مشرق وسطیٰ کا سپر پاور ایران جس کے باشندوں نے پابندیوں میں جینا سیکھ لیا ہے


رب کا جہاں
نوید نقوی
===========


صاحب صاحبہ رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم و ادب کی طاقت سے منور ہو جائے گا۔ انہی صفحات پر اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں آپ تفصیل سے پڑھ چکے ہیں لیکن میرے اندر مولا امام رضا علیہ السلام کے روضے کی زیارت کرنے کے لیے پچھلے دو دن سے شدید تڑپ پیدا ہو رہی ہے اس لیے آئیے ایک بار پھر رکشے کا رخ ہمسایہ برادر اسلامی ملک ایران کی جانب کرتے ہیں۔ ایران کی مکمل سیر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے موجودہ مقام کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کو بلندیوں تک لے جانے میں ایرانی عوام کے عزم صمیم اور اپنی سرزمین سے محبت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر دیکھا جائے یوں تو پوری دنیا خوبصورت اور دلفریب ہونے کی وجہ سے خدا کی عظمت کی گواہی دیتی ہے لیکن خدا نے اس دنیا میں کچھ ایسے خطے بھی بنائے ہیں جہاں کی سرزمینوں کی خوبصورتی کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ ان سرزمینوں میں انسان کھو جانے کے ساتھ ساتھ ان کی دلکشی میں سحر زدہ سا رہ جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے جنت یہاں بنا دی ہو۔ انسانی عقل محدود ہے اور اس کائنات کی وسعتوں کا یقیناً اعادہ نہیں کر سکتی۔ وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کو خدا کی زمین دیکھنے کی فرصت حاصل ہے۔ آج یہاں میں ایک حقیقت بیان کرنا چاہتا ہوں قارئین، رب کا جہاں ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر میں خود بھی دنیا کے مختلف خطوں کی سیر کرتا ہوں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ وطن عزیز پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ خوبصورت ملک ہے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے ایک لمبی زندگی اور پیسہ چاہیئے۔ پاکستان دنیا کے ان چند خوش نصیب ممالک میں شامل ہے جہاں ہر قسم کا موسم اور سطح مرتفع موجود ہے۔ یہاں دنیا کا خوبصورت ترین اور اونچا پہاڑی سلسلہ ہمالیہ بھی ہے اور دنیا کا خطرناک پہاڑی سلسلہ ہندوکش بھی موجود ہے۔ اس سرزمین پر خوبصورت وادیاں ہیں تو دوسری طرف دلکش ساحلی پٹی بھی ہے۔ جہاں مینگروز کے جنگلات انسان کو سحر زدہ کر دیتے ہیں۔ تھر ، روہی، تھل اور چولستان نام کے میلوں لمبے صحرا بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ اگر حکومتیں توجہ دیں تو یہ بھی ایک بڑا سیاحتی حب بن سکتا ہے۔ لیکن افسوس 2023 کے آخر تک بھی پاکستان میں ٹورازم ڈویلپمنٹ نہیں ہوئی جبکہ ہمارے پڑوس میں ایران، چین اور انڈیا اس میدان میں اربوں ڈالرز کما رہے ہیں۔ اور تو اور سری لنکا اور مالدیپ ہم سے کئی گنا چھوٹا سے جزیروں پر مشتمل ملک ہیں وہ بھی کروڑوں، اربوں ڈالرز ٹورازم انڈسٹری سے کما رہا ہے۔ پاکستان کے تمام پڑوسی ممالک اپنی اپنی جگہ ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں اور سیاحت کے حوالے سے دنیا بھر میں اپنا ایک خاص مقام بنا چکے ہیں۔ ان میں پاکستان کا پڑوسی برادر اسلامی ملک ایران بھی شامل ہے۔ ایران خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ایران کی سرحدیں شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان، جبکہ مشرق میں پاکستان اور افغانستان، مغرب میں ترکی اور عراق سے ملتی ہیں۔ مزید برآں اس کے ساتھ کیسپیئن سی، خلیج فارس اور خلیج عمان بھی واقع ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو رقبہ کے اعتبار سے دنیا میں 17ویں نمبر پر شمار کیا جاتا ہے جس کا کل رقبہ 1648000 مربع کلومیٹر ہے۔ ایران دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ آج اس ملک کی کل آبادی 9 کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ سرکاری زبان فارسی ہے۔ ملک کی 90 فیصد سے زائد آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ایرانی تاریخ چار ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے، یہاں کئی خاندانوں نے حکومتیں کیں مگر سائرس اعظم نے 600 سال قبل مسیح ایک چھوٹی سی بادشاہت کو سپر پاور میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد اس سلطنت پر کئی خاندانوں نے حکومت کی۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایران کا قدیم ترین مذہب زر تشت تھا، ساسانی حکمران آتش پرست ہی تو تھے۔ اسلامی دور حکومت میں موجودہ ایران کو ایک طاقتور سلطنت بنانے میں شاہ اسماعیل صفوی، شاہ عباس صفوی اور نادر شاہ درانی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ برصغیر میں انگریزوں کے قبضے سے پہلے یہاں کی سرکاری زبان فارسی تھی، آج بھی ایران سمیت وسطی ایشیا کے کئی ملکوں میں فارسی زبان رائج ہے۔ موجودہ ایران 31صوبوں پر مشتمل ہے۔ 1950 تک ایران کے 12صوبے تھے، پھر 1950 میں ان صوبوں کو دس ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا، 1960 سے لیکر 1981 تک کئی ریاستوں کو صوبوں کا درجہ دیا گیا اور ساتھ نئے صوبے بھی بنائے گئے، آخری مرتبہ صوبوں میں اضافہ 2004 میں ہوا جب خراسان کو تقسیم کر کے تین نئے صوبے بنائے گئے، ایران کے 31 صوبوں میں البرز، اردبیل، آذربائیجان شرقی، آذربائیجان غربی، بو شہر، چہار محال و بختیاری، فارس، گیلان، گلستان، ہمدان، ہرمزگان، ایلام، اصفہان، کرمان، کرمان شاہ، خراسان شمالی، خراسان رضوی، خراسان جنوبی، خوزستان، کہگیلویہ و بویر احمد، کردستان، لرستان، مرکزی، مازندران، قزوین، قم، سمنان، سیستان و بلوچستان، تہران، یزد اور زنجان شامل ہیں۔ اگرچہ ایران بہت قدیم ملک ہے مگر اس نے منصوبہ بندی سے اپنی آبادی کو اپنے وسائل کے لحاظ سے کنٹرول کر رکھا ہے۔ لہٰذا آج بھی ایران کے وسائل آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ہیں۔ تمام تر امریکی و اتحادیوں کی پابندیوں کے باوجود ایرانی عوام پاکستان اور بھارت کی عوام کی نسبت کافی خوشحال ہیں۔ ایرانی لوگ نفاست پسند ہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایران کی زیادہ تر آبادی شہروں پر مشتمل ہے، تقریباً 75 فیصد آبادی شہروں میں جبکہ وسیع و عریض ایران میں دیہی آبادی صرف 25 فیصد ہے۔ ایران کا دارالحکومت تہران ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، تہران کا شمار دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ ایران کی 11 فیصد آبادی اسی شہر یعنی دارالحکومت میں رہتی ہے، مشہد مقدس جہاں امام رضا علیہ السلام کا روضہ مبارک ہے، ایران کا دوسرا بڑا شہر ہے، یہ صوبہ خراسان رضوی کا دارالحکومت ہے، ہر سال قریباً دو کروڑ سے زائد زائرین امام رضا علیہ السلام کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ ایران کا تیسرا بڑا شہر اصفہان ہے، یہ تاریخی اور صنعتی شہر ہے۔ یوں تو اصفہان ہخامنشی اور ساسانی دور میں بھی خاص اہمیت کا حامل شہر تھا مگر اصفہان نصف جہان اسے شاہ عباس صفوی اول نے بنایا۔ آپ ذرا دیر کے لیے سوچیں کہ سترہویں صدی عیسوی میں ہیں اور پھر نقش جہاں، سیوسہ پل، پل خاجو، چہل ستون، مسجد جامعہ، علی قاپو محل، بازار قدیم، آرمینیائی چرچ، یہودیوں کے مقدس گنبد، قدیم آتش پرستوں کے آتش کدے، مینار جنبان کا عجوبہ آپ کو سحر زدہ کرنے کے لیے کافی ہوں گے۔
اصفہان شہر وسطی صوبہ اصفہان کا صدر مقام ہے۔ یہ دریائے زائیندرو اور کوہ زاگرس کے سلسلہ میں کوہ صفہ کے ساتھ واقع ہے۔ یہاں جولائی میں موسم پورے سال کی نسبت گرم ہوتا ہے مگر اپنے ہاں کے مارچ اپریل جیسی گرمی ہوتی یے۔
کہتے ہیں اصفہان کو نصف جہاں ایک شیعہ فقیہ شیخ بہاالدین محمد بن حسین عاملی کی محنتوں نے بنایا۔ یہ عجیب شخصیت گذرے ہیں جو ایک ہی وقت میں فقہ، تفسیر، حدیث، شاعری، ریاضی، آرکیٹکٹ، سول انجینیرنگ، ستارہ شناسی، تاریخ، طبیعات، حکمت، فلسفہ، عرفان اور منطق میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ اصفہان شہر میں ہوٹل سستے ہیں، ہر قسم کی ٹرانسپورٹ ملتی ہے۔ میٹرو چلتی ہے، انٹرنیشنل ائیرپورٹ بھی ہے۔ کشادہ گلیاں اور سڑکیں ہیں۔ ان پر گھنے درختوں نے سایہ کیا ہوتا ہے۔ پارک، شاپنگ مالز سمیت تاریخی مقامات اور قبرستانوں میں بھی اصفہانی لوگ چادریں بچھاۓ کھانا پکانے اور گپ شپ کرنے میں مشغول ہوتے ہیں۔ اصفہانی زندہ دل ہیں، سیر کرنا ان کا پسندیدہ کام ہے اس لیے پورے ایران میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اصفہان کی فارسی کو ایران میں اپنی مٹھاس کی وجہ سے وہی مقام حاصل ہے جو میری پیاری زبان سرائیکی کو پاکستان کی زبانوں میں ہے۔ اصفہانی جب بولتے ہیں تو شہد جیسی مٹھاس ٹپکتی ہے۔ ایران کے باقی بڑے شہروں میں کرج، شیراز، تبریز اور قم سمیت کئی اور دیگر شہر بھی ہیں۔ جن کا ذکر ایک کالم میں ممکن نہیں ہے۔ اگر آپ موجودہ ایران کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایران جدید ٹیکنالوجی اور آلات جراحی کے حوالے سے مغربی ترقی یافتہ ملکوں سے کہیں آگے ہے، اس میں ایرانیوں کی حکمت، منصوبہ بندی اور لگن کے علاوہ ایک قوم ہونے کا جذبہ بھی شامل ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے پوری قوم کو جوڑ رکھا ہے۔ انہوں نے انقلاب مخالف ہر سازش کو اپنی دانش اور حکمت سے ناکام کیا ہے۔ ایرانی لوگوں کے علاوہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ ان سے عقیدت رکھتے ہیں۔ ایران نے اپنے شہریوں کو دنیا کی تمام سہولیات دے رکھی ہیں۔ جرائم کی شرح صفر ہے، ہر طرف نفاست ہے، ایرانی محنتی اور صفائی پسند ہیں۔ یہی چیزیں ایران کو دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہیں۔ 1979 میں انقلاب ایران آیا۔ شاہ ایران کو امریکہ، مغرب اور اپنی فوج پر بڑا فخر تھا۔ اس نے فوج کے ذریعے انقلاب کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بے سود۔ اس نے فوج کے ذریعے ظلم وبربریت سے بھی گریز نہ کیا مگر ایرانی قوم کے بہادر نوجوانوں نے فوج کے سامنے سرنڈر کرنے سے انکار کردیا۔ ایرانی نوجوانوں کا جذبہ جیت گیا اور شاہ کی فوج ہار گئی، شاہ کے دور میں تہران میں وسیع و عریض امریکی سفارتخانہ تھا، دنیا بھر میں کسی بھی ملک میں سب سے بڑا امریکی سفارتخانہ ایشیا میں سی آئی اے کا ہیڈ کوارٹر تھا، پاسداران انقلاب نے سی آئی اے کے مرکز کا خاتمہ کیا اور بہت سے امریکی اہلکاروں کو یرغمال بھی بنا لیا۔ جواب میں امریکہ اور اس کے حواریوں نے ایران پر پابندیاں لگا دیں اور حملہ کرنے کی ناکام کوشش بھی کی، ایران پر پابندیاں لگانے والے امریکا کا خیال تھا کہ ایران میں اسلامی انقلاب پسپا ہو جائیگا کیونکہ ایران پابندیاں برداشت نہیں کر سکے گا، اس دوران اسے عراق کیساتھ جنگ میں بھاری نقصان بھی اٹھانا پڑیگا، آفرین ہے ایرانیوں پر کہ انہوں نے امریکی غرور کو اپنے قوت ایمانی اور ملی جذبے سے خاک میں ملا دیا۔ ایرانی عوام پر پابندیوں کو 4 دہائیاں ہو چکی ہیں مگر ایرانیوں نے پابندیوں میں جینا سیکھ لیا ہے، آج ایرانی دنیا کی ہر چیز تیار کر رہے ہیں اور حیرت ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں سے کہیں بہتر تیار کر رہے ہیں۔ ایران تیل اور گیس جیسی قدرتی دولت سے مالامال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر امریکی و مغربی پابندیوں کے باوجود ایرانی عوام خوشحال ہیں اور خوردونوش کی اشیاء پاکستان کی نسبت سستی ہیں۔ ایران چار موسموں کی نوعیت کا ملک ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ ایک ہی وقت میں ملک کے مختلف حصوں میں مختلف موسم اور موسمی حالات کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ سردیوں میں، آپ جنوبی ایران میں خلیج فارس کے ساحلوں کے ساتھ دھوپ کے موسم سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ کوہ البرز کی وادیوں میں آپ خوشگواری محسوس کر سکتے ہیں۔
ایران مشرق وسطیٰ میں ایک قدیم تاریخی ماضی کا حامل ملک ہے۔ ایران ایشیا، یورپ اور افریقہ کے درمیان ایک پل کے طور پر بھی ایک خاص جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے جزائر اپنی خوبصورتی اور کورل ریف کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ ایران کا پہلا سب سے بڑا ریزورٹ اور دوسرا سب سے اہم، جزیرہ قشم ہے۔ جزیرے کا مشرقی حصہ سیاحتی علاقے کے طور پر ترقی کر رہا ہے۔ آبنائے ہرمز کا تاریخی مرکز اور تزویراتی نقطہ یہاں واقع ہے۔ جزیرے کے اس حصے میں آپ کو 15ویں صدی میں تعمیر کیے گئے پرتگالی قلعے کے آثار بھی ملتے ہیں۔ ایران ایک سستا ملک ہے۔ ایران کے باشندے پاکستانیوں سے محبت کرتے ہیں اگر آپ کا ایران جانا ہو تو اس کے خوبصورت جزائر کا لازمی چکر لگائیں۔
=======================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC