بھوپال کے علمی و دینی گھرانے کے روشن چراغ مولانا جمیل الرحمن ندوی نہ رہے زندگی میں محنت اور مسلسل محنت کو اپنا شعار بنائے رکھا دوسروں کے کام آنا ان کی زندگی کا اولین مقصد تھا تعمیرات کے شعبے میں والد کی طرح کامیاب رہے

ڈاکٹر کلیم الرحمن ندوی

مولانا محمد سلمان صاحب ندوی کے صاحبزادگان میں جمیل الرحمن خان ندوی ساتویں نمبر پر تھے۔ آپ کی پیدائش 1958 میں ہوئی۔ مولانا سلمان خان صاحب کے دیگر صاحبزادوں کی طرح آپ نے بھی بچپن میں قرآن کریم حفظ کر لیا تھا۔ اس کے بعد دار العلوم تاج المساجد بھوپال میں انہوں نے جید اساتذہ کرام سے دینی اور عربی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد دار العلوم ندوة العلماءلکھنو سے عالمیت و فضیلت کی اسناد حاصل کیں۔ عجیب اتفاق تھا کہ راقم الحروف کلیم الرحمن ندوی اور جمیل الرحمن ندوی اور بڑے بھائی خلیل الرحمن ندوی دار العلوم تاج المساجد مسے لے کر دار العلوم ندوة العلماءتک ایک ہی درجہ میں تعلیم حاصل کرتے رہے، یہ دونوں بھائی مجھ سے بڑے تھے، درجات میں غیر حاضری یا تعلیم سے غفلت پر میری باز پرس کرتے رہتے تھے۔
مولانا جمیل الرحمن صاحب ندوی ندوہ سے فراغت کے بعد ایک عرصہ تک اپنے والد محترم کے زیر نگرانی تعمیر تاج المساجد میں مشغول رہے، دو تین سال کی خدمت میں ان کو بڑا تعمیری تجربہ ہوا، تعمیری ساز و سامان اور میٹیریل، مزدوروں، کاریگروں کا کام سمجھ میں آیا، پھر کچھ دنوں کے بعد خود اپنا ذاتی ٹھیکہ داری کا کام شروع کیا اور اس میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ تعمیر بھی اس طرح کراتے تھے کہ سامنے والا مطمئن ہو جاتا، معاش کے اس طریقہ سے خود کفیل ہو گئے تھے۔ سیٹنگ وغیرہ بھی کافی تیار کی جس سے بڑی بڑی تعمیرات اور بلڈنگیں بنانے میں مدد ملی۔ لوگوں کی دعائیں حاصل کیں۔ کم درجہ کی تعمیرات سے بھی غافل نہیں رہتے اگر کسی کے پاس پیسوں کی کمی ہوتی تو کام سے انکار نہیں کرتے۔ ادھر ادھر انتظام کر کے کام کو پورا کر دیتے۔ مولانا نعمت اللہ صاحب ندوی نے عارف نگر میں اپنا مکان تعمیر کرانا چاہا تو جمیل بھائی نے ان سے پوچھا کہ آپ کے پاس کتنے پیسے ہیں انہوں نے کہا کہ دس ہزار روپئے ہیں۔ جمیل بھائی ان کو لے کر عارف نگر چلے اور راستہ میں بڑے باغ قبرستان سے گزرے اور کہا کہ حضرت مولانا دس ہزار میں تو یہاں بھی مکان تعمیر نہیں ہوگا، بالآخر کام سے انکار نہیں کیا اور مولانا کا کام کرا کر ہی دم لیا۔
