ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اج ملکی معیشت اور پوری قوم کو سخت مشکلات اور تباہی کا سامنا ہے ، بجلی کے حصول کے لیے سستے ذرائع کی بجائے مہنگے ذرائع استعمال کرنا سنگین غلطی تھی ائی پی پیز پاکستانی معیشت کے لیے بلیک ہول ثابت ہوئیں ۔ صنعت کار اور تاجر برادری کے ہر دل عزیز رہنما میاں انجم نثار کی جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے محمد وحید جنگ سے خصوصی گفتگو ۔

ماضی کی حکومتوں کے غلط فیصلوں کی وجہ سے اج ملکی معیشت اور پوری قوم کو سخت مشکلات اور تباہی کا سامنا ہے ، بجلی کے حصول کے لیے سستے ذرائع کی بجائے مہنگے ذرائع استعمال کرنا سنگین غلطی تھی ائی پی پیز پاکستانی معیشت کے لیے بلیک ہول ثابت ہوئیں ۔ صنعت کار اور تاجر برادری کے ہر دل عزیز رہنما میاں انجم نثار کی جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے محمد وحید جنگ سے خصوصی گفتگو ۔تفصیلات کے


مطابق لاہور میں منعقد ہونے والی ایک بڑی ایکسپو کے موقع پر پاکستان کی سرکردہ نیوز ویب سائٹ جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے سینیئر صحافی محمد وحید جنگ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے سارک چیمبر سی سی ائی پاکستان کے نائب صدر اور پاکستان میں بزنس کمیونٹی کے ہر دلعزیز رہنما میاں انجم نثار نے بتایا کہ جیسا سب جانتے ہیں ٹیکسٹائل پاکستان کی بنیادی انڈسٹری ہے اور ہر انڈسٹری میں رنگ کی ضرورت ہوتی ہے اس حوالے سے لاہور میں منعقد ہونے والی اٹھویں ایکسپو کلر اینڈکیمیکل ڈائز ایکسپو یقینی طور پر بڑی اہمیت کی حامل ہے یہ پاکستان میں منعقد ہونے والی

