ضیاءالدین کالج آف کلینیکل سائیکالوجی کی جانب بچوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے آگاہی سیمینار کا انعقاد

پریس ریلیز

کراچی ۔ 23 مئی، 2023 : ضیاء الدین کالج آف کلینیکل سائیکالوجی کیا جانب سے بچوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے ’ ’ نرچرڈ مائنڈ، باو¿نڈ لیس ٹومارو: چلڈرن مینٹل ہیلتھ میٹرز ‘ ‘ کے موضوع پر آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار کا مقصد بچوں کی ذہنی صحت کو ترجیح دینے کی اہمیت پر زور دینا، دماغی صحت سے متعلق منفی باتوں سے نجات اور بچوں اور اہل خانہ کو ضروری مدد اور وسائل سے جوڑنا تھا تاکہ بچوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ضیاءالدین یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان حیدر کا کہنا تھا کہ آج کے معاشرے میں اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر کسی کے ساتھ دماغی بیماری کے مریض کی طرح برتاو¿ کیا جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ زندگی ہمیشہ منصفانہ نہیں ہوتی۔ بچے کی نشوونما کے دوران مثبت تقویت ضروری ہے، مسلسل مثبیت کی حد سے زیادہ توقعات منفیت اور ڈپریشن کا باعث بن سکتے ہیں۔ ذہنی بیماری اور اس اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ زندگی خود تناو¿ کا ذریعہ ہے،ہمیں ابتدائی عمر سے ہی بچوں کو زندگی کے ناگزیر دباو¿ سے گزرنے کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر کنسلٹنٹ پیڈیاٹریشن اور پیڈیاٹرک نیورولوجسٹ ڈاکٹر رمن کمار کا کہنا تھا کہ پیدائش سے چھ سال تک کی عمر بچوں کے لیے بہت اہم ہوتے ہیں۔ کم عمری سے ہی بدسلوکی ، غفلت ، جذباتی اور سماجی صلاحیتوں کا پیچیدہ باہمی ربط ان پہلوو¿ں کو پروان چڑھانے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ منفی تناو¿ پروان چڑھتے دماغی فن تعمیر پر نقصان دہ اثر ڈال سکتا ہے، جس سے سیکھنے، رویے، اور جسمانی اور ذہنی تندرستی دونوں میں پائیدار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سیمینار میں آٹزم کی جلد پتہ لگانے اور پہچاننے کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے، ضیاءالدین یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر شائستہ احسان نے کہا کہ جلد تشخیص کی علامات کو جاننا، جیسے نیند کی خرابی، کھانا کھلانے کے مسائل، معدے کے مسائل، ناقص ہم آہنگی، توجہ اور سیکھنے میں مشکلات ، آٹزم سے وابستہ خطرے والے عوامل ہیں۔ امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس ہر بچے کو ان کے 18 اور 24 ماہ کے چیک اپ کے دوران آٹزم کے لیے اسکریننگ کرنے کی سفارش کرتا ہے۔ ترقی کے سنگ میل کے بارے میں والدین کے خدشات کو کبھی بھی نظر انداز نہ کرنا بہت ضروری ہے۔
دماغی صحت اور بولنے کے درمیان تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے، ضیاءالدین کالج آف اسپیچ لینگویج اینڈ ہیئرنگ سائنسز کی ڈاکٹر تہمینہ تابش نے اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بولنے اور زبان کی خرابی والے بچوں کو نفسیاتی امراض پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
قبل ازیں اپنے خطبہ استقبالیہ میں ضیاءالدین یونیورسٹی کی ڈین فیکلٹی آف لبرل آرٹس اینڈ ہیومن سائنسز ڈاکٹر شہلا نجیب صدیقی نے کہا کہ ہمارے بچے ہماری قوم کا مستقبل ہیں، اور ان کی پرورش ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم پاکستان میں بچوں میں ذہنی صحت کے مسائل کے بڑھتے ہوئے پھیلاو¿ کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جیسے ڈپریشن، اضطراب، اور رویے کی خرابیاں، جو ان کی صحت کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔
اس موقع پر ان کا کہ مزید کہنا تھا کہ آج میں آپ کی توجہ ایک ایسے مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں جو ہماری فوری تشویش کا متقاضی ہے: ’ ’ پاکستان میں ذہنی صحت کی حالت‘ ‘ ۔ صورتحال کی سنگینی کے باوجود بچوں کی ذہنی صحت کو سمجھنے میں ایک اہم خلا موجود ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہم اپنے بچوں کی ذہنی صحت کو ترجیح دیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ والدین اپنے بچے کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری سمجھ سے کام لیں۔
سیمینار سے دیگر ماہرین بشمول اسسٹنٹ پروفیسر فزیکل تھراپی اسماءحمید ؛ طبی ماہر نفسیات، کالج آف کلینیکل سائیکالوجی، ضیاءالدین یونیورسٹی عون علی ؛ کنسلٹنٹ آکیوپیشنل تھراپسٹ اور ایچ او ڈی آکیوپیشنل تھراپسٹ ضیاءالدین کالج آف ری ہیبلیٹیشن سائنسز نیلم زہرہ نے بھی چائلڈ مینٹل ہیلتھ آگاہی سیمینار میں اپنی قیمتی آراءسے سامعین کو آگاہ کیا۔
۔۔۔۔۔
عامرشہزاد
ہیذ آف پبلک ریلیشنز اینڈ کمیونی کیشنز
ضیاءالدین یونیورسٹی
=========================================