محترم جمیل بھائی اپنے طے شدہ یا مفوضہ کام کے دھنی تھے، اسی طرح مزاج میں ظرافت بھی تھی، اپنے معاصرین سے اور کبھی کبھی اپنے بڑوں سے بھی ہنسی مذاق کر لیا کرتے تھے لیکن اس حد تک کہ مذاق ناگواری، ناراضگی میں تبدیل نہ ہوتا تھا، جمیل بھائی خوش مزاج اور خوش دلی کی ہم سب بھائیوں میں ایک مثال تھے، موجودہ قاضی شہر مولانا سید مشتاق علی صاحب زمانہ طالب علمی میں ہمارے کلاس فیلو تھے، ایک مرتبہ مولانا سید مشتاق علی صاحب نے میرے بڑے بھائی مولانا سلیم الرحمن اور جمیل بھائی کو اپنے وطن پوا نالہ ( حلالی ڈیم) مچھلی کی دعوت پر مدعو کیا، راستہ میں اسکوٹر بہت گرم ہو گئی اور رک گئی، جمیل بھائی کو مذاق سوجھا، مولانا مشتاق صاحب سے کہا کہ جلدی اس کپی میں پانی لائیے، وہ بڑی محنت اور دور سے جلدی پانی لے کر آئے، سمجھے کہ گاڑی پر ڈالیں گے، جمیل بھائی اپنا چہرہ دھونے لگے اور ہاتھ پیر پر ڈالنے لگے، ادھر مولانا مشتاق صاحب ندوی بہت ہنسے کہ پانی کس مقصد سے منگوایا اور یہ کیا کرنے لگے، سب ہی نو عمر تھے اور عہدے ابھی دور تھے اس تفریح سے بھی سب نے ہی خو ب لطف اٹھایا، حقیقت یہ ہے کہ جمیل بھائی کی زندہ دلی سب کو پسند آتی اور کوئی ناراض نہیں ہوتا تھا۔ شادی بیاہ کا موقع ہو یا سیر و تفریح کا پروگرام آپ کی باتوں اور شرارتوں سے سب لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔
محترم جمیل بھائی تعلیم میں بھی بڑے محنتی اور خوش خط تھے تعلیمی زمانہ میں اور اس کے بعد بھی ان کی تحریر بڑے سلیقہ کی ہوتی تھی، گھر والے اور دیگر علماءاور اساتذہ ان سے بڑے خوش رہتے تھے۔ دارالعلوم ندوة العلما لکھنو کے اکابر بالخصوص حضرت مولانا ابوالحسن علی الحسنی ندوی مولانا رابع صاحب ندوی اور اپنے دیگر اساتذہ سے بڑا ربط و تعلق تھا۔ مذکورہ دونوں بزرگوں سے انہوں نے ندوہ میں پڑھا بھی تھا۔ مولانا جمیل صاحب کو تدریسی خدمت کا موقع نہیں ملا لیکن دینی مکاتب و مدارس سے بڑی محبت تھی۔ مساجد کی تعمیر و دینی ضروریات کی خبر رکھتے تھے۔ اگر ذمہ داران مساجد کے پاس بجٹ نہیں ہوتا تو بھی تعمیر کا کام کر دیتے۔ ایک مسجد کے لیے ایک لاکھ روپے کے قریب ضرورت تھی، مسجد کے ذمہ داران پریشان تھے جمیل بھائی سے کہا گیا، آپ نے چند گھنٹوں میں اس کا انتظام کر دیا، اور الحمد للہ وہ کام پورا ہو گیا۔ آپ کو بیرون ملک جانے کا بھی موقع ملا۔ ملازمت کے لیے جاپان گئے، وہاں کی کمپنیوں میں خدمت کرتے رہے، اسی دوران مولا نا سلیم الرحمن صاحب ندوی کے گاڑیوں کے ایکسپورٹ کے کام میں لگ گئے اور اپنی ذہانت و محنت سے کام کر ترقی دی اور اس کاروبار میں بڑے بھائی مولانا سلیم الرحمن صاحب کا کئی لوگوں پر قرض تھا، مروت اور نرم مزاجی کی وجہ سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ جمیل بھائی نے بڑی خوش اسلوبی اور فراست سے یہ قرض واپسی کی راہ ہموار کی، کئی سالوں تک جاپان میں رہنے کے بعد 1996 میں اپنے وطن بھارت آگئے، کچھ دن وطن میں اہل و عیال اور اہل خاندان کے ساتھ گزارے۔ یہاں حسب منشاءمعاشی مصروفیت نہ ہونے کی بناءپر بڑے بھائیوں کے مشورہ سے دبئی چلے گئے اور وہاں بھی محترم سلیم بھائی کے شوروم معرض السیارات میں اپنی خدمات پیش کیں۔ محنت اور لگن سے یہاں بھی تجارت کو ترقی دی اور اس کام کو فروغ دیا یہاں تک کہ ایک شوروم سے دو تین شوروم ہو گئے اور خاندان کے کافی لوگ وہاں جا کر آباد ہو گئے۔ جمیل بھائی کو نو جوان بے روزگاروں کو بھی بڑی فکر لگی رہتی تھی۔ جاپان اور دبئی میں کافی اپنے رشتہ داروں کو بلایا اور ان کو وہاں کام پر لگوایا۔ ان کے والدین کی دعائیں لیں، دبئی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تمام تجارتیں اور کام ختم سے ہونے لگے، پورا دبئی سرد تجارت سے دوچار تھا لیکن آپ مستقل مزاجی اور صبر سے ڈٹے رہے، کچھ محترم سلیم بھائی کے مقروض بھی ہو گئے تھے جس کے لیے وہ مستقل فکر مند نظر آتے تھے آخر کار ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس قرض کو دیانتداری سے ادا کر دیا وہ بظاہر معاملات کے بڑے صاف ستھرے تھے، بظاہر یہ باتیں بہت چھوٹی نظر آتی ہیں لیکن اس سے ان کی ایمانداری کا پتا چلتا ہے۔
آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی بہت سی خوبیاں یاد آتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے ہر دور میں جب کہ وہ معاشی اعتبار سے خوشحال تھے یا کمزور لیکن غریبوں، مسکینوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ خیرات، زکوٰة کے علاوہ محتاجوں کی خبر گیری کرتے تھے۔ بھوپال کے بہت سے علماء اور دین داروں کی انہوں نے بڑی خدمت کی۔ ان کی بیماری اور آزاری میں معاونت کی۔ نام و نمود اور شہرت کی ان کو ذرا بھی فکر نہ تھی۔ بس اللہ کی خوشنودی مقصد تھا۔ خود اپنے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ اپنے سسرال والوں کے ساتھ بھی تعلقات میں محبت، نصرت اور حمایت کا حد درجہ جذبہ تھا۔ محترم جمیل بھائی نے اپنی اولاد کی بھی تعلیم و تربیت بڑے اہتمام سے کی تھی، اپنے والد محترم کی طرح اپنے بچوں کو خود کفیل بنا دیا ہے۔ آپ کے تین صاحب زادے اور ایک صاحبزادی ہیں۔ سب ماشاءاللہ تعلیم یافتہ ہیں۔ آپ کی بڑی صاحبزادی سمیہ ڈاکٹر ہیں۔ اپنے شوہر کے ساتھ دبئی میں مقیم ہیں۔ میرے بھائی جمیل الرحمن خان ندوی ایک تندرست شخصیت کے مالک تھے۔ ابھی چار پانچ سال سے ان کو متعدد بیماریوں نے گھیر لیا تھا۔ شوگر اور دل کے عوارض لاحق ہو گئے تھے، گردے بھی متاثر تھے۔ یہ سب برداشت کرتے رہے، بالآخر 3 اکتوبر 2023 کی رات کو ایک بجے انہوں نے دنیا فانی کو الوداع کہہ دیا۔ احاطہ قلندر شاہ میں ان کی نماز جنازہ بڑے بھائی مولا نا رئیس الرحمن صاحب ندوی نے ادا کر و ائی۔ رشتہ داروں کے علاوہ علماء اور دین داروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بڑے باغ میں اپنے والد محترم مولانا محمد سلمان صاحب ندوی کے قریب سپرد خاک کیے گئے۔
آسمان ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
===============================

Jameel ur rehman marhoom

==================================

DR.Kaleem ur Rahman

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC