آنکھ کا کینسر دو قسم کا ہوتا ہے ایک بڑوں میں دوسرا بچوں میں ،تاہم بڑےافراد میں یہ کینسر کی شرح بہت کم ہوتی ہے اور بچوں میں آنکھ کا کینسر زیادہ ہوتا ہے


لاہور( مدثر قدیر )پرنسپل کالج آف افتھمالوجی اینڈالائیڈہیلتھ سائنسزپروفیسر ڈاکٹر محمد معین نے کہا کہ آنکھ کا کینسر دو قسم کا ہوتا ہے ایک بڑوں میں دوسرا بچوں میں ،تاہم بڑےافراد میں یہ کینسر کی شرح بہت کم ہوتی ہے اور بچوں میں آنکھ کا کینسر زیادہ ہوتا ہے ۔اس کینسر کی تشخیص اگر شروع میں ہو جائے جب یہ 2سے 3ملی میٹر تک ہو تو اسکو کیمو تھراپی اور لیز لگا کر روکا جا سکتا ہے,ان کا کہنا تھاآنکھوں کی بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے تین سٹیج پر چیک اپ لازمی کروانا چاہیے ۔بچوں میں 5اور 12سال کی عمر میں جبکہ بڑوں کو سال میں ایک بار لازمی چیک اپ کروانا چاہیے تاکہ بروقت تشخیص کے بعد علاج کیا جا سکے ۔پروفیسر معین نے بتایا کہ دو فیصد لوگ عمر جبکہ باقی شوگر کی وجہ سے آنکھوں کی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔نمائندہ اومیگا نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا
آشوب چشم کافی حد تک کنٹرول ہوچکا ہے, اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ,ڈاکٹر سے رجوع کرکے احتیاطی تدابیر کووقت پر اپنا لینا چاہیے ،آشوب چشم میں آنکھوں کی بیرونی جھلی پر سوزش ہو جاتی ہے,آشوب چشم وائرس کی وجہ سے ہو تو یہ ایک وبائی مرض میں تبدیل ہو سکتی ہے،آنکھ کی بیماریوںمیں سفید اور کالا موتیا دونوں ہی خطر ناک ہیں ، پاکستان میں سفید موتیے کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے،آنکھ کے اندر پانی کے زیادہ ہونے سے پریشر بڑھ جاتا ہے جو کالے موتیے کا باعث بنتا ہے،کالے موتیے میں جیسے ہی پریشر بڑھتا ہے تو دماغ کی طرف جانے والے عصاب دبنا شروع ہو جاتے ہیں،شوگرکنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے آنکھ کے اندر خون کی نالیاں پھٹ جاتی ہیں اور خون باہر آنے لگتا ہے ،آنکھ کا پردہ سوج کر موٹا ہوجاتا ہے جو اندھے پن کا باعث بنتا سکتا ہے۔ آشوب چشم کے مریض بار بار آنکھوں کو اپنے ہاتھوں سے خارش کرتے ہیں، آنکھوں کا پانی صاف کرتے ہیں جس سے ان کے ہاتھوں کو وائرس لگ جاتے ہیں جب یہ وائرس والے ہاتھ کسی بھی چیز کو لگیں گے تو یہ وائرس اس چیز پر موجود ہوں گے جب کوئی دوسرا شخص اس چیز کو ہاتھ لگائے گا تو اس کے ہاتھ سے وہ اس کی آنکھوں میں بیماری منتقل کر دیں گے اس لیے ہاتھوں کو روزانہ بار بار صابن سے دھوئیں۔اس مرض میں مبتلا مریض دوسروں سے ہاتھ نہ ملائیں، گلے نہ ملیں، اپنا صابن، تولیہ، عینک، کنگھا، موبائل، کیلکولیٹر، کتاب اور خواتین اپنی میک اپ کٹ کسی کو استعمال نہ کریں دیں. شوگرکا مرض مریضوں کے لیے زیادہ خطرناک ہے ۔ شوگر اکثر اوقات زیادہ رہنے کی صورت میں متعلقہ شخص کی آنکھیں مستقل طور پر آندھی ہو سکتی ہیں ۔اگر بروقت تشخیص ہو جائے تو ایسے اندھے پن پربچایا جاسکتا ہے ۔پاکستان میں آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا افراد میں سے 54فیصد سفید موتیے ،14فیصد قرینہ میں سفید ی اترنے ،7فیصد کالا موتیا اور چار فیصد نظر کمزور ہونے کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ سفید موتیے کی سرجری میں پہلے چھ سے سات ٹانکے لگتے تھے جس سے مریض کو آنکھ میں الجھن ہوتی تھی تاہم اب 2.7ایم ایم کا کٹ لگا کرسرجری کی جاتی ہے اور مصنوعی لینز ڈالے جاتے ہیں جوچار سے چھ ہفتے کے بعد باقاعدہ کام کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ کالے موتیے میں جیسے ہی پریشر بڑھتا ہے تو دماغ کی طرف جانے والے عصاب دبنا شروع ہو جاتے ہیں جس سے نظرکم ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔اس میں آنکھ کے درمیانے حصے سے نظر آتا رہتا ہے اور سائیڈوں سے نظر آنا کم ہو جاتا ہے ۔شوگر کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں عینک کا نمبر بھی باربار تبدیل ہوتا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر محمد معین نے کہا کہ بروقت تشخیص کی صورت میں لیزر یا انجکشن کی مدد سے مریض کو اندھے پن سے بچایا جا سکتا ہے ۔54فیصد ا ندھے پن کاسبب سفید موتیا ہے جبکہ قرنیہ میں سفیدی آنے کی وجہ سے 14فیصد مریض آنکھوں کی بیماریوںمیں مبتلا ہور ہے ہیں ۔کے پی کے اور پنجاب کے 9اضلاع میں ککروں کی بیماری زیادہ پائی گئی ہے جس کے لیے ڈبلیو ایچ او کی گائیڈ لائن کے مطابق علاج شروع کر دیا گیا ہے ۔

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC