اقسام سے بھی مطابقت رکھتی ہیں۔
اس حوالے سے امریکی خبر رساں ادارے سی این این نے اپنی ویب سائیٹ پر ایک مفصل مضمون میں ایک ماہر ڈاکٹر سے انٹرویو کی تفصیلات شائع کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک، ڈبلیو ایچ او سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر نہیں لگتا کہ سانس کی بیماریوں میں اضافہ عالمی تشویش کا سبب بننا چاہئے.
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے چینی صحت کے حکام سے اضافی معلومات کی درخواست کے بعد ایسے اعداد و شمار موصول ہوئے جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہسپتالوں میں مریضوں کے اضافے کی وجہ معلوم ہے موجودہ جراثیم ہی ہے ۔ خاص طور پر، مئی سے بیکٹیریا مائیکوپلازما نمونیا کی وجہ سے نمونیا میں اضافہ ہوا ہے، اور اکتوبر سے انفلوئنزا، ایڈینو وائرس اور سانس کی سنسیٹیئل وائرس (آر ایس وی) میں اضافہ ہوا ہے. ڈبلیو ایچ او کے مطابق کووڈ 19 کی پابندیوں کے خاتمے کے پیش نظر یہ اضافہ غیر متوقع نہیں ہے جیسا کہ دیگر ممالک میں دیکھا گیا ہے۔ویب سائیٹ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ کسی نئے جراثیم کا پتہ نہیں چلا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی غیر معمولی کلینیکل پریزنٹیشن بھی نہیں ہوئی ہے۔

===========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC