اردن کی کنگز ہائی وے، جس کا ذکر مقدس انجیل میں بھی ہے


اردن کی کنگز ہائی وے، جس کا ذکر مقدس انجیل میں بھی ہے
رب کا جہاں
نوید نقوی
صاحب، صاحبہ رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم و ادب کی طاقت سے منور ہو جائے گا۔ سیانے کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے اس لیے میں بھی ہر وقت سفر کرتا رہتا ہوں یہ اور بات ہے میرا سفر زیادہ تر ساس کے گھر تک ہی ہوتا ہے۔ سفر کرنا ایک خداداد صلاحیت اور شوق ہے جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا کیونکہ اکثر نئی جگہوں پر آپ کو زحمت بھی اٹھانی پڑتی ہے اور تن آسان لوگ اس بات سے گھبراتے ہیں۔ خیر سفر کے اپنے فائدے اور لطف ہیں جو سفر کرنے والے ہی بیان کر سکتے ہیں۔ آئیے مشرق وسطیٰ کے ایک تاریخی ملک کا رخ کرتے ہیں جہاں کے انسان ہوں یا حیوان یا پھر چرند پرند اپنی خوبصورتی میں کوئی ثانی نہیں رکھتے، شاہ عبداللہ اردن کے بادشاہ اور سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ ان کی ملکہ رانیہ میری ہمیشہ فیورٹ رہی ہیں، ان کا نام اور تصویر پہلی بار اخبار جہاں میں دیکھی تھی جب میں خود ساتویں یا آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا۔ اردن، دریائے اردن کے مشرقی کنارے پر واقع مغربی ایشیا کا ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس آثار قدیمہ کا ایک وسیع خزانہ موجود ہے۔ اس کے مشرق میں سعودی عرب اور مغرب میں اسرائیل واقع ہے۔ اس ملک نے بھی ناجائز اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیا ہوا ہے اور اسرائیل کے ساتھ مل کر بحیرہ مردار کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ اردن کی واحد بندرگاہ اس کے جنوبی سرے پر خلیج عقبہ پر واقع ہے۔ اس بندرگاہ کو اسرائیل، مصر اور سعودی عرب بھی مشترکہ طور پر استعمال کرتے ہیں۔

اردن کا زیادہ تر حصہ صحرائے عرب پر مشتمل ہے۔ تاہم شمال مغربی سرے پر ہلال نما زرخیز علاقہ موجود ہے۔ اس کا دار الحکومت عمان ہے۔ ملکہ رانیہ اور شاہ عبداللہ کے دیس کا کل رقبہ 89,342 مربع کلومیٹر ہے جبکہ اس کی آبادی تقریباً 10,493,545 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس سرزمین پر کئی بادشاہوں نے حکومت کی ہے جن میں مصر کے فرعون، مقدونیائی، یونانی، ایرانی، رومن، بازنطینی، ایوبی، منگول اور ترک عثمانی سلاطین قابل ذکر ہیں۔ ان تمام ثقافتوں کے اثرات بھی قدم قدم پر آپ کو ملیں گے۔ خاص طور پر ترک فن تعمیر آپ کو جگہ جگہ ملے گا کیونکہ 1516 سے 1921 تک اس سرزمین پر عثمانی ترکوں کا کنٹرول رہا ہے۔ اردن کا مشرقی حصہ بنجر ہے۔ یہ نخلستانوں اور موسمی ندیوں سے سیراب ہوتا ہے۔ مغرب کے بلند علاقے نہری ہیں اور یہاں سدا بہار جنگلات بھی موجود ہیں۔ دریائے اردن کی عظیم وادی شق اردن کو مغربی کنارے اور اسرائیل سے الگ کرتی ہے۔ اردن کا بلند ترین مقام جبل ام الدانی ہے جو 1٫854 میٹر بلند ہے۔ اس کی چوٹی سارا سال برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ نشیبی ترین مقام بحیرہ مردار کے کنارے سطح سمندر سے 420 میٹر نیچے ہے۔

