بلاول سے پہلے پاکستان کے نامور صحافی بھارت پہنچ گئے ، ایک مدت بعد بھارت پہنچنے والے پاکستانی صحافیوں کی خوشی دیدنی ہے ، کیا مصالحت کی کوششیں تیز ہورہی ہیں ؟

بلاول سے پہلے پاکستان کے نامور صحافی بھارت پہنچ گئے ، ایک مدت بعد بھارت پہنچنے والے پاکستانی صحافیوں کی خوشی دیدنی ہے ، کیا مصالحت کی کوششیں تیز ہورہی ہیں ؟

پاکستان کے نامور صحافی اور سینئر تجزیہ نگار مجاہد بریلوی ، مرتضی سولنگی اور اعزاز سید بھارت پہنچنے والوں میں نمایاں چہرے ہیں پاکستانی خواتین صحافی بھی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بھارت پہنچنے سے پہلے بھارت پہنچ چکی ہیں دونوں ملکوں کے

میڈیا سمیت انٹرنیشنل میڈیا کے صحافی بھی بلاول بھٹو زرداری کے دورہ بھارت کی بھرپور کوریج کی تیاری میں مصروف ہیں ۔

سینئر صحافی اور تجزیہ نگار مرتضیٰ سولنگی نے گووا کے ساحل سے اپنی خوشگوار لمحات کی تصویر شئیر کی ہے

====================
شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس میں شرکت کیلئے آج جمعرات کو گوا پہنچنے والے بلاول بھٹو زرداری 2011 کے بعد بھارت کا دورہ کرنے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہوں گے۔

بھارتی حکومت جمعرات اور جمعہ کو ساحلی شہر گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کی میزبانی کررہی ہے، وزرائے خارجہ کا یہ اجلاس شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماؤں کے جولائی میں نئی دہلی میں ہونے والے سربراہی اجلاس سے قبل ہو رہا ہے۔

دہلی میں 12 سال قبل اس وقت کی وزیر خارجہ حناربانی کھر نےبھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا سے ملاقات کی تو تب حالات مختلف تھے۔ امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ اس وقت کا سفارتی لمحہ مفاہمت کی کوششوں کے لیے موزوں تھالیکن آج یہ ایک مختلف کہانی ہے۔

بعض مبصرین نے بلاول کے بھارت جانے پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کیا مصالحت کی کوشش پرکام ہو رہا ہے۔ لیکن اسلام آباد کے لیے یہ دورہ شنگھائی تعاون تنظیم کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے اور اپنی خارجہ پالیسی کے مفادات آگے بڑھانے کے بجائے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش ہے۔

سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی حالیہ یادداشت میں دعویٰ کیا ہے کہ 2019 میں بھارت نے کشمیر میں بھارتی فوجیوں پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستانی علاقے میں حملے کیے تھے جس کے بعد دونوں ممالک جوہری جنگ کے قریب پہنچ گئے تھے۔

برطانوی نشریاتی ادارے میں شائع رپورٹ کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں وسطی ایشیا میں سلامتی اور اقتصادی امور پر تبادلہ خیال کے لیے رکھی گئی تھی جس کی سربراہی پاکستان کا اہم اتحادی چین اور پاکستان کا ایک اہم ابھرتا ہوا دوست روس کر رہا ہے۔تنظیم میں وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے 4 ارکان بھی شامل ہیں، ایک ایسا خطہ جس میں اسلام آباد تجارت، رابطے اور توانائی کے لیے مزید تعاون کی امید رکھتا ہے۔ کوگلمین کا کہنا ہے کہ ’کانفرنس میں شرکت نہ کرنے سے پاکستان کے ایک ایسی تنظیم سے الگ تھلگ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا جو اس کے مفادات کو انتہائی اہمیت دیتی ہے۔‘

اس کانفرنس کے دوران بلاول اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جئے شنکر کے درمیان دو طرفہ ملاقات متوقع نہیں ہے، تاہم سیاسی امور پر گہری نظررکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ وسیع تر دو طرفہ تناظر میں بہت اہم ہے۔

امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا بھی کہنا ہے کہ ، ’یہ دورہ، ذاتی طور پرتعلقات میں کسی قسم کی سرد مہری کی نمائندگی نہیں کرتا۔

مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ ، ’پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کو دو طرفہ نہیں بلکہ کثیر الجہتی عینک سے دیکھنا بہتر ہے۔ وہ دہلی کے ساتھ مصالحت نہیں کریں گے۔ وہ علاقائی تنظیم کی ایک کانفرنس میں شرکت کرنے جا رہے ہیں جو پاکستان کے مفادات کے لئے کافی اہمیت کی حامل ہے۔‘

کوگلمین کے مطابق جنگ بندی نے چیزوں کو قابو میں رکھا ہے۔ جب بھارت نے گزشتہ سال غلطی سے ایک سپرسونک میزائل پاکستان پر فائر کیا تواس واقعے کو سنگین بحران میں تبدیل کیے بغیرپاکستان کی جانب سے مذمتی بیان جاری کیا گیالیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ رشتہ محفوظ جگہ پر ہے ”آج، دونوں فریقوں کو بڑھنے والی سیڑھی پر واپس لے جانے کے لیے صرف ایک محرک، ایک اشتعال کی ضرورت ہوگی“۔

پاکستان میں ہندوستان کے سابق ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون کا ماننا ہے کہ ’تعلقات گزشتہ دو سال سے مستحکم ہیں لیکن نچلی سطح پر ہیں۔‘

کوگلمین کا مزید کہنا ہے حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کشیدگی کو کم رکھنے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستان کو اندرونی خلفشار کا سامنا ہے اور وہ بھارت کے ساتھ نئے بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا جبکہ بھارت چین کے حوالے سے فکرمند ہے، جو اس کا سب سے بڑا سیکیورٹی چیلنج ہے اور وہ پاکستان سے اپنے مغربی محاذ پر اضافی پریشانی پیدا نہیں کرنا چاہتا ہے۔

لیکن اگر دونوں فریق تناؤ کو کم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو ہندوستان میں ہونے والا سربراہی اجلاس دیرپا مصالحت کو آگے بڑھانے کا موقع کیوں نہیں ہے؟ ظاہر ہے کہ سیاست اس کی راہ میں حائل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر امن قائم کرنے کی کوششیں کی گئیں تو دونوں ممالک میں عوامی رد عمل سامنے آئے گا۔ یہ خاص طور پر پاکستان میں مہنگا پڑے گا جہاں حکومت پہلے ہی انتہائی غیر مقبول ہے۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کارکنوں نے 17 دسمبر 2022 کو کولکتہ میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں بھٹو زرداری کے مبینہ توہین آمیز تبصرے کے خلاف احتجاج کے دوران پاکستان کے قومی پرچم اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے پلے کارڈز جلائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر ملک یہ سمجھتا ہے کہ رسمی بات چیت کے لئے اس کی بنیادی شرط پوری نہیں ہوئی ہے: بھارت دہشت گردی کے بارے میں مزید کچھ کرنا چاہتا ہے، اور پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت اپنی کشمیر پالیسی کو تبدیل کرے۔

واشنگٹن ڈی سی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے حسن عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ’بہترین وقت میں بھی غیر یقینی‘ ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں سیاسی پولرائزیشن نے صورتحال کو مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

دوسری جانب شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارت کا اثرورسوخ اس کے تحریف چین کی موجودگی کی وجہ سے محدود ہے۔ یوکرین کی جنگ نے ماسکو کو بیجنگ کے قریب لاکھڑا کیا ہے جس کا مطلب شنگھائی تعاون تنظیم میں روسی اثر و رسوخ میں کمی اور چین کے لیے مزید طاقت ہو سکتی ہے۔

فارن پالیسی میں شائع رپورٹ کے مطابق پاکستان کی طرح بھارت بھی وسائل سے مالا مال وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ یہ خطہ خاموشی سے دونوں ممالک کے درمیان مسابقت کا میدان جنگ بن چکا ہے۔ بھارت کو افغانستان تک براہ راست زمینی رسائی حاصل نہیں جو وسطی ایشیا کا ایک اہم گیٹ وے ہے تاہم اس نے خطے کی حکومتوں کے ساتھ باقاعدگی سے ملاقاتوں کے لئے نئے میکانزم قائم کیے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شرکت کا مقصد یہ اشارہ دینا ہو سکتا ہے کہ جب وسطی ایشیا کی بات آتی ہے تو وہ خطے میں بھارت کی مزید مقبولیت یا پزیرائی نہیں چاہتا۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان بلاول کے دورے کو بھی دو طرفہ عینک سے نہیں دیکھ رہا، ملک میں سیاسی اور معاشی بحران کے پیش نظر اسلام آباد نئی دہلی کے ساتھ تناؤ کم رکھنے کا خواہاں ہے۔ یہ دورہ دو سال سے زائد عرصے کے نسبتا مستحکم تعلقات کو فروغ دے گا۔ یہ اعتماد سازی کا اقدام ہو سکتا ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان نے بلاول اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان ملاقات کی درخواست کی تھی جبکہ پاکستانی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس کی تردید کی ہے۔ کسی بھی طرح سے پاکستانی وزیر خارجہ کے دورے کو مصالحتی عمل شروع کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھنا گمراہ کن ہوگا۔ گزشتہ ماہ ہی بھارتی حکام نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔

جریدے فارن پالیسی کے مطابق نئی دہلی اسلام آباد میں ایک کمزور اورغیر مقبول انتظامیہ کے ساتھ بات چیت پر سیاسی سرمایہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا ، خاص طور پر اس وقت جب کہ بھارت میں انتخابات میں صرف ایک سال باقی ہے۔

یہ دورہ پاکستان کے لیے علاقائی ضرورت ہے نہ کہ دو طرفہ۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے اسلام آباد تنظیم کے اندر اپنا اثر و رسوخ کھونے کا خطرہ مول لے گا۔

https://www.aaj.tv/news/30326356/
============================================

بلاول بھٹو، جنھیں ان کی والدہ بے نظیر نے بتایا کہ ’ہر انڈین میں تھوڑا سا پاکستان ہے‘

شمائلہ جعفری
==========
1988 پاکستانی سیاست میں ایک ہنگامہ خیز سال تھا۔ یہ وہ سال ہے جب فوجی آمر ضیا الحق طیارہ حادثے میں مارے گئے اور ان کے 11 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہوئی مگر یہ وہی سال ہے جب پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی پیدائش ہوئی تھی۔

بلاول کی تاریخ پیدائش کو انتہائی رازداری میں رکھا گیا تھا کیونکہ پیپلزپارٹی کو خدشہ تھا کہ ضیا حکومت اسے بےنظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔

اینڈریا فلیشین برگ نے ’ایشیا میں خاندان اور خواتین سیاسی رہنما: صنف، طاقت اور نسب‘ نامی کتاب میں چھپے اپنے مقالے میں لکھا کہ ضیا الحق نے نومبر 1988 میں الیکشن کی تاریخ یہی اندازہ لگا کر مقرر کی تھی کہ یہ بے نظیر کے ہاں بچے کی پیدائش کے قریب کا وقت ہو گا اور وہ اس دوران پورے زور و شور سے انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گی ’لیکن رازداری نے کام کیا اور ضیا حکومت کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔‘

بلاول عام انتخابات سے تقریباً دو ماہ قبل 21 ستمبر 1988 کو پیدا ہوئے۔ جس کے بعد ان کی والدہ بے نظیر بھٹو نے ایک بھر پور انتخابی مہم چلائی اور نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔

بلاول ابھی تین ماہ کے بھی نہیں تھے جب ان کی والدہ نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کے طور پر حلف لیا۔

،تصویر کا کیپشن
1995 میں بے نظیر بھٹو کی اپنے بیٹے بلاول بھٹو کے ساتھ تصویر

بلاول کا ابتدائی طور پر والد سے اختلاف
بلاول کی پیدائش کے آس پاس پاکستان میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز ہوا۔ ان کی پیدائش سے ایک ماہ قبل ضیا الحق، جو ان کے نانا اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کرنے اور پھانسی دینے کے ذمہ دار تھے اور جن کے دور اقتدار میں بھٹو خاندان، جمہوریت اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو پابندیاں اور سختیاں سہنی پڑیں، ایک طیارہ حادثے میں مارے گئے۔

ایک طویل سیاسی جدوجہد کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی دوبارہ حکومت میں آئی اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی ہوئی۔ تین ماہ کے بلاول اپنی والدہ کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد منتقل ہوئے جہاں انھوں نے اپنا ابتدائی بچپن گزارا۔

1988 سے 1996 تک بے نظیر دو بار حکومت میں آئیں لیکن پھر نکالی گئیں۔ ایک حکمران سیاسی خانوادے میں پیدا ہونے کے باوجود بلاول کے حصے میں بھی بچپن سے کئی چیلنجز آئے جن کا سامنا عام طور پر جنوبی ایشیائی خطے کی خونی اور انتقامی سیاست میں حصہ لینے والوں کو کرنا پڑتا ہے۔

ان کا بیشتر بچپن اپنے والد سے جدائی میں گزرا۔ آصف علی زرداری 1996 میں بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد گرفتار ہوئے اور آٹھ سال بدعنوانی کے الزامات پر سلاخوں کے پیچھے رہے۔

’میں نے بہت سی چیزوں کا سامنا کیا، اور وہ ( والد) میرے ساتھ نہیں تھے۔ اس وقت جب ہمیں ان کی ضرورت تھی، ان کا ساتھ چھین لیا گیا۔ ہمیں نارمل زندگی سے محروم کیا گیا۔‘ یہ الفاظ بلاول بھٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہے تھے۔

اپریل 1999 میں جب بے نظیر بھٹو اپنے سیاسی مخالف نواز شریف، جو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم تھے، کی انتقامی سیاست کی وجہ سے خود ساختہ جلاوطنی پر بیرون ملک گئیں تو بلاول بھی ان کے ساتھ تھے۔

بلاول کا بچپن اور نوعمری کے سال دبئی اور لندن میں گزرے۔ انھوں نے سنہ 2012 میں آکسفرڈ یونیورسٹی کے کرائسٹ چرچ کالج سے ماڈرن ہسٹری اور پالٹیکس میں گریجویشن کیا۔

لیکن اپنی تعلیم مکمل کرنے سے کئی سال پہلے، ان کی زندگی 2007 میں اس وقت بدل گئی جب ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں ایک عوامی ریلی کی قیادت کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔

بلاول کو ہمیشہ سے ہی بے نظیر کا سیاسی جانشین سمجھا جاتا تھا لیکن کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ صرف 19 سال کی عمر میں انھیں بھٹو خاندان کی سیاسی میراث کا بوجھ اٹھانا پڑے گا اور پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی باگ ڈور سنبھالنی پڑے گی۔

بے نظیر کی موت کے فوراً بعد انھیں پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ ابتدائی طور پر، انھوں نے ایک رسمی سربراہ کے طور پر کام کیا اور لندن میں اپنی تعلیم مکمل کی جبکہ ان کے والد آصف علی زرداری سیاسی معاملات کو دیکھتے رہے۔

ذوالفقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں سیاسیات کے ڈین ڈاکٹر ریاض شیخ کے مطابق بلاول کے ابتدائی طور پر پارٹی امور چلانے پر اپنے والد سے اختلافات تھے۔

’بلاول کو (اردو) زبان اور ثقافت کی بہت زیادہ سمجھ نہیں تھی، انھوں نے اپنا زیادہ تر وقت اپنی والدہ کے ساتھ خود ساختہ جلاوطنی میں گزارا تھا، اس لیے وہ اپنے نانا کے برعکس اس ماحول سے پیوستہ نہیں تھے جہاں انھیں قیادت سنبھالنی تھی۔ آصف علی زرداری ایک محتاط سیاستدان ہیں، ان کے برعکس نوجوان بلاول اپنی شخصیت دکھانا چاہتے تھے، وہ چیزوں پر سٹینڈ لینا چاہتے تھے اور ہمت سے قیادت کرنا چاہتے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’2007 کے ماحول میں اس کا مطلب ان کی سکیورٹی پر سمجھوتہ کرنا تھا، ایسا خطرہ جو آصف زرداری لینا نہیں چاہتے تھے۔‘

2007 میں پاکستان عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے حملوں سے دوچار تھا۔ ریاض شیخ نے مزید کہا کہ زرداری نے بلاول کو اس لیے بیرون ملک بھیجا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ بلاول محفوظ رہیں لیکن وہ اپنے مفاہمتی نقطہ نظر سے پاکستان کے منقسم سیاسی منظرنامے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے ایک جگہ بھی بنانا چاہتے تھے اور یہ نہیں چاہتے تھے کہ بلاول کا جارحانہ انداز رکاوٹ بنے۔

سیاست میں حادثاتی انٹری
2012 میں بلاول نے باضابطہ طور پر سیاست کا آغاز کیا اور 2013 کے انتخابات کی مہم کی قیادت کی لیکن ابھی ان کی عمر اتنی نہیں ہوئی تھی کہ وہ الیکشن لڑ سکیں۔

پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینے کی قانونی عمر 25 سال ہے۔ سو 2018 میں وہ پہلی بار پارلیمنٹ کے رکن بنے۔

بلاول نے سنہ 2018 میں ٹھٹھہ میں اپنی انتخابی مہم کے دوران خبر رساں ادارے روئٹرز کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’میری والدہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ میں نے یہ (سیاسی) زندگی نہیں چنی۔ اس نے مجھے چنا۔ مجھے لگتا ہے یہ (فقرہ) مجھ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔‘

صحافی فیاض نائچ کئی دہائیوں سے پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست پر نظر رکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کئی حوالوں سے بلاول اور ان کی والدہ بےبظیر بھٹو کے سیاسی کیریئرز میں مماثلت ہے جبکہ کچھ لحاظ سے یہ مختلف بھی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بلاول اور متحرمہ بے نظیر بھٹو دونوں حادثاتی طور پر سیاست میں شامل ہوئے۔ بی بی اپنے والد جبکہ بلاول اپنی ماں کو کھونے کے بعد لیکن بلاول اس لحاظ سے بہتر رہے کہ ان کے سیاست میں حصہ لیتے ہی ان کی پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی، اس کے برعکس محترمہ کو کئی سال صعوبتیں حتیٰ کے قید و بند بھی جھیلنا پڑیں۔‘

2018 میں بلاول نے پہلی بار الیکشن لڑا اور پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر میں عمران خان کے لیے ’سلیکٹڈ وزیراعظم‘ کی اصطلاح استعمال کی جو فوج کی جانب سے عمران خان کی کھلی اور خفیہ مدد کی طرف اشارہ تھا۔

اس اصطلاح کو خاص طور پر عمران خان کے مخالفین میں کافی مقبولیت ملی۔

2019 میں بلاول قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین بنے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے پرانے کارکن رب نواز بلوچ کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کے بارے میں بلاول کا مؤقف ان کی اور ان کی پارٹی کی سیاست کی بنیاد ہے۔

’وہ خواتین مذہبی اقلیتوں اور ٹرانس جینڈر کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ آزادی اظہار کی حمایت کرتے ہیں اور شدت پسندی کے خلاف کھل کے بات کرتے ہیں۔ یہی باتیں انھیں نوجوانوں میں مقبول کرتی ہیں۔‘

کم تجربے والے غیر روایتی وزیر خارجہ
2022 میں عمران حکومت کے خاتمے کے بعد 33 سالہ بلاول بھٹو پاکستان کے سب سے کم عمر وزیر خارجہ بنے، جو ان کا پہلا سرکاری عہدہ ہے۔

