سنتا جا شرماتا جا ۔۔۔۔ ایک اور اہم ترین یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے کارنامے ، قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وہ کہانیاں رقم جا رہی ہیں کہ ان عہدوں پر آنے والے افراد سر پکڑ کر بیٹھے رہیں گے ۔


سنتا جا شرماتا جا ۔۔۔۔ ایک اور اہم ترین یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے کارنامے ، قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وہ کہانیاں رقم جا رہی ہیں کہ ان عہدوں پر آنے والے افراد سر پکڑ کر بیٹھے رہیں گے ۔
نوابشاہ میں قائد عوام یونیورسٹی آف انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے ڈاکٹر سلیم رضا سموں کے خلاف سوشل میڈیا پر چارج شیٹ کی جارہی ہے جس میں ان کے خلاف لگنے والے الزامات شکایات اور انکوائری کے حوالے سے مختلف نکات اٹھائے جا رہے ہیں اور ان کے اقدامات اور کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان پر قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیرنے اور مالی بدعنوانی سمیت مختلف قسم کے الزامات میں شدت کے ساتھ لگائے جا رہے ہیں یونیورسٹی کے ٹیچرز کی تنخواہوں کا معاملہ اللہ کے زیر بحث ہیں جس کی وجہ سے احتجاج بھی ہو رہا ہے اور یونیورسٹی کی بدنامی بھی ۔ سوشل میڈیا پر نواب شاہ ٹھیک ہے دیوانہ نیورسٹی اس پر ہاٹ ٹاپک ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن صوبائی حکومت کے متعلقہ حکام کو صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے ،
یونیورسٹی کے حوالے سے متنازع معاملات سامنے آنے پر سوشل میڈیا صارفین نے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے ہماری جامعات کے بارے میں اچھی خبریں آنے کی بجائے ہر تھوڑے دنوں بعد کوئی نیا تنازعہ سامنے آ جاتا ہے والدین اپنے بچوں کو جامعات میں کردار سازی کے لیے بھیجتے ہیں لیکن وہاں سے بھی کرپشن اور مالی بے قاعدگیوں بدعنوانیوں کی داستان سامنے آتی ہے ہائی اسکول میں پڑھائی تکلیف ہدہ بلکہ شرمناک ہے ۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی دستاویزات کے حوالے سے صارفین کا کہنا ہے کہ اسٹوڈنٹس جن اساتذہ کو اپنے لیے رول ماڈل سمجھتے ہیں اگر وہ ہی کرپشن میں ملوث نکلیں گے تو ان کا آئیڈیل ازم ٹوٹ جائے گا پھر وہ کس کو رول ماڈل بنائیں ۔

سابق وی سی کوئسٹ نوابشاہ سلیم رضا سمو زیر تفتیش
یونیورسٹی کے تمام فنڈز میں بڑے پیمانے پر کرپشن۔
=======================================

کرپشن عوام سے چوری ہے۔
سلیم رضا سمو سابق VC QUEST کو جوابدہ ٹھہرایا



سابق VC سلیم سمو اپنے ذاتی موب نمبر کے ساتھ جڑے ہوئے تمام بینک اکاؤنٹس اور اپنے لیے ایک مربوط اکاؤنٹ کو مائیکرو مینیج کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔



=====

میں نے مزدور کے ماتھے پہ پسینہ دیکھا
تُونے رشوت کی کمائی سے مدینہ دیکھا


===
سابق VC سلیم رضا سمو ایک لرننگ مینجمنٹ سسٹم تیار کرنے کے لیے HEC کی ہدایات کی عدم تعمیل کے ذمہ دار تھے جس کے لیے QUEST کو 27.762 ملین دیے گئے تھے۔



====

یہ بات سابق وائس چانسلر ریٹائرڈ پروفیسر سلیم رضا سمو نے کی ہے۔ اس طرح کے غلط کاموں نے کوئسٹ یونیورسٹی نواب شاہ کی مالی تباہی اور معاشی تباہی کا باعث بنا ہے۔