اردن جس علاقے میں واقع ہے، اس علاقے کو تہذیبوں کا گہوارا کہتے ہیں۔ کنگز ہائی وے، اردن کے اہم تاریخی مقامات میں سے بعض کو ایک دوسرے سے ملانے اور ایک کے بعد دوسری سلطنت کے استعمال میں رہنے والی اس شاہراہ کا ذکر انجیل میں موجود ہے۔ جب آپ وادی محیب میں ڈھلتے سورج کا نظارہ کرنے کے لیے داخل ہوتے ہیں تو اردنی بچے ، بڑے سب آپ کو دل و جان سے اپنے خوبصورت ملک کا وزٹ کرنے پر ویلکم کرتے ہیں اور آپ کو قہوہ پیش کر کے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ جب آپ حد نگاہ تک پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے کو جو بحر مردار تک جاتا ہے دیکھتے ہیں تو گمان ہوتا ہے کہ ان بنجر پہاڑوں میں کوئی جاندار نہیں رہتے ہوں گے لیکن جوں ہی گرمی کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے تو چھوٹی چھوٹی چڑیاں چہچہاتے ہوئے سنگلاخ چٹانوں سے نکل کر آپ کے اردگرد اڑنے لگتی ہیں۔ یہ خوبصورت معصوم عربی پرندے بھی آپ کو خوش آمدید کہ کر اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتے ہیں۔ آپ وادی کے جس کونے میں کھڑے ہو کر ان بنجر پہاڑوں میں سورج کو غائب ہوتے دیکھ رہے ہوتے ہیں آپ کو وہاں سے نیچے گھاٹیوں میں اور ڈھلوانوں پر سانپ کی طرح بل کھاتی ایک سڑک نظر آتی ہے۔ یہ کِنگز ہائی وے ہے جسے عربی میں الطریق الملوکی یعنی شاہراہِ شہنشاہ کہا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے پرانی زیر استعمال سڑک ہے۔ ہزاروں سال سے تاجر، مسلمان، عیسائی اور یہودی زائرین، سپاہی اور بادشاہ اس راستے کے ذریعے شمال سے جنوب کا سفر کرتے رہے ہیں۔ اردن کے وسط میں واقع کوہستانی علاقے سے گزرنے والی یہ سڑک قدیم سلطنتوں اور بادشاہتوں کو ایک لڑی میں پیروتی ہے۔ آج دور جدید میں اس پکّی سڑک کا نام ہائی وے 35 ہے جو اپنی قدیم پیشرو کی جگہ شام سے دریائے اردن کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف جاتی ہے۔

راستے میں کئی قدیم مقامات آپ کو اپنے طلسم میں مبتلا کرتے ہیں۔ جن میں رومن کھنڈرات، بازنطینی موزیک ، صلیبی قلعے اور پیٹرا کا قدیم شہر پڑتا ہے۔ یہ سب آثار بھرپور طریقے سے اردن کی تاریخ اور اس کے قدیم مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اردن کے محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق یہ راستہ نباتی دور چوتھی صدی قبل مسیح سے تقریباً 106 عیسوی تک، اور شاید اس سے بھی پہلے آئرن ایج یا لوہے کے دور میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اردن سے گزرنے والی اس قدیم سڑک کو بادشاہ کی سڑک، کے نام سے جانا جاتا ہے جس کا بائبل کے پرانے عہد نامے میں ذکر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو مصر سے باہر لے جانے کے بعد اسے عبور کرنے کی اجازت طلب کی تھی۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق موجودہ شاہراہ کے زیادہ تر حصے میں ادومی، نباتین، رومن، بازنطینی اور اسلامی آثار قدیمہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سڑک کم سے کم آٹھویں صدی قبل مسیح سے مسلسل استعمال میں ہے۔ اردن کے نوجوان لڑکے لڑکیاں چھٹیوں میں اس شاہراہِ پر لانگ ڈرائیو کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہ تاریخی کنگز ہائی وے قدیم زمانے میں عرب، فرٹائل کریسنٹ، بحیرۂ احمر اور مصر کو ملانے والا ایک اہم تجارتی راستہ تھا۔

