ڈائریکٹر ، کیرئیر کونسلنگ اینڈ پلیسمنٹ سینٹر،آئی یو بی دور حاضر کا تعلیمی مسابقتی ماحول کیرئیرکونسلنگ ، چیلنجز اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا کردار


تحریر
محمد شاہدافضل دُرانی

یہ بات روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر نوجوان طبقہ تعلیم کی قوت سے لیس اور دور اندیش ہو تو معاشرتی اصلاحات میں ترقی کی رفتار دگنی ہو سکتی ہے ۔ ٹیکنالوجی کی یلغار،ڈیجیٹلائزیشن اور نالج اکانومی کے دور کا نوجوان خطرات کے سائے میں ہے۔ موجودہ دور کا نوجوان ٹیکنالوجی کی دسترس اور بہترین ذہانت کی موجودگی کے باوجود معلومات کو علم ، ربط کو رشتہ اور سہولیات کو خوشی سمجھ کر ابہام سے بھری زندگی جی رہا ہے۔ یہی وہ المیہ ہے کہ جس سے دور حاضر کا نوجوان دوچار ہے جس کی وجہ سے وہ آگے آنے والی چیلنجزکے لیے تیاری نہیں کر رہا اور “سب سے بہترین کی بقا” کے بڑھتے ہوئے رجحان کا غلط اندازہ لگا رہاہے۔عمومی طور پہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غیر سرکاری اداروں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں میں پُرکشش معاوضے والی نوکریوں کا حصول بہت مشکل ہے۔ لیکن اب یہ مسابقت سرکاری اداورں میں بھی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہاں اپنا مقام بنانا اور کسی بھی روز گار کی شروعات جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔

پاکستان کی بیشتر سرکاری و غیر سرکاری جامعات میں کیرئیر کونسلنگ سے متعلق کوئی باقاعدہ سینٹر یا کسی تربیتی مرکز کا قیام برائے نام ہے ۔اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور افادیت کے باوجود یہ سہولت محض چند جامعات تک مخصوص ہے۔ پیشہ وارانہ زندگی کے مسائل، عالمی اشتراک ، ای کامرس نوکریوں اور کروناوباء کے بعد عالمی منڈیوں میں سخت مقابلے کا رجحان پاکستانی جامعات کے طلبہ سے سخت مقابلے اور تیاری کا متقاضی ہے۔ یہ تقاضا خاص طور پر جامعات سے ہے کہ وہ اپنے فارغ التحصیل طالب علموں کی رہنمائی کریں اور انھیں ان کے مستقبل کے تعین اور منزل کی نشاندہی میں دستگیری کریں ۔


پاکستانی جامعات کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارا کمرہ جماعت ابھی تک متعین فرسودہ نصاب ، پرانا تعلیمی مواد اور قدغن سے پاک نہیں۔ اس کا نقصان یہ ہورہا ہے کہ ہم علم کے میدان اور اقوام عالم کی صف میں ابھی تک جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں محض کاغذ پر مبنی تحقیق ، سٹوڈنٹس اور اساتذہ کے درمیان رابطے کا فقدان اور عملی سماجی مسائل سے دوری نے ہماری جامعات کی ثقافت کو بُر ی طرح سے آلودہ کر رکھا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ یونیورسٹی کے اساتذہ کی ترقی کے پیمانے بھی معیار کی بجائے عددی بنیادوں پر ہیں جس نے جامعات کو دور ِحاضر کے تقاضوں سے دور کر کےمحض روایتی انداز میں کام کرنے والا اداراہ بنا دیا ہے ۔ مقتدر تعلیمی حلقوں اورجامعات کی طرف سے اس روایتی نظام پر خاموشی اور اطمینان کا اظہار اس بات کی دلالت ہے کہ ہم اس جمود زدہ نظام کے عادی ہو چکے ہیں اور اس کو نہ بدلنے کےلیے کسی بھی عملی قدم سے پرہیز کر رہے ہیں۔ جبکہ


جدید دنیا کی جامعات ایک ایسی منزل کی طرف گامزن ہیں جو کہ مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ۔ اسی طرح اگر ہم جدید دنیا کی طرف نگاہ کریں تو اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ ترقی یافتہ ،یہاں تک کے ترقی پذیر ممالک کی یونیورسٹیاں دنیا میں اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجی اور علمی معیشت کے درمیان اپنے مستقبل کے کردار کی نئی وضاحت کر رہی ہیں۔ بلاشبہ پاکستانی جامعات کو فنڈز کی کمی اور پالیسیوں

میں عدم تسلسل بگاڑ کا ایک اہم عنصر ہے لیکن موجودہ ماحول اور جامعات کے کلچر کو تبدیل کرنے کے لیے محض فنڈز کی دستیابی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے غزنوی کی تڑپ اور خمِ زلفِ ایاز کی ضرورت ہے۔ جب تک مسائل کو دیدہ ِبینا سے دیکھنے کی سعی نہیں ہوگی تب تک پالیساں قرطاس ابیض پر محض لفاظی ہیں، نہ کہ ایک بہتر مستقبل کے لیے عملی قدم۔
جامعات تک پہنچتے پہنچنے ایک نوجوان معاشرے اور سکول کے روایتی ماحول سے صرف سننے اور کہنے والی سوچ اور طرز عمل کا شکار ہو چکا ہوتاہے جو کہ اعتماد سے عاری شخصیت کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی میں ایک نوجوان جو عرصہ گزارتا ہے وہ بہت ہی مخصوص اور منقسم ہوتاہے۔ اس دورانیے میں عملی زندگی سے زیادہ طلباء کی توجہ تعلیمی نصاب ، امتحانات اور نمبروں پر رہتی ہے ۔ اسی وجہ سے وہ عملی زندگی کی مطلوبہ مہارتوں سے نابلد اور اپنے صحیح شعبے کے انتخاب سے قاصر ہوتے ہیں۔ ۔ اس لگے بندھے اور گنتی کے ماحول میں ان کی کردار سازی ، رہنمائی ، ہنرسازی اور جہاں بینی کے لیے وقت اور وسائل نا کافی ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ ثانوی تعلیمی سطح سے ہی طالب علموں کی کونسلنگ کی جائے اور انھیں درست سمت کے تعین میں مدد فراہم کی جائے۔حالانکہ یہ وہ مناسب وقت ہوتاہے کہ جس میں نوجوانوں کوان کی باقی زندگی کی نسبت زیادہ رہنمائی اور کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اس مرحلے پر طالب علموں کو رٹہ بازی ،نظم و ضبط کے غیر ضروری تقاضوں اوراندھی تقلید کی دوڑ میں ڈالا جاتاہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالب علم روبوٹ بن جاتے ہیں اور کتابوں کے علاوہ عملی زندگی ،سماجی مسائل اور مستقبل کے چیلنجز پر بات کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ۔
ضروری ہے کہ اس مرحلے پر رہنمائی کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور ہر کالج میں مثالی طور پر کونسلنگ کے اساتذہ یا ٹرینرز یا تحصیل و ضلع کی سطح پر تعلیمی افسران کے زیر نگرانی مطلوبہ مہارت اور تربیت کے حامل افراد طلباء کی رہنمائی کریں ۔یقینا ً ثانوی تعلیم کی سطح پر دی جانے والی تربیت طلباء کی آنے والی تعلیمی زندگی پر مثبت اور مفید مفید اثرات مرتب کرے گی جس سے یہ طالب علم جامعات کے اندر اپنی شخصیت کو منوانے اور اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کرنے کےقابل ہوں گے۔، ویسے بھی طلباء کی کثیر تعداد میں سے ایک مخصوص گنتی ہی وہ خوش نصیب ہیں جو بہتر تعلیم یا اعلیٰ سطح کی تعلیم کا خواب پورا کر نے کے اہل ہوتے ہیں ۔ جب کہ دیگر ماندہ اپنے خاندانی پس منظر ، معاشی بدحالی اور دیگر سماجی مسائل کا شکار ہو کر جامعات سے دور رہ جاتے ہیں۔ موخر الذکر میں سے اگر کوئی طالب علم یونیورسٹی میں پہنچ بھی جائے تو تربیت نہ ہونے کی وجہ سے احساس کمتری و احساس محرومی کے گہرے سائے ان کے روشن مستقبل کو تاریک بناتے ہیں اور وہ تعلیمی میدان میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا پاتا۔

جامعات کا کلیدی کردار
یونیورسٹیوں کے اندر ایک چھوٹی کائنات ہوتی ہے جس میں معاشرے میں ٹھوس تبدیلیاں لانے کے لیے بے پناہ وسائل، عقل اور توانائی موجود ہوتی ہے۔ جامعات کی ثقافتوں میں جستجو کی کمی ، ایک بتائے گئے راستے سے آگے سوچنے کی کوشش میں کمی ، ہم آہنگی کی کمی اور سماجی ترقی کے لیے پرچم بردار بننے کی خواہش میں کمی وہ عوامل ہیں جو جامعات کو معاشرے میں وہ بدلاؤ لانے سے روک رہے ہیں جس کی دنیا کو ضرورت ہے ۔ یونیورسٹیوں کی فیکلٹی اور انتظامیہ کو اپنی انفرادیت پسندی اور انانیت کے بت تھوڑ کر اجتماعی دانش کے لیے ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگی۔ اکیلے کلاس روم کی اکیڈمک تدریس کے دن گئے ، اب ہماری یونیورسٹیوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے، اپنے تجربات سے ایک دوسرے کو مستفید کرنے اور بھلائی کے لیے تعاون کرنے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔


مسابقتی اور اثر انگیز ہونے کے لیے، طلباء کو نصاباور تعلیمی مواد کے ساتھ روزگار کی صلاحیتوں، ابھرتی ہوئی
ٹیکنالوجیز اور انسانی وسائل کی برانڈنگ کی تکنیکوں سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ایک استاد سے بہتر مشیر اور مشعل بردار کون ہو سکتا ہے؟ تدریسی عملے کو بھی بیرونی اسٹیک ہولڈرز، تعلیمی شراکت داروں ، صنعتی ماہرین اور روزگار مہیا کرنے والے اداروں کے لیے اپنے دروازے کھول کر طلبہ کی مہارتوں کی نشوونما اور کیریئر کا بھاگ دوڑ سنبھالنی ہوگی۔

اسلامیہ یویورسٹی بہاول پور اور ڈائریکٹوریٹ آف کیرئیر کونسلنگ کا قیام
گذشتہ چار سالوں کے دوران اسلامہ یونیورسٹی آف بہاول پور ایک فقید المثال ترقیاتی منصوبے کے تحت ترقی کی راہ پر گامزن رہی ہے۔ یہ جامع منصوبہ یونیورسٹی قیادت اور بلخصوص انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب (تمغہ امتیاز ) کی کاوشوں کی بدولت شروع ہو سکا۔ اس جامع حکمت عملی کی بدولت جہاں اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاول پور کے اندر مختلف فیکلٹیز ،شعبہ جات اور طلباءکی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا وہاں دوسری جانب طلبہ و طالبات کی ہم نصابی سرگرمیوں میں بہتری ، تربیت سازی اور خاص طور پر انھیں ہنر مند بناکر میدان عمل میں اُتارنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ وائس چانسلر دی اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاول انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبو ب کے دور ِ قیادت کے انقلابی اقدامات میں سے ایک کیرئیر کونسلنگ اینڈ پلیسمنٹ سینٹر کا قیام بھی ہے ۔
2021 ء کی تیسری سہ ماہی میں قائم ہونے والے اس ڈائریکٹوریٹ نے قلیل مدت میں ہی اپنی افادیت کو منوا کر تدریسی عملے کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور ساتھ ہی صنعتی شعبے کےساتھ ایسے مضبوط تعلقات قائم کیے کہ جن کی بدولت یہاں کے طالب علموں کے لیے روشن مستقبل اور روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوئے۔ بیس ماہ کے مختصر عرصے میں اسلامیہ یونیورسٹی کے اس سینٹر نے کونسلنگ سے متعلق جو خدمات سر انجام دیئے ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان قابل ذکر اقدامات میں 80 کے قریب تربیتی اور معلوماتی نشستوں کا اہتمام ، 21 ہنر سازی کی نشستیں ، 5 کانفرنسز، 11 سیمینار اور متعدد ماہرین کی مکالماتی نشستوں کا انعقاد شامل ہیں۔ جبکہ پلیسمنٹ آفس سے 42 مرتبہ فارغ التحصیل طلباء کی نوکریوں کے لیے بھرتی کا اہتمام کیا گیا۔ اسی طرح 38 مرتبہ انٹرنشپ کے لیے انتخاب کا عمل نامور کمپنیوں کے تعاون سے مکمل کیا گیا ۔علاوہ ازیں جاب فیئر کے انعقاد کے ساتھ ساتھ 11 اداروں کے ساتھ طلباء کی تربیت سازی ، انٹرنشپ اور نوکریوں کے حوالے سے مفاہمتی یاداشت کے معاہدے کیے گئے۔