======
====================================
بہاولپور کی ایک طالبہ نے طب کی دنیا میں نہایت مؤثر قدم اٹھایا ہے، عدینا جمشید نے ملکی ترایخ میں پہلی بار ایسا کپڑا تیار کیا ہے جسے پہننے سے بچے بیماریوں محفوظ رہ سکیں گے۔

بہاولپور کی عدینا جمشید نے بڑا کارنامہ انجام دے کر بچوں کو بیماریوں سے دور رکھنے کی والدین کی بڑی مشکل آسان کردی ہے، عدینا جمشید نے جراثم کش کپڑا تیار کیا ہے جو یقینی طور پر طب کی دنیا میں انتہائی اہم اور موثر اقدام ہے۔

اے آر وائی نیوز کے پروگرام شام رمضان میں بحیثیت مہمان انہیں مدعو کیا گیا جس میں انہوں نے اپنی ایجاد اور اس کی افادیت کے بارے میں ناظرین کو تفصیل سے آگاہ کیا۔

عدینا جمشید نے بتایا کہ میں نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کی طالبہ ہوں اور میری پیدائش اور رہائش بہاولپور میں ہے،

انہوں نے کہا کہ جو اینٹی مائیکروبیل فیبرک تیار کیا گیا ہے یہ پھول جیسے نازک بچوں کو جراثیم سے محفوظ رکھے گا کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اسپتالوں کی حالت بہت بری ہوتی ہے، وہاں جراثیم

ان کا کہنا تھا کہ یہ کپڑا ہر موسم میں پہنا جاسکتا ہے اور یہ کپڑا کورونا وائرس سے بھی چھوٹے سائز سے وائرس سے بھی محفوظ رکھ سکتا ہے، اس کو دھونے سے بھی اس کی افادیت میں کوئی کمی نہیں آتی اور 6سے 8 ماہ تک باآسانی اسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
==================
بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ کا احتجاج جاری

کراچی( اسٹاف رپورٹر) جوائنٹ ایکشن کمیٹی جامعہ بلوچستان کے زیر اہتمام 14اپریل بروز جمعہ مبارک بھی پچھلے تین مہینوں کی تنخواہوں کی تاحال عدم ادائیگی، جامعہ بلوچستان سمیت دیگر جامعات کو درپیش سخت مالی و انتظامی بحران کی مستقل حل، بلوچستان یونیورسٹیز ایکٹ 2022 کی پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ، آفیسران، ملازمین اور طلباء وطالبات کی منتخب نمائندگی، غیر قانونی طور پر مسلط وائس چانسلر کی برطرفی ، آفیسران و ملازمین کی پروموشن، آپ گریڈیشن اور ٹائم سکیل کی فراہمی کے لئے جامعہ بلوچستان میں مکمل تالا بندی اور امتحانات و ٹرانسپورٹ بند رہے اور وائس چانسلر سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا ھوا۔
==========================
جعلی ڈگری کیس، شعیب شیخ وغیرہ کی اپیلوں کی سماعت 12مئی تک ملتوی

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس میں شعیب شیخ وغیرہ کی اپیلوں کی سماعت 12 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ حکم کی روشنی میں دائر متفرق درخواست پر نوٹس جاری کر کے ایف آئی اے سے جواب طلب کر لیا۔ جمعہ کو سماعت کے دوران شعیب شیخ کی جانب سے صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری اور لطیف کھوسہ کے علاوہ دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے اور شعیب شیخ کی ایک روزہ حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جس میں ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ بھی لگایا گیا۔ عدالت نے طبی وجوہات کی بناء پر شعیب شیخ کی حاضری سے ایک روزہ استثنیٰ کی درخواست منظور کر لی۔ دوران سماعت شعیب شیخ کے وکیل نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے کہا کہ اسی نوعیت کے کیس میں سندھ ہائیکورٹ نے بری کر دیا ہے۔ ایک ہی جیسے الزامات پر دو مرتبہ ٹرائل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ عدالت بھی اپیل منظور کر کے اسلام آباد کی عدالت سے 2018 میں سنائی گئی سزا کالعدم قرار دے۔ عدالت نے متفرق درخواست پر جواب کیلئے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہاکہ ایف آئی اے بتائے کہ سندھ ہائی کورٹ سے بریت کے بعد اس کیس پر کیا اثر پڑے۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت 12 مئی تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ 5 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چوہدری ممتاز حسین نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری کیس میں شعیب شیخ سمیت 23 ملزمان کو مجموعی طور پر 20، 20 سال قید اور 13، 13 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ شعیب شیخ اور دو دیگر ملزمان نے سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔
===========================

جامعہ پشاور میں اساتذہ کی جانب سے کلاسز کے بائیکاٹ کو ایک ماہ مکمل ہونے پر وائس چانسلر نے ریٹائرڈ اساتذہ، سابق طلبہ اور پی ایچ ڈی سکالرز کے ذریعے آج سے 16 شعبہ جات میں کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن ہڑتال کرنے والے اساتذہ کی انجمن نے اس عمل کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ہڑتال نہ کرنے والے اساتذہ کے ساتھ بدھ کو ایک اجلاس میں دور دراز علاقوں کے طلبہ کے لیے صرف ماہ رمضان میں آن لائن کلاسز شروع کرنے کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔

چار اپریل کو جامعہ پشاور کے وائس چانسلر (وی سی) ڈاکٹر محمد ادریس نے کہا تھا کہ اساتذہ اور دیگر ملازمین کا احتجاج مزید جاری رہنے کی صورت میں ریٹائرڈ اساتذہ، پشاور یونیورسٹی کے سابق طلبہ اور پی ایچ ڈی سکالرز سے رضاکارانہ تدریسی خدمات حاصل کی جائیں گی۔

اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پانچ اپریل کو پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ کی انجمن (پیوٹا) کے ترجمان ڈاکٹر محمد عزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ ’ایسا ہونا ناممکن ہے اور وہ اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’اسی لیے تو ہم کہتے ہیں کہ اس وی سی کو ہٹائیں۔ ان کو یہ بھی نہیں معلوم کہ جب مستقل ملازمین باہر احتجاج پر ہیں، آپ کیسے کسی اور کو ان کی جگہ لا سکتے ہیں۔ ایسا ناممکن ہے اور میں اس اقدام کو چیلنج کرتا ہوں۔‘

ترجمان پیوٹا نے کہا کہ دراصل وی سی کے اس قسم کے بیانات کا مقصد لوگوں کو گمراہ کرنا، غلطی فہمی پیدا کرنا اور ملازمین پر دباؤ بڑھانا ہے۔

’ہم اساتذہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر موجودہ وائس چانسلر اتنے فعال ہیں تو پھر کیوں یونیورسٹی اس حال پر پہنچی۔ کیوں 20، 25 ہڑتالیں ان کے خلاف صرف طلبہ کی جانب سے ہوئیں۔‘

انہوں نے کلاسز بائیکاٹ کے حوالے سے کہا کہ اساتذہ نہیں چاہتے کہ طلبہ کا قیمتی وقت ضائع ہو، تاہم انہوں نے کہا کہ جب کلاسز بحال ہوجائیں گی تو وہ اضافی کلاس لے کر اس کمی کو پورا کر دیں گے۔

ڈاکٹر عزیر نے کہا کہ ہڑتال کرنے والے اساتذہ کسی بھی قیمت پر وائس چانسلر کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے کیوں کہ انہیں وی سی کی کسی بات پر اعتبار نہیں ہے۔

’اس سے پہلے بھی کئی معاملات پر وی سی کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں لیکن کبھی بھی انہوں نے اپنے دعوے اور وعدے پورے نہیں کیے۔ پشاور یونیورسٹی کی تاریخ میں وہ پہلے وی سی ہوں گے جن کو یونیورسٹی ملازمین کے احتجاج کے نتیجے میں ہٹایا جائے گا۔‘

وائس چانسلر کا موقف

اساتذہ کے ردعمل کا جواب دیتے ہوئے وائس چانسلر نے کہا کہ یونیورسٹی میں رضاکارانہ تدریسی خدمات دینے والوں کو ایک باقاعدہ طریقہ کار سے لایا جا رہا ہے اور معیاری تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

