جامعات اور بورڈز میں وزیراعلی کا اپنے کلاس فیلوز پر نوازشات کا سلسلہ جاری ، زمینی حقائق وزیراعلی کو پیش کی جانے والی رپورٹوں سے بالکل مختلف ہیں ۔ ملازمین کا احتجاج بڑھ رہا ہے صوبائی وزیر بے بسی کی تصویر ۔

سندھ میں اعلی تعلیم سے متعلق اہم عہدوں پر من پسند شخصیات کی تعیناتی اور انہیں عہدے کی مدت مکمل ہونے یا ریٹائرمنٹ کے باوجود برقرار رکھنے کے حوالے سے وزیر اعلی کی اپنے دوستوں اور کلاس فیلوز پر نوازشات کا سلسلہ جاری ہے اور متعلقہ حکام کو ان شخصیات کے بارے میں آنکھیں اور زبان بند رکھنے میں ہی اپنی عافیت معلوم ہوتی ہے اس لیے وہ دفاتر خاموش ہیں جہاں سے آواز اٹھائی جانی چاہیے ۔
تفصیلات کے مطابق ٹیکنیکل بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر مسرور شیخ کی مدت دو سال پہلے مکمل ہوچکی ہے وہ ایک ریٹائرڈ شخصیت ہیں لیکن انہیں بورڈ میں سیاہ اور سفید کا مالک بنا کر بٹھایا گیا ہے کیونکہ ان کی وزیراعلی سے پرانی دوستی ہے ۔ صوبائی حکومت کے متعلقہ حکام کو ٹیکنیکل بورڈ کے معاملات میں ٹانگ اڑانے یا کسی بھی قسم کی باز پرس سے اجتناب برتنے کے زبانی احکامات ہیں لہذا ٹیکنیکل بورڈ میں کیا ہو رہا ہے کوئی اس طرف رخ نہیں کرتا ۔ سندھ کے مختلف شہروں میں بورڈ ز میں کرپشن کی شکایات عام ہیں بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آ چکے ہیں لیکن زیادہ تر بورڈز میں پچھلے کئی برسوں سے سیکرٹری ناظم امتحانات اور آڈٹ آفیسر کی اسامیاں خالی رکھی گئی ہیں اور وہاں جان بوجھ کر تعیناتی نہیں کی گئی اور ایڈہاک بنیاد پر نچلے ملازمین کو اضافی چارج دے کر کام چلایا جا رہا ہے جس کا مطلب کرپشن کی اجازت دینا یا بدعنوانیوں سے منہ موڑ لینا قرار دیا جاتا ہے سندھ کے 8 تعلیمی بورڈز میں انتہائی جونیئر افسران کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں ان کے علاوہ دوسرے محکموں کے افسران سیاسی اثر رسوخ اور سفارش کی بنیاد پر وہاں کے معاملات چلا رہے ہیں وہ نا کسی کی پرواہ کرتے ہیں نہ قاعدے قانون کی پیروی کرتے ہیں بورڈز کاریگر عملہ ان سے کچھ شکایت نہیں کرتا اوپر سے انہیں آشیرباد حاصل ہے حیران کن بات یہ ہے کہ پانچ تعلیمی بورڈ میں تین برس سے چیئرمین کا عہدہ خالی ہے اور وزیر اعلی سندھ کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ان معاملات پر فیصلے کروائیں اور خالی اسامیوں کو پر کریں نوابشاہ تعلیمی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر فاروق حسن کے خلاف شکایات پر پچھلے چیف سیکرٹری نے کارروائی آگے بڑھائی تھی لیکن موجودہ چیف سیکرٹری نے معاملات کو کچھو ے کی رفتار دے رکھی ہے اور ڈاکٹر فاروق حسن بنیادی طور پر سکر نڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوتے ہوئے نوابشاہ بورڈ کے چیئرمین ہیں ۔سکھر بورڈ میں گریڈ کے19 قائم مقام چیئرمین رفیق احمد معاملات کو دیکھ رہے ہیں اور کرپشن کی سب سے زیادہ شکایات کا محور بننے والا میرپورخاص بورڈ مکمل طور پر چیئرمین برکات حیدری کے تابع کیا گیا ہے ان کے عہدے کی مدت مکمل ہوئے دو برس ہو چکے ہیں اور انہیں حیدرآباد بورڈ کے چیئرمین کے عہدے کا اضافی چارج بھی دے رکھا ہے وہ رہتے حیدرآباد میں ہیں اور میرپورخاص کا بورڈ بھی چلاتے ہیں یہ ساری صورت حال چیف سیکریٹری اور دیگر متعلقہ حکام کی معنی خیز خاموشی اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کے حوالے سے آنکھیں بند رکھنے کی روش کو اجاگر کرتی ہے عدالت نے ریٹائرڈ ، او پی ایس ، دہرا چارج اور ڈیپوٹیشن پر پابندی لگا رکھی ہے لیکن سندھ حکومت کے چیف سیکرٹری محمد سہیل راجپوت اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ وہ اعلی تعلیمی شعبے کے حوالے سے ہونے والی تعیناتیوں