تعلیمی اداروں اور صنعتی شعبوں کے درمیان روابط:
جامعات کا تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ صنعتی شعبے کے ساتھ مضبوط روابط کا ہونا طلباء کے مستقبل اور روزگار کی فراہمی کے لیے ایک ناگزیر عنصر ہے۔ لیکن مقامِ صد افسوس یہ ہے کہ ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے اس اہم صداقت سے چشم پوشی اختیار کر کے روابط کے فقدان کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں اور صنعتی شعبوں کے درمیان اعتماد کی گہری خلیج ہے جو وسیع تر اور عمیق تر ہوتی جارہی ہے۔ صنعتی شعبے کو یونیورسٹی جامعات کی تحقیق کے معیار اور محققین کی صلاحیتو ں پر اعتبار نہیں ،دوسری طرف جامعات کا ماننا ہے کہ صنعتی شعبہ ترقی کے روشن راستوں اور منصوبوں کے معاملے میں بے بہرہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں شعبے ایک دوسرے کے ساتھ روابط استوار کرنے کی صلاحیت سے عاری اور خواہش سے عاجز آچکے ہیں۔ رابطے کے فقدان کا نتیجہ فارغ التحصیل طلباء کی بے روزگاری کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
مذکورہ بالا خلیج کو خوشگوار،پائیدار اور فعال روابط سے پرُ کرنے کے لیے کیرئیر کونسلنگ اینڈ پلیسمنٹ سینٹر کی گذشتہ بیس ماہ کی کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ اسی حوالے سے اس سینٹر نے مقامی ، علاقائی اور ملکی سطح پر صنعتی شعبے اور کمپنیوں کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر روابط کو استوار کیا ۔ صنعتی شعبے کے سربراہان اور ماہرین کو اسلامیہ یونیورسٹی میں مدعو کر کے انھیں جامعہ ، طلباء، سہولیات اور تدریس و تحقیق کے شعبے میں اٹھائےگئے اقدامات سے متعلق آگاہ کیا گیا۔ سینٹر کی کوششوں سے صنعتی حلقوں میں اسلامیہ یونیورسٹی اور جنوبی پنجاب کا ایک مثبت چہرہ اور مقام سامنے آیا۔ جس کی بدولت مختلف کمپنیوں نے یونیورسٹی کے طلباء پر اعتماد کا اظہار کر کے انھیں روزگار کے مواقع فراہم کیے ۔ یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی کے انجینئرنگ اور کمپیوٹنگ فیکلٹی کے چھٹے اور ساتویں سمسٹر میں زیر تعلیم طالب علموں کو کراچی اور لاہور کی نامور کمپنیوں نے نوکری کی پیش کش کی ۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور ،کیرئیر کونسلنگ اینڈ پلیسمنٹ سینٹر کے غیرروایتی اقدامات
کیرئیر کونسلنگ اینڈ پلیسمنٹ سینٹر کے انقلابی اقدامات میں سے ایک یونیورسٹی میں مقابلے کے امتحانات کے لیے تیاری کرانا بھی شامل ہے ۔ سینٹر کے زیر اہتمام پہلی بار کسی سرکاری جامعہ کی سطح پر سی ایس ایس ، پی ایم ایس اور دیگر قومی سطح کے مقابلے کے امتحانات کے لیے باقاعدہ سینٹر قائم کیا گیا ۔ اس سنٹر میں طلباء کو مقابلے کے امتحانات سے متعلق ماہر اساتذہ کی نگرانی میں مکمل رہنمائی اور تیاری کروائی جاتی ہے ۔ اسی طرح مذکورہ سینٹر کا گذشتہ سال شروع کیاگیا ینگ لیڈرز پروگرام بھی اپنی نوعیت کا منفرد اور انقلابی قدم ہے ۔ اس پروگرام کے تحت طلباء کے اندر قیادت کا مادہ پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ انھیں ان کی صلاحیتوں سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے ینگ لیڈرز کو یونیورسٹی وائس چانسلر، ڈین فیکلٹیز، پروفیسرز کے ساتھ نشستوں کے علاوہ مختلف اداروں کے ڈائریکٹرز ، ضلعی انتظامیہ کے افسرا ن اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے سربراہان سے ملاقاتیں کروا کر ان کی عملی تربیت کی جاتی ہے۔ اس غرض سے مختلف لیکچر سیشنز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے ۔اس پروگرام کے نتائج حیران کن اور تسلی بخش بر آمد ہوئے ہیں۔

دورِ حاضر ہنر مند افراد کا دور ہے ۔ نوجوانوں کواس انتہائی مقابلے کے عالمی منظر نامے میں اپنی ڈگری کے ساتھ ساتھ مکمل شخصیت سازی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پہلا فرض طلباء پر عائد ہوتا ہے کہ وہ موجود ہ ماحول میں اپنی جگہ بنانے کے لیے اپنی محدود سوچ کے دائروں کو مٹا کر اپنی شخصیت کا ادراک کریں۔ اسی طرح والدین اور رواحانی والدین پر بھی فرض ہے کہ وہ نوجوانوں کو ڈگری کی اہمیت سے واقف کرانے کے ساتھ ساتھ ہنر کی افادیت و ضرورت اور مکمل شخصیت سازی کی اہمیت سے آشنا کریں۔ان تینوں کرداروں کو انتہائی سنجیدگی اور تعقل کے ساتھ اپنے فرائض نبھانے ہوں گے ۔ بصورت دیگر کسی بھی کردار کی ادنی ٰ کوتائی بھی نوجوان نسل کو نہ صرف شدید خطرات سے دوچار کر سکتی ہے بلکہ ایک ایسے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے جو کہ ناقابل ِازالہ ہوگا۔

اہم نکات
• اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا مشن، کیرئیر کونسلنگ کے ذریعے مکمل شخصیت سازی۔
• اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کیرئیر کونسلنگ اینڈ پلیسمنٹ سینٹر کے حالیہ اقدامات فقید المثال ہیں۔
• جدید دور میں نوجوان نسل کو شدید مسابقتی ماحول کا سامنا ہے۔
• نوجوانوں کی کردار سازی اور مستقبل سازی میں جامعات کا کردار انتہائی ناگزیر ہے۔
• وقت کا تقاضا ہے کہ کیرئیر کونسلنگ سے متعلق عملی اقدامات کیے جائیں۔
• صنعتی شعبوں اور جامعات کے درمیان روابط کا فقدان نوجوانوں کے مستقبل کے لیے باعث تشویش ہے۔
==========