ایک بہتر دنیا کے لیے بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر


تحریر: زبیر بشیر
=============
“ہمیں کس قسم کی دنیا کی تعمیر کرنی چاہیے اور اسے کیسا بنانا چاہیے” یہ ایک ایسا سوال جو بنی نوع انسان کے سامنے موجود سوالات میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ موجودہ صورت حال میں اس سوال کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس وقت ہماری دنیا کو جن مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے وہ سو برس میں سامنےآنے والے سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔
23 مارچ 2013 کو ماسکو اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز میں اپنی تقریر میں چینی صدر شی جن پنگ نے انہی چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے اظہار خیال فرمایا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم تمام انسان ایک گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں، نہ صرف ہماری تاریخ ہمیں آپس میں جوڑتی ہے بلکہ اس وقت درپیش چیلنجز بھی مشترک ہیں لہذا ہمیں ایک ایسا ہم نصیب معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں سب مل جل کر رہیں اور اپنی کامیابیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کریں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران چینی صدر نے اس تصور کے مفہوم کو مسلسل تقویت بخشی ہے۔ انہوں نے نئے آئیڈیاز اور تصورات کی ایک سیریز کو جنم دیا ