یونیورسٹیز میں اچھے وائس چانسلرز کہاں سے لائیں ؟ تدریسی و انتظامی اور مالی تجربہ کیسے یکجا ہو سکتا ہے ؟ کیا وائس چانسلرز سے وابستہ کی جانے والی توقعات غیر منصفانہ ہیں ؟ کرسی پر ہر کوئی بیٹھنا چاہتا ہے لیکن مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ؟ طاقتور شخصیات یونیورسٹی کے معاملات کو اپنے سیاسی حلقے کے طور پر چلانا چاہتی ہیں ،

یونیورسٹیز میں اچھے وائس چانسلرز کہاں سے لائیں ؟ تدریسی و انتظامی اور مالی تجربہ کیسے یکجا ہو سکتا ہے ؟ کیا وائس چانسلرز سے وابستہ کی جانے والی توقعات غیر منصفانہ ہیں ؟ کرسی پر ہر کوئی بیٹھنا چاہتا ہے لیکن مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ؟ طاقتور شخصیات یونیورسٹی کے معاملات کو اپنے سیاسی حلقے کے طور پر چلانا چاہتی ہیں ، یونیورسٹیز کے معاملات میں بیرونی مداخلت اور دباؤ بڑا مسئلہ ہے اس مداخلت


اور دباؤ کے سامنے جو وائس چانسلر ڈاکٹر جائے وہ یونیورسٹی کے ٹیچرز اور اسٹوڈنٹ کی نظر میں ہیرو تو بن جاتا ہے لیکن اس پر طرح طرح کے الزامات اور میڈیا ٹرائل شروع کر دیا جاتا ہے کردار کشی اور سوشل میڈیا پر لعن طعن کا نیا ٹرینڈ شروع ہو گیا ہے ، ان حالات میں کون شریف آدمی وائس چانسلر بننا یا رہنا چاہے گا ؟ اب تو اکثریت ان کی ہوگی جن کا کوئی ذاتی ایجنڈا ہوگا یاجنہیں کرسی کی طاقت کا نشہ چاہیے ، معاملات کو اللہ واسطے سدھارنے والے کم لوگ ہیں ان کو ڈھونڈا کہاں سے جائےاور جو ہیں ان کی قدر کیسے کی جائے ؟ یونیورسٹیز کو نہ سنبھالا جا سکا تو ملک کی باگ ڈور

سنبھالنے والے نوجوان بگڑ جائیں گے اور آنے والے وقت میں صرف تباہی کے مناظر ہونگے ۔ ویسے وہ مناظر زیادہ دور بھی نہیں۔ جھلکیاں تو آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔

=======================
اردو یونیورسٹی،وفاق نے VC کے اختیارات محدود، کمیٹی نے فرائض انجام دینے کا کہا

کراچی( سید محمد عسکری)وفاقی اردو یونیورسٹی میں دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی، مستقل وی سی کا تقرر التوا کا شکار،اور یونیورسٹی گزشتہ کئی ماہ سے مستقل وائس چانسلر سے محروم ہے ۔ تلاش کمیٹی بھی غیرفعال،سینیٹ میں ڈپٹی چیئر سیٹ اور 16 اراکین کی تقرری بھی زیر التواء ہے، سینیٹ ارکان کی نامزدگیاں بھی مسترد، 2013 اور 2017 کے سلیکشن بورڈ کی کارروائی غیرشفاف، سابق رجسٹرار صارم کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے گریزاں ہیں،موجودہ خاتون رجسٹرار زرینہ علی نے تقرری کے خطوط جاری کردیئے، تفصیلات کے مطابق وفاقی اردو یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاالدین کی مدت دو اپریل میں مکمل ہونے کے بعد ان کو مالی اورانتظامی معاملات سے روک دیا گیا ہے وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ ور تربیت کی ڈپٹی سیکرٹری رضیہ رمضان ڈوسا نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر ضیاء الدین کسی بھی طور پر انتظامی اور مالی اختیارات کا استعمال نہیں کر سکتے۔ 2 اپریل، 2023 کے بعد اس طرح کے اختیارات کا کوئی بھی استعمال غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔ واضح رہے اس وقت وفاقی اردو یونیورسٹی میں شدید مالی اور انتظامی بحران ہے اور یونیورسٹی گزشتہ کئی ماہ سے مستقل وائس چانسلر سے محروم ہے ۔ یونیورسٹی کی سینیٹ بھی نامکمل ہے وفاقی وزارت تعلیم نے اردو یونیورسٹی کی جانب سے بھیجے گئے سینیٹ کے اراکین کی نامزدگیاں بھی مسترد کردی ہیں جبکہ وفاقی اردو یونیورسٹی برائے آرٹس، سائنس اور ٹیکنالوجی کے سلیکشن بورڈ سے متعلق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پانچ رکنی تحقیقات کمیٹی نے 2013 اور 2017کے سلیکشن بورڈ کی کارروائی کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے سفارش کی تھی کہ اس کی توثیق نہ کی جائے کیونکہ ان بھرتیوں میں سنگین بے قاعدگیاں تھیں ایسے لوگوں کو بھی بھرتی کرلیا گیا تھا جنہوں نے درخواست نہیں دی تھی اور کئی امیدواروں کے نمبروں کو تبدیل کردیا گیا تھا جس میں مرکزی کردار سابق رجسٹرار صارم نے ادا کیا تھا اور وہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے کتراتے رہے جبکہ موجودہ خاتون رجسٹرار زرینہ علی نے اس سلیکشن بورڈ کی تقرری کے خطوط جاری کئے اور جامعہ کو مزید مالی بحران میں مبتلا کیا۔ دریں اثنا وزارت تعلیم کے زرائع کے مطابق وفاقی اردو یونیورسٹی میں قائم مقام وائس چانسلر کے تقرر کے لئے تین نام صدر مملکت کو بھیجے جارہے ہیں تاہم اگر این ای ڈی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی رضامند ہوگئے تو انہیں فوری طور پر اردو یونیورسٹی کا قائم مقام مقرر کردیا جائے گا کیونکہ سینیٹ ان کا نام پہلے ہی قائم مقام وی سی کے طور پر منظور کرچکی ہے۔وفاقی اردو یونیورسٹی کی ایمرجنسی کمیٹی نے پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو جامعہ میں مستقل شیخ الجامعہ کے تقرر تک بحیثیت قائم مقام شیخ الجامعہ اپنے فرائض انجام دینے کی منظوری دیدی ہے تاکہ جامعہ کی سینیٹ کا کورم برقرار رہے اور مستقل وائس چانسلر کے تقرر کیلئے قائم کی جانے والی تلاش کمیٹی کو فعال کیا جاسکے۔ ایمرجنسی کمیٹی کے اجلاس میں پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین، پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، واحد جواد پروفیسر ڈاکٹر خالد انیس اور قائم مقام رجسٹرار سیکرٹری ڈاکٹر زرین علی نے شرکت کی۔ قائم مقام وائس چانسلر نے اراکین کو آگاہ کیا کہ وفاقی اردو یونیورسٹی سینیٹ میں اراکین کی کل تعداد (17) ہے اور اس وقت سینیٹ میں چانسلر سمیت کل (9) اراکین موجود میں لہذا سینیٹ جامعہ اردو اس وقت اپنے کم ترین کورم (9) پر فعال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 17 فروری 2023 ء اور 18 مارچ 2023ء کو 2 بار سینیٹ اجلاس کورم مکمل نہ ہونے کے باعث موخر کر نا پڑا۔ سینیٹ اجلاس نہ ہونے کے سبب تلاش کمیٹی بھی فعال نہیں ہوسکی ہے اور جامعہ میں مستقل شیخ الجامعہ کا تقرر التواء کا شکار ہے۔ انہوں نے اراکین کو مزید آگاہ کیا کہ سینیٹ میں ڈپٹی چیئر سیٹ اور 16 اراکین سینیٹ کی تقرری ابھی تک التواء کا شکار ہے جس کے لئے جامعہ دسمبر 2022ء میں اپنی کارروائی مکمل کر کے چانسلر کو تقرری کے لئے خطوط ارسال کر چکی ہے۔ تا ہم وفاقی وزارت تعلیم میں دونوں معاملات التواء کا شکار ہیں۔
https://e.jang.com.pk/detail/422577

===========================


کہاں سےلاؤں دوسرا ڈاکٹر اجمل ساوند
=====
محمد خان ابڑو

ایک ایسا شخص سندھ میں قتل ہوگیا ہے جس کے قتل پر ہر آنکھ آشکبار ہے، میں نے چودھویں کے چاند کو بھی اس قتل پر ماتم کرتے دیکھا ہے۔اس شخص کا نام پروفیسر اجمل ساوند ہے اور یہ سکھر آئی بی اے کا پروفیسر تھا ، فرانس سے آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں پی ایچ ڈی کر کے آیا تھا،فرانس میں اسے ایک گھنٹے کے لیکچر کے 30ہزار روپے پاکستانی ملتے تھے لیکن وہ فرانس سے واپس آ گیا کہ میں اپنے لوگوں کو پڑھاؤں گا …لیکن آج اس کے اپنوں نےہی اسے خون میں نہلا دیا۔ دو قبائل کی جنگ میں سندھ کا سونا مٹی برد ہوگیا۔ڈاکٹر اجمل ساوند بیرون ملک رہتے ہوئے ٹھیک ٹھاک کما رہے تھے مگر پھر اچانک اپنےہم وطنوں کی خدمت کرنے کا جذبہ جاگا اور وہ پاکستان آگئے۔ فرانس سے وہ یہ امید لے کر واپس آئے کہ ‏اپنے لوگوں کو آرٹی فیشل انٹیلی جنس پڑھائوں گا اور انہیں دنیا کی رفتار کیساتھ چلنا سکھائوں گا۔چند روز قبل ڈاکٹر صاحب کشمور میں ایک قبائلی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے اور دن دہاڑے قتل کر دیئے گئے۔ نقصان یقینی طور پر ڈاکٹر اجمل کے گھر والوں کا ہوا مگر حقیقی نقصان تو سندھی قوم کا ہوا جس کے پاس ایسے لوگوں کی ہمیشہ کمی رہی ہے جو معاشرے کو کچھ دینا چاہتے ہوں، یہاں کا ذوالفقار علی بھٹو ہو یا ڈاکٹر اجمل سب اپنوں کی سازشوں کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

ڈاکٹر اجمل ساوند کو معلوم نہیں تھا کہ فرانس کی جوبڑی نوکری چھوڑ کر وہ اپنے ملک پاکستان آ رہے ہیں،وہاں ان کے اپنے بچے یتیم ہو جائینگے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں پی ایچ ڈی لوگ ویسے ہی کم ہیں،وہاں یہ شخص کمپیوٹر کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں پی ایچ ڈی تھا ، اور اس طرح کے صرف چند پی ایچ ڈی ڈاکٹرز پاکستان کے پاس تھے،ڈاکٹر اجمل ساوند انتہا درجے کے ذہین اور لائق پروفیسر تھے ان کو دن دہاڑے سڑک کنارے ان کی کار کو روک کر قتل کیا گیا جب وہ اپنے گھر جا رہے تھے ۔قتل کرنے والوں کا بس ایک ہی مقصد تھا کہ اس قبیلے / ذات کے کسی خاندان سے ان کی دشمنی تھی اور ان سے حساب لینا تھا تو بدلے میں ڈاکٹر اجمل کا خیال آیا کہ کیوں نہ ان جیسےبڑے آدمی کو قتل کیا جائے اور خون کی پیاس بجھائی جائےاور اس طرح ’’آدم خور‘‘ لوگوں نے ایک ایسا دیوتا ہڑپ کرلیا جوعلم کی روشنی کا چراغ لے کر اندھیرے ختم کرنے نکلا تھا ۔پروفیسر اجمل صاحب ایک زبردست استاد ،ایک اچھے انسان ،ملن سار ،ادب اور ثقافت سے ذوق رکھنے والے ،موسیقی کے شوقین ،تاریخ اور جغرافیہ کو پسند کرنے والے ، غریبوں اور مسکینوں کے ہمدرد تھے۔ فرانس میں پی ایچ ڈی phd کے دوران پاکستان کے اسٹوڈنٹس کو فرانس یا باہر کے ملکوں میں پڑھائی کے راستے بتاتے رہتے تھے، غیرت کے نام پر قتل ہونے والا ڈاکٹر اجمل بے گناہ تھا، جس کا سندرانی اور ساوند قبائل کے جھگڑے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا مگر ڈاکٹر ساوند کو قتل کرنے والوں نے صرف ڈاکٹر ساوند کا قتل نہیں کیا بلکہ پوری سندھی قوم کا قتل کیا ہے۔ میرا سوال تو اس عدالتی نظام سے ہے جہاں سے قاتل بری ہی نہیں ہوتے بلکہ با عزت بری ہوتے ہیں ،اندیشہ ہے کہ ساوند کا قاتل یا تو جرگے میں معافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا یا پھر عدالت سے، مگر ہم کب تک اس طرح کے قتل اپنی دھرتی پر ہوتے دیکھ کر خاموش رہیں گے ؟

ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا ، ایسی روایتوں کی حوصلہ شکنی ہوگی جس میں سڑکیں خونی تالاب کا منظر پیش کرتی ہوں، ہم تو انسان ہیں مگر یہ وحشت ہم پر کیوں طاری ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر اجمل کے قاتلوں کوگرفتار کر کے ایسی مثال بنائی جائے کہ پھر کوئی قبیلہ ایسی دشمنی نبھانے کی جرات نہ کرے، سندھ کے لوگ اگر آنے والی نسل کا مستقبل تابناک چاہتے ہیں تو پورا سندھ سندرانی قبائل کے دیہات کی طرف مارچ کر کے ان دونوں قبائل کے درمیان امن کروائے اور سندرانی قبیلے کے لوگوں سے اپیل ہے کہ ساوند کے قاتلوں کی گرفتاری میں مدد دیں تاکہ یہ قبائلی دشمنی ختم ہو سکے اور مزید خون خرابے سے بچا جا سکے، جس میں ساوند جیسے قیمتی ہیرےمٹی میں مل جاتے ہیں، تمام قوم پرستوں اور سندھ کے بااثر خیر خواہوں سے گزارش ہے کہ تمام قبائل میں جاری تصادم ختم کروانے کے لئے کوششیں کی جائیں اور اس میں جہاں تک ممکن ہے میں بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لئے حاضر ہوں گا۔

https://e.jang.com.pk/detail/422628
====================================