میاں صاحب ، اپنی جماعت ، مولانا کی جھولی میں مت ڈالیں ۔


سیاست میں اندھی تقلید اور پیروی کی گنجائش نہیں ہوتی ، اپنے ووٹرز اور کارکنوں کی مرضی و منشا اور شناخت کو ترجیح دیں ۔

محافظوں اور منصفوں کے لبادے میں چھپی ہوئی کالی بھیڑوں نے جب سے آپ نے نقاب خودنوشت پھینکے ہیں وہ بھیڑیئے بن کر عوام کے سامنے ننگے ہو چکے ہیں ان کے ہوس پرست چہروں کا مکروہ پن ، اقتدار پر کمزور پڑتی ان کی گرفت کا خوف ، عوام کے سامنے ان کے اصل بونے کا قد کو آشکار کر چکا ہے ۔
اب آپ نے ، دہائیوں سے غیر آئینی غیر قانونی کام کرنے والے ان آئین اور قانون شکنوں کی گرتی ہوئی دیواروں کو عوام کے ساتھ مل کر بس ایک کندھا اور دینا ہے پھر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کی منزل ، پاکستانیوں کو صاف دکھائی دینے لگے گی ۔
یہ کام کوئی اور نہیں کر سکا ۔۔۔۔۔۔ میاں صاحب یہ کام آپ کے ہاتھوں ہی ہونا ہے آپ نے شہید رانی بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے آئین اور جمہوریت دشمنوں کے سینے میں خنجر تو پیوست کر دیا تھا لیکن ان کا سر کچلا جانے سے پہلے ان زخمی سانپوں نے پہلے بی بی کو راستے سے ہٹا دیا اور پھر یہ لوگ آپ کی جان کے درپے ہوگئے ۔
لیکن مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے ۔اللہ نے آپ کو زندگی دی اور جیل میں زہر دے کر قتل کرنے کی سازش کامیاب نہیں ہوسکی ۔
اب آنے والا وقت آپ کے فیصلوں کی راہ تک رہا ہے ۔
آپ کی مرضی اور خواہش کے برعکس بہت سے ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑے ۔باجوہ کی ایکسٹینشن سے لے کر شہباز حکومت کا جلد اسمبلیاں تحلیل نہ کرنا ۔ان میں سے نمایاں فیصلے ہیں ۔اور سیاسی قیمت سب سے زیادہ مسلم لیگ نون کو ادا کرنی پڑی وہ بھی سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ۔
اب آپ اپنی جماعت کو مولانا کی جھولی میں مت ڈالیں ۔سیاست میں اندھی تقلید اور پیروی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔
مولانا کی نیت اور انداز سیاست پر کوئی بداعتمادی کی بات نہیں لیکن اپنی جماعت کی خود مختار حیثیت اور اپنے ووٹرز اور کارکنوں کی مرضی اور منشا اور شناخت کو ترجیح دینی چاہیے ۔
==================================