کے معاملے میں دکھا رہے ہیں محکمہ بورڈز اور جامعات کا کردار سوالیہ نشان ہے خود وہاں پر اٹھارہ افسران اور ملازمین اسی انداز سے کام کر رہے ہیں یہی حالات مختلف یونیورسٹیوں میں ہیں ماضی میں گورنر اعلی تعلیم کے معاملات کو دیکھتے تھے صورت حال مختلف تھی جب سے وزیراعلی صوبے میں اعلی تعلیم کے معاملات کی نگرانی کر رہے ہیں مختلف یونیورسٹی اور بورڈز میں بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی شکایات بڑھ گئی ہیں اور صوبے کے ذہین مگر مصروف ترین وزیراعلی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ جامعات اور بورڈ کے معاملات کو درست کرتے پھریں انھوں نے اکثر عہدے اپنے دوستوں میں بانٹ رکھے ہیں اور صوبے کی جامعات اور بورڈز کے حوالے سے خودخواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ان کے دوست سب اچھا ہے کی رپورٹ دیتے رہتے ہیں لیکن زمینی حقائق ان رپورٹوں سے بالکل مختلف ہیں ۔
گزشتہ دنوں آئی بی اے سکھر میں ملازمین کا احتجاج ہوا ، کراچی میں داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی میں ملازمین کا احتجاج جاری ہے ، کراچی میں لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو طویل عرصے سے معطل رکھا گیا ہے لیکن ان کے خلاف لگنے والے جنسی ہراسگی کے الزامات کی حقیقت سامنے نہیں لائی گئی ، لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا اضافی چارج جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر امجد سراج میمن کے حوالے کیا گیا ہے ان پر دو یونیورسٹیز کے معاملات چلانے کا ورک لوڈ بڑھتا جا رہا ہے ان کی اپنی یونیورسٹی میں استاد پر جنسی ہراسگی کے الزامات سامنے آ چکے ہیں ۔ جامعہ کراچی اور دیگر جامعات میں تنخواہ اور واجبات کی ادائیگی کے معاملات میں تاخیر اور ڈائریکٹر فنانس کے معاملات پر ملازمین کا احتجاج سامنے آ چکا ہے آپ جس یونیورسٹی اور جس بورڈ کو ڈسکس کریں وہاں صورتحال ناگفتہ بہ ہے لیکن صوبے کے وزیراعلی کے پاس اتنا وقت تھوڑا ہی ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک یونیورسٹی اور ایک ایک بورڈ کے معاملات دیکھتا پھرے ہاں البتہ کوئی یونیورسٹی اگر دوستی نبھاتے ہوئے وزیر اعلی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کرنے کا اعلان کرے تو تب صوبے کا گورنر اور وزیر اعلی سارے کام چھوڑ کر یونیورسٹی پہنچ جاتا ہے ۔
لاڑکانہ کی یونیورسٹی میں وائس چانسلر کو ہٹانے اور نئی تقرری کرنے کے لئے صوبائی حکومت نے کتنے پاپڑ بیلے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ ایک سابق وزیر اعلی کی صاحبزادی کو یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا نا تھا لہذا باقی سارے امیدواروں کو ریس سے آؤٹ کرنے کی تدبیریں سوچیں گئیں ، کراچی کی ایک یونیورسٹی میں من پسند شخصیت کو وزیراعلی نے وائس چانسلر لگانا تھا تو اس شخص کی تقرری کو عدالت میں چیلنج کرنے والی خاتون پروفیسر کا جینا حرام کر دیا گیا اور ان کی ملازمت پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا خاتون تنگ آکر کینیڈا چلی گئیں۔

لاڑکانہ کی ایک خاتون وائس چانسلر تنگ آکر استفادے کے چلی گئیں۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کی جامعات اور بورڈز کے حالات کیا ہیں ۔ یہ چند واقعات ہیں اور جو طلباء اذیت برداشت کر رہے ہیں وہ اساتذہ اور ملازمین سے بھی زیادہ ہے طالبات کی خودکشی کے واقعات سامنے آ چکے ہیں جنہیں کوئی خود کشی ماننے کے لئے تیار نہیں لیکن سرکاری رپورٹیں کچھ اور ہی کہانی سناتی ہیں اور دنیا سے چلی جانے والی طالبات کے گھر والے سر پیٹتے رہ جاتے ہیں ۔