اور وہ بولا، نہ اس نے ہمت دکھائی ۔

سندھ کا ایک ذہین اور قابل چیف سیکرٹری ، ‘ یس مین ‘ بن کر ضائع ہو گیا ۔ صوبے اور عوام کی ترقی و خدمت کو ترجیح دینے کی بجائے اس نے کرسی سے محبت نبھائی۔ ایک سال کا عرصہ گزر گیا ، اب تو چند ہفتوں کا مہمان لگتا ہے ۔
وہ چاہتا تو تاریخ میں امر ہو سکتا تھا ۔
لیکن اس نے قدرت کی جانب سے ملنے والا سنہری موقع ضائع کر دیا ، اپنے اختیارات کو عوام اور صوبے کی بہتری کے لیے استعمال کرنے کی بجائے طاقتور آقاؤں کے سامنے سرنگوں کردیا ۔
وہ ایک شاندار کیریئر کے ساتھ یہاں تک پہنچا تھا لیکن اس کی تعریفیں کرنے والوں کو نہیں پتا تھا کہ وہ یہاں آنے کے بعد کرسی چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہوکر ایک مزارعہ بن کر رہ جائے گا ۔
نہ کچھ بولے گا ، نہ آواز بلند کرے گا ،
اس کے سامنے قانون شکنی ہوتی رہی ، غریبوں کی غربت کا مذاق اڑایا جاتا رہا ،
کمزوروں کے ساتھ حق تلفی اور نا انصافی ہوتی رہی ،
ایمان داروں سے عہدے چھنتے رہے ،
لیکن وہ خاموش تماشائی بنا رہا ۔


اس کی ناک کے نیچے کرپشن کی گنگا بہتی رہی ، قانون اور قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں، عدالتی احکامات کی خلاف ورزی ہوتی رہیں، یتیموں اور بیواؤں کی زمینوں پر قبضہ ہوتے رہے ، غریبوں کی جھونپڑیاں جلدی اور مکانات منہدم ہوتے رہے ، ڈاکو سرعام وارداتیں کرتے رہے ، قوم کی بہن بیٹیاں ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹتی رہیں ، اسٹریٹ کرمنلز کی گولیوں کا نشانہ بننے والے قوم کے بیٹے سڑکوں پر تڑپتے رہے ،
لیکن وہ چپ رہا ، بڑے ایوانوں میں بڑے اجلاسوں میں اس نے خاموشی سے نہیں توڑی ، ذہنی غلامی کی زنجیریں پہنے کرسی سے چمٹا رہا ، لوگ ایک عرصے تک اسے شیر سمجھتے رہے لیکن اس کی ایک دھاڑ سننے کو ترستے رہے آخر وہ بکری کیوں بن گیا ؟


وہ صوبے کی سب سے طاقتور انتظامی کر سی پر بیٹھا رہا لیکن نہ صوبے میں کرپشن میں کمی آئی نہ کسی کرپٹ افسر اور ملازم پر اس کا کوئی خوف طاری ہوا ، کالی بھیڑیں اس کی آنکھوں کے سامنے خزانہ لوٹتی رہیں بلکہ بھیڑیا بن کر عوام کو نوچتی رہیں ، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا ۔


صوبے بھر کے مختلف محکموں ، اداروں شعبوں اور منصوبوں میں سفارشی نااہل الراشی افسران اور ملازمین اس کی چھاؤں میں پلتے رہے ، عدالتی احکامات کی واضح خلاف ورزی کر کے اہم عہدوں پر براجمان افسران اور ملازمین کے خلاف ایکشن لینے کے لئے اس کا قلم حرکت میں نہیں آیا ۔ میرٹ پر آگے بڑھنے اور محنت و ایمان داری سے اپنا کام کرنے والے افسران اور ملازمین کو اس کے رویے سے سخت مایوسی ہوئی جنہوں نے اس کے چیف سیکرٹری بننے پر اچھے نتائج کی امید لگائی تھی ان کے خواب چکنا چور ہوئے انہیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔


کرپشن بدعنوانی اختیارات کے ناجائز استعمال قانون شکنی سمیت مختلف معاملات پر اپوزیشن چیختی رہی لیکن یہ اعلی ترین افسر مختلف اجلاسوں میں حکومتی شخصیات اور وزیروں کی کارکردگی پر ناصر اطمینان کا اظہار کرتا رہا بلکہ اپنی مسکراہٹ سے سب اچھا ہے کی مہر لگا تا رہا ،
سندھ اسمبلی کا اجلاس ہو یا پریس کانفرنس ہو انٹرویوز یا بیانات ، ہر جگہ اپوزیشن رہنما بار بار سرکار کی توجہ اس جانب مبذول کراتے رہے کہ تھر میں بچے بھوک اور بیماریوں سے مر رہے ہیں حکومت نہ بچوں کو بچا رہی ہے نہ موروں کو،

صوبے کے گوداموں سے 6 ارب روپے کی گندم گم ہوگئی ، موٹروے کے فنڈز افسران کھا گئے ،گندم کی 16 لاکھ بوریاں غائب ہوگئیں، آٹا چینی سبزیاں انڈے مرغی گوشت پھل سمیت ہر چیز مہنگی بکتی رہی ناجائز منافع خوری ہوتی رہی ، لیکن یہ صاحب بہادر چپ رہے ۔
پولیس سڑکوں پر اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنے والے ٹیچرز ڈاکٹروں حتی کہ نابینا افراد پر لاٹھی چارج کرتی رہی لیکن یہ صاحب کچھ نہیں بولے ،
پانچ سال سے بارہ سال تک کے بچوں کو مفت پڑھانا تھا لیکن ساٹھ لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور یہ صاحب صوبے میں سب اچھا ہے کی رپورٹ اوپر بھیج رہے ہیں ۔
ڈاکو دن دھاڑے لوگوں کو اغوا کرتے ہیں پولیس سے مذاکرات کرتی ہے شہر میں اسٹریٹ کرائم کا جن بے قابو ہے سیف سٹی پروجیکٹ کے اربوں روپے کے فنڈز کہاں گئے ؟
یہ صاحب کچھ نہیں بولے ،

(جاری ہے )

====================================