عہدہ سنھبالنے کے بعد سے وہ درجنوں غیر ملکی دورے کرچکے ہیں جن میں انھوں نے دوطرفہ اور کثیر الاجہتی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔

ان کی مخالف پاکستان تحریک انصاف ان کے دوروں کو قومی خزانے کا ضیاع قرار دیتی ہے اور الزام لگاتی ہے کہ ان دوروں سے نہ تو کسی ملک سے تعلقات میں بہتری ہوئی ہے اور نہ ہی پاکستان کا کوئی فائدہ لیکن کچھ حلقوں میں ان کی کارکردگی کو سراہا بھی گیا۔

لوگ ان کی فصاحت اور خوش گفتاری کا موازانہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو سے کرتے ہیں۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز وزیر خارجہ کی حثیت سے کیا تھا تاہم کئی مبصرین سمجھتے ہیں ابھی یہ موازنہ مناسب نہیں۔

تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق بلاول کے پاس ابھی وہ سیاسی استدلال اور سفارتی ہوشیاری نہیں، جو ان کے نانا کا طرہ امتیاز تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بلاول کی ناتجربہ کاری کی جھلک ان کی کاکردگی میں دکھائی دیتی ہے۔ ان کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ صرف وزیر خارجہ نہیں بلکہ ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ خارجہ پالیسی کے معاملات پر اس طرح سے توجہ نہیں دے پا رہے جس طرح انھیں دینی چاہیے۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جب پاکستان سفارتی اور سیاسی محاذ پر کئی پیچیدہ بحرانوں سے نمٹ رہا ہے۔‘

بلاول بھٹو پر ایک تنقید یہ بھی ہوئی کہ ان کی زیادہ تر سفارت کاری امریکہ تک محدود رہی اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ بلاول نے امریکہ کے تو کئی دورے کیے لیکن افغانستان جو پاکستان کی سلامتی کے لیے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے اسے زیادہ توجہ نہیں دی۔

پر کئی مبصرین اس رائے سے متفق نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بلاول نے عالمی سطح پر پاکستان کا نقطۂ نظر اور مقدمہ بھر پور انداز میں پیش کیا۔ خاص طور پر گذشتہ سال سیلاب کی تباہ کاریوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کے حوالے سے ان کے سفارتی جوہر قابل تعریف رہے۔

روایتی وزرائے خارجہ کے مقابلے میں ان کی کم عمری جہاں کچھ لوگوں کے لیے ناتجربہ کاری کی صورت میں ان کی کمزوری ہے وہیں بلاول پاکستان کی اکثریتی نوجوان آبادی کا چہرہ بھی ہیں۔ نوجوان جو روایتی سانچوں کو توڑ کر پاکستان کی نئی تصویر بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نسبتاً کم نپے تلے اور جذباتی انداز کو کچھ حلقوں میں پذیرائی بھی ملی ہے۔

بلاول بھٹو

2012 میں بلاول بھٹو کی اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری

جب بلاول نے مودی کا موازنہ ’اسامہ بن لادن‘ سے کیا
بلاول بھٹو چار مئی (آج) کو انڈیا کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔ یہ ہمسایہ ملک کا ان کا دوسرا دورہ ہو گا۔

اس سے پہلے سنہ 2012 میں وہ اپنے والد اور اس وقت پاکستان کے صدر آصف علی زداری کے ساتھ انڈیا گئے تھے۔

انھوں نے اجمیر شریف درگار پر حاضری دی تھی اور اس وقت کے انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ اور کانگرس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی سے ملاقات بھی کی تھی۔

اس دوران انھوں نے سلسلہ وار ٹویٹس میں بہت کھل کر انڈیا کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔

ایک ٹویٹ میں اپنی والدہ کے ایک اقتباس کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بے نظیر کہتی تھیں کہ ہر پاکستانی میں تھوڑا سا انڈیا اور ہر انڈین میں تھوڑا سا پاکستانی ہوتا ہے۔‘
https://www.bbc.com/urdu/articles/c0jpg59vd2ko
=======================================================