عرب سے خوشبویات اور مصالحہ جات لے جانے والے قافلوں نے اس سڑک کے ذریعے نباتین دارالحکومت پیٹرا کو جاتے تھے۔ رومن دور میں شہنشاہ ٹراجن 98-117 عیسوی نے اس راستے کا نام بدل کر نووا ٹرائیانا رکھا اور اسے پہیوں والی گاڑیوں کے لیے ہموار بنایا۔ اگر آپ اس ہائی وے پر رک رک کر سفر کریں تو اب بھی اس سڑک کے کنارے ہمیں رومن سنگ میل مل جاتے ہیں۔ یہ سڑک صدیوں تک زائرین کے لیے ایک اہم راستہ بھی رہی ہے۔ بازنطینی دور میں مسیحی اسے بائبل میں مذکور مقدس مقامات کی زیارت کے لیے استعمال کرتے تھے، مثلاً ان کے عقیدے کے مطابق یسوع کے مصلوب ہونے کا مقام گولگوتھا۔ اسی طرح ابتدائی اسلامی دور میں بہت سے مسلمان اسی راستے سے مکہ جاتے تھے۔ مدابا سے نو کلومیٹر مغرب میں کنگز ہائی وے سے ایک چھوٹا سا چکر ہمیں کوہ نیبو کی طرف لے جاتا ہے۔ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مبینہ طور پر پہلی بار ارض موعود کو دیکھا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی وفات اور تدفین یہیں ہوئی تھی۔
پرانے عہد نامے میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے ادوم کے بادشاہ سے کہا تھا کہ وہ ان کے ملک سے گزرنا چاہتے ہیں۔ یہ علاقہ اب جنوب مغربی اردن میں شامل ہے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم اس وقت تک مرکزی سڑک پر چلتے رہیں گے جب تک کہ ہم آپ کے علاقے سے نکل نہیں جاتے۔ مگر کنگز ہائی پر سفر کی اجازت نہیں دی گئی۔ اب جدید اردن کہیں زیادہ مسافر پرور ہے۔ آپ کو ہر جگہ خوش آمدید کہا جاتا ہے۔اور چائے سے تواضع کی جاتی ہے کیونکہ یہاں کے لوگ نہ صرف خوبصورت ہیں بلکہ مہربان اور سخی بھی ہیں۔ اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے کئی مقامات کو یونیسکو نے عالمی ورثے میں شامل کیا ہوا ہے۔ وادی محیب میں 1142 میں قائم کیا جانے والا ایک مضبوط اور مستحکم قلعہ اپنی اصلی حالت میں قائم ہے جب آپ اس قلعے میں داخل ہوتے ہیں تو سلطان صلاح الدین ایوبی کا تصور آنکھوں میں آ جاتا ہے جنہوں نے 1188 میں اس عظیم قلعے کو صلیبی جنگجووں سے چھین لیا تھا۔ جب آپ اس قدیم ہائی وے کے اختتام تک پہنچتے ہیں تو آپ کو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کیونکہ سامنے موجود ہے پیٹرا، جسے دنیا کے سات نئے عجائبات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

بنجر ریگستان میں سرخ ریت کے پتھر سے تراشے گئے قدیم نباتین شہر کی شان و شوکت کا مقابلہ بہت کم جگہیں کر سکتی ہیں۔ پیٹرا کبھی سلطنتوں اور قدیم تجارتی راستوں کے چوراہے پر ایک عظیم تجارتی شہر تھا اور نباتائی کارواں کے استعمال میں رہنے والی یہ سڑک، جس نے اس خطے کو خوشحال بنایا تھا، اب دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے کشش کا باعث ہے جو اس مقام کے 2000 سال سے زیادہ پرانے مندروں، قبروں اور قربان گاہوں کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