’جو ہڑتال کرنے والے اساتذہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے، ہم انہیں ایسا کرکے دکھا دیں گے کیوں کہ یہ مزید قابل برداشت نہیں ہے کہ طلبہ کا وقت ضائع ہو باوجود اس کے کہ ہم ان سے اتنی بڑی فیس لیتے ہیں اور زیادہ تر کا تعلق متوسط طبقے سے ہے۔‘

University of Peshawar.jpg
تصویر: پشاور یونی ورسٹی

وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ ہڑتالی اساتذہ کی یہ بات بھی درست نہیں کہ یونیورسٹی کے حالات انہوں نے خراب کیے ہیں۔

’مجھے حیرت ہو رہی ہے کیوں کہ جب میں 2020 میں آیا تو اس وقت بھی یونیورسٹی میں احتجاج اور بائیکاٹ چل رہا تھا۔ یونیورسٹی کے پاس اس وقت تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں تھے۔ یونیورسٹی پر 769 ملین کا قرضہ تھا۔ میں نے جو اقدامات اٹھائے اس کی بدولت یونیورسٹی اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی۔ نتیجتاً اچھی پرفارمنس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت نے ہمیں گرانٹس دیں۔‘

وائس چانسلر ڈاکٹر ادریس نے کہا کہ وہ ایک باقاعدہ طریقہ کار سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے ہیں، لہذا چند اساتذہ احتجاج کرکے انہیں نہیں ہٹا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہڑتالی اساتذہ کے الزامات اور مطالبات کے نتیجے میں انہوں نے 169 صفحات پر مشتمل جواب لکھا ہے، جس کی گورنر نے توثیق کی ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ادریس نے گذشتہ روز ایک ہنگامی اجلاس طلب کرکے 16 شعبہ جات کے چیئر پرسنز سے ملاقات کی اور آج (چھ اپریل) سے کلاسز شروع کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔

چیئر پرسنز نے دوران ہڑتال اپنے متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کی صورت حال بیان کی اور اس بات پر متفق ہوئے کہ اگر ہڑتال مزید طوالت اختیار کرگئی تو طلبہ کا ایک سیمسٹر ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔

احتجاج کی وجہ کیا ہے؟

پانچ مارچ کو پشاور یونیورسٹی میں سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں سکیورٹی ایڈوائزر ثقلین بنگش کے قتل کا واقعہ پیش آیا تھا، جس کے اگلے دن پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے چھ مارچ سے کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے ملازمین پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر محمد ادریس کو عہدے سے ہٹانے مطالبہ کر رہے ہیں۔

اساتذہ کی انجمن کا موقف ہے کہ پروفیسر کے قتل کے بعد انہوں نے پشاور یونیورسٹی میں ملازمت پر مامور گارڈز کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے وائس چانسلر سے پرائیویٹ کمپنی ’سگما‘ کے گارڈز ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم ان کی بات کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اساتذہ سمیت وائس چانسلر سے اس معاملے پر ان کا موقف لیا تھا۔ وائس چانسلر کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ان کی ملاقات ہو گئی تھی اور متفقہ طور پر ایک اعلامیہ جاری کیا گیا کہ نجی کمپنی کے سکیورٹی گارڈز ہٹا کر پشاور یونیورسٹی خود نئے گارڈ رکھنے کی مجاز ہوگی۔

21 دن بعد جب انڈپینڈنٹ اردو نے اساتذہ کی انجمن کے صدر سے بات کی کہ احتجاج کیوں طول پکڑ گیا تو انہوں نے بتایا تھا کہ ’کوئی میٹنگ ہوئی نہ مذاکرات، تین ہفتوں کے دوران وائس چانسلر نے ہمیں نظرانداز کیا، اب میٹنگ کے لیے بلایا ہے تو ہم نے انکار کر دیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارا پہلا مطالبہ ہے وی سی کو ہٹایا جائے۔ دوسرا مطالبہ ہے کہ نجی کمپنی سگما سے معاہدہ ختم کرکے اس کی انکوائری کی جائے کہ یہ کون چلا رہا ہے۔ ہمیں شک ہے کہ اس کمپنی کے ساتھ اندر کے لوگ ملے ہوئے ہیں۔ تیسرا مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی کو اسلحے سے پاک کیا جائے۔‘
====================