ڈائز کیمیکلز اینڈ الائڈ انڈسٹری کی سب سے بڑی اور ہائی لیول ایکسپو ہے جس میں ملک و بیرون ملک سے بہت بڑی تعداد میں شرکا خصوصی طور پر شامل ہوئے ہیں ( واضح رہے کہ اس ایکسپو کے مہمان خصوصی میاں انجم نثار تھے )۔ ایک چھت کے نیچے جب مختلف ماہرین اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کی صلاحیتوں کام اور ٹیکنالوجی اپ گریڈ کو سمجھنے میں اسانی ہوتی ہے پروڈکٹ کو بہتر طریقے سے سمجھا جا سکتا ہے اس کے بہتر استعمال کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور دوسروں کو سمجھانے میں اسانی ہوتی ہے کرونا کے بعد چین کے 100 سے زائد ماہرین اور ان کے سٹالز اور بوتھ یہاں اہمیت کے حامل ہیں ان کی امد سے یقینی طور پر ہماری انڈسٹری کو فائدہ ہوگا ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ اتنی بڑی تعداد میں چینی ماہرین کا انا یقینی طور پر خوش ائند ہے ملکی معیشت کی موجودہ صورتحال کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یقینی طور پر ہماری معیشت کی سمت درست نہیں ہے 16 مہینوں میں گزشتہ حکومت میں 120 روپے کی ڈی ویلیویشن ہوئی ہمارا روپیہ اپنی قدر کھو بیٹھا مارک اپ بڑھ گیا روٹین کی ایل سی نہیں کھل رہی انڈسٹری میں را مٹیریل کی شدید کمی ہے ہر طرف مہنگائی ہے ہر گھر پریشان ہے بجلی مہنگی ہو گئی ہے یوٹیلٹیز کے بلز ادا نہیں ہو پا رہے ۔
مہنگائی کے عالمی اثرات اور ملکی صورتحال کے حوالے سے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ انٹرنیشنل مہنگائی تو اپنی جگہ رہے گی اس کا مقابلہ کرنا ہوگا لیکن ہمیں زیادہ مشکلات اس لیے نظر ارہی ہیں کہ ہمارا اپنا روپیہ قدر کھوتا جا رہا ہے اج ہم یہاں کھڑے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں کافی بلنڈرز کیے ہیں 200 ملک گزارا کر رہے ہیں لیکن ہم نے یقینی طور پر کچھ سنگین غلطیاں کی ہیں جو مسلسل نیچے چلے گئے پہلے ایک حکومت 105 روپے پر چھوڑ کر گئی پھر دوسری حکومت 180 تک پہنچا گئی اور اج ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 290 روپے پر کھڑا ہے روپے کی مسلسل گراوٹ بہت تشویش ناک ہے
اس صورتحال تک ہم کیسے پہنچے اور اس کی بڑی وجوہات کیا ہیں اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ میرے نزدیک ائی پی پیز نے بڑی تباہی مچائی وہاں ٹرانسپرنسی کا فقدان رہا فیول کنزمپشن بہت زیادہ دکھائی گئی انرجی کاسٹ بڑھا دی گئی ۔بنانی تو بجلی تھی وہ سستے ذرائع سے بھی بن سکتی تھی کیٹی بندر میں کوئلہ موجود تھا سولر سے بھی بجلی بن سکتی تھی گرین انرجی جس میں فیول کو امپورٹ نہیں کرنا تھا اس پر انحصار بڑھایا جا سکتا تھا ہائیڈل انرجی جس میں ڈیمو کے پانی سے بجلی بنائی جا سکتی تھی ہر سال تقریبا دو ارب ڈالر کا پانی سمندر میں پھینک دیتے ہیں اسے زراعت میں استعمال کر سکتے تھے اور بجلی بنا سکتے تھے ڈیم بنا کر بجلی ساڑھے تین روپے کی فراہم کی جا سکتی تھی لیکن یہ راستہ اختیار نہیں کیا گیا اور باہر سے کولا امپورٹ کیا گیا ار این جی ایکسپورٹ کی گئی اور فرنس ائل امپورٹ کر کے بجلی بنائی گئی ہر طریقے سے بجلی مہنگی ہوتی چلی گئی میرے نزدیک ائی پی پیز بلیک ہول فار پاکستانی اکانمی ہیں انہوں نے تباہی مچائی ہے قدرت نے تو ہمیں بجلی بنانے کے لیے اور بھی بہت سے سستے وسائل فراہم کر رکھے ہیں لیکن ہم نے غلط راستہ چنا ۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ بزنس کمیونٹی اس حوالے سے اواز نہیں اٹھاتی رہی اور اب اپ لوگ کیا کر رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا بزنس کمیونٹی نے ہر فورم پر اواز اٹھائی اخبارات بھرے پڑے ہیں ٹی وی چینلز کے پروگراموں میں ہم لوگ چیختے رہ گئے فیصلے تو حکمرانوں نے کرنے ہوتے ہیں ہم ان کو گائیڈ لائن دے سکتے ہیں ۔جب سے بزنس مین پینل ایا ہے ایف پی سی سی ائی کی کارکردگی میں نمایاں بہتری اپ دیکھ سکتے ہیں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا شعبہ کراچی میں کھولا گیا یونس ڈاگا کی سربراہی میں پانچ بیوروکریٹ اور 10 بزنس مین وہاں پر کام کر رہے ہیں سب رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں اور بہت اچھے ڈاکومنٹ تیار کر کے حکومت کی رہنمائی کی گئی ہے حکومت بھی اس کام کو صراحتی ہے اور اب حکومت نے مختلف ریسرچ ورک اسسائن یہ ہیں اور پیسہ بھی دے رہی ہے ہمارا بنیادی کام یہ ہے کہ گائیڈ لائن فراہم کریں ایگریکلچر کرپٹو کرنسی مارک اپ سے لے کر اور بہت سی چیزوں تک ہم نے اچھی پبلکیشن تیار کر کے دی ہیں کراچی کے افس میں سولرائزیشن کی ہے ایس پی سی سی ائی کے ہیڈ افس کو نئی شکل دی ہے لاہور میں ہمارا افس کرائے پر تھا اب اپنی بلڈنگ بن گئی ہے یہ ایک اثاثہ ہے بزنس مین بینل نے مجھ سے لے کر نہ صرف مگوم اور پھر عرفان شیخ تک مسلسل خدمت کی ہے ہم نہ کوئی ٹی اے ڈی اے لیتے ہیں حالانکہ لے سکتے ہیں لیکن اللہ نے ہمیں ویسے ہی بہت نوازا ہوا ہے ہم رضا کرانا طور پر اپنی خدمات دے رہے ہیں اپنی ایکسپرٹیز کے لیے رول پلے کر رہے ہیں ہمارے صدر بہت بلنٹ ہیں کھل کر بات کرتے ہیں ان کی باتیں ارباب اختیار کو بری بھی لگتی ہیں بھلے لگتی رہیں لیکن سچ بات کرنی چاہیے اور وہ کرتے ہیں درحقیقت ماضی میں حکومتوں نے اچھے فیصلے نہیں کیے جس کا نقصان اور تباہی اج پوری قوم بھگت رہی ہے ۔
فٹ ویئر انڈسٹری کے مسائل اور پوٹینشل کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ فٹ ویئر انڈسٹری کا بہت اسکوپ ہے دنیا اس سلسلے میں کافی کام کر کے اگے بڑھ چکی ہے ہم بھی اگے بڑھ سکتے ہیں بہتر اگاہی تو اپ کو فٹ ویئر ایسوسییشن اور ان کے عہدے دار دے سکتے ہیں جہاں تک میرے علم میں ہے یہ 130 ملین ڈالر کی ہماری انڈسٹری ہے اسے ہم بہت اوپر لے کر جا سکتے ہیں ان کے کچھ ڈیزائننگ کے مسائل تھے انہوں نے انٹرنیشنل ڈیزائنرز ہائر کیے ہیں ان کے ذریعے ان کے ممبرز اب اچھی پروڈکشن کر رہے ہیں بہتر ڈیزائن اور مانگ کے جوتے دنیا میں بھیجے جائیں تو مقبولیت ملے گی یقینی طور پر اس انڈسٹری میں جابز زیادہ ہیں بعض شعبوں میں نوکریاں کم ہوتی ہیں لیکن فٹ ویئر کی انڈسٹری میں لیبر ورک زیادہ ہے اور لوگوں کو روزگار کے مواقع زیادہ ہیں اسی طرح ائی ٹی سیکٹر میں کافی جابز ہیں حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے کیونکہ پڑوسی ملک 156 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کر رہا ہے اور ہم بمشکل تین ارب تک پہنچے ہیں اس سلسلے میں ہمیں اپنی ٹیکنالوجی کو اور اپنے نوجوانوں کی بہتر تربیت کو فوکس کرنا چاہیے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو ٹھیک کرنا چاہیے ان کا بھی محاسبہ ہونا چاہیے وہ ایسے سٹوڈنٹ تیار کر کے مارکیٹ میں بھیجے ہیں جہاں وہ مارکیٹ میں کھپت کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہوں اور انڈسٹری کی ضروریات کے مطابق ان کو علم دے کر تیار کیا جائے تو وہ ملکی معیشت کے لیے مفید ثابت ہوں گے اور ڈالر کما کر دے سکیں گے ۔
=================================