سپریم کورٹ سیاسی مقدمات کے بجائے عام کیسز کی ترجیحی بنیاد پر سماعت کرے گا نئے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کا خوش کن اعلان اب بینک پنشنرز کے کیسز بھی جلدی نمٹائے جانے کی امید ہے بینک انتظامیہ کو تاخیری حربوں سے توبہ کر لینی چاہیے کتنے بینک پنشنرز اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں

مسرور احمد مسرور

کئی چیف جسٹس صاحبان آئے اور چلے گئے بڑے بڑے فیصلے بھی صادر فرما گئے لیکن الائیڈ بینک کے 22 پنشنرز کا ان کے حق میں عدالتی فیصلہ کہ ریٹائرڈ ملازمین کو ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے ان کی پینشن اور دیگر حساب کتاب کی ادائیگی کی جائے یا کم سے کم 8 ہزار روپے پنشن دیے جانے کا فیصلہ سب وہیں کے وہیں کھڑے ہیں اور انصاف کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔ 22 مظلوم پنشنرز کی دکھ بھری داستان کا آغاز ہوئے ایک دہائی سے زیادہ وقت گزر چُکا ان کے حق میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ کو اپنی مہر ثبت کیے ہوئے بھی تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے پنشنروں کی یہ غم بھری کہانی چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے دور میں شروع ہوئی پھر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ، چیف جسٹس گلزار احمد، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سماعتوں سے گزر کر اب نئے چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کی سماعت کے لیے ضرور پیش ہوگی اور شاید اپنے اختتام کو پہنچ جائے۔ ویسے تو تمام چیف جسٹس صاحبان ہی نہایت اصول پسند تھے لیکن موجودہ چیف جسٹس کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ بہت اصول پسند اور دبنگ شخصیت کے مالک ہیں ان کا اپنا باوقار عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ بیان کہ سپریم کورٹ سیاسی مقدمات کے بجائے عام کیسز کی ترجیحی بنیاد پر سماعت کرے گا عام سائلین کے لیے بہت ہی امید افزا اور خوش کن سمجھا جا رہا ہے۔ اسی طرح انھوں نے فوری طور پر زیر التوا مقدمات کے حوالے سے اجلاس بھی طلب کر لیا جس کے بعد یہ بات یقینی ہے کہ بینک پنشنرز کے معاملات کو بھی ترجیحی بنیاد پر دیکھنے کی اُمید ہو چلی ہے اب ہمارے ایڈووکیٹ صاحبان کو بھی ایکٹیو رول ادا کرتے ہوئے معاملات کو نئے چیف جسٹس کے علم میں لانا ہوں گے کہ کس طرح بینک کی جانب سے تاخیری ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ درحقیقت 22 پنشنرز کا کیس فیصلے کی حد تک اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا اب صرف اس فیصلے پر عمل درآمد کا معاملہ ہے جسے مخالف فریق اپنی دولت کی طاقت استعمال کرتے ہوئے گزشتہ تین سال سے مختلف تاخیری حربوں کے باعث اپنے انجام کو پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے وہ غاصب ہے، ظالم ہے اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرتے ہوئے عدالتی مجرم بھی۔ وہ نہ اللہ سے ڈرتا ہے نہ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے ٹوپک زما قانون کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
یہ 22 الائیڈ بینک پنشنرز کا معاملہ بینک کے دوسرے ہزاروں پنشنرز کی زندگیوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ عدالتی فیصلوں کی بے توقیری کا جرم کوئی معمولی بات نہیں، عدالت کی طرف سے بینک انتظامیہ کے خلاف سخت سے سخت قدم اٹھانا چاہیے کتنے بینک پنشنرز اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں لیکن بینک اربوں کے پنشن فنڈز پر سانپ بن کر بیٹھا ہے اس نے اپنے اپیل کرنے کے حق کو ایک بار نہیں بلکہ درجنوں بار استعمال کیا لیکن اس کی ایک اپیل کو قابل قبول نہیں سمجھا گیا، اس نے درجنوں مرتبہ عدالتی سماعتوں کو آگے لے جانے کے لیے حیلے بہانوں کا سہارا لیا اور اپنی دولت کے بل بو تے پرو قتی طور پر اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا رہا ہے لیکن کب تک؟ کیوں کہ سو دن چور کے ایک دن سادھ کا، وہ حق پر نہیں ہے، وہ غاصب ہے، اسے اس کے کیے کی سزا آج نہیں تو کل ضرور ملے گی اور وہ نہایت عبرت ناک ہوگی۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ وہ عدالتی فیصلے کا احترام کرے اور بینک کے پنشنروں کو ان کا حق ادا کرے ورنہ ساری زندگی مظلوم پنشنرز کی بد دعائیں انہیں جینے نہ دیں گی اور کہیں کا نہ چھو ڑیں گی۔
نئے محترم چیف جسٹس صاحب بینک کے پنشنروں کے حق میں اعلیٰ عدالتی فیصلے پر عمل کروا کر ان کی زندگیوں پر احسان عظیم فرمائیں۔ یہ ہر طرح سے عام آدمیوں کا فیصلہ ہے اور گزشتہ تین سال سے زیر التوا ہے اور التوا کی کوئی معقول وجہ بہ ظاہر دکھائی نہیں دیتی، سوائے بوڑھے پنشنروں کی زندگیوں سے کھیلا جائے۔ چیف جسٹس صاحب الائیڈ بینک کے 22 پنشنرز کے فیصلے کو 22 لوگوں تک محدود نہ سمجھیں بلکہ اس فیصلے سے ہزاروں دوسرے پنشنروں کی زندگیوں کا معاملہ بھی جڑا ہوا ہے۔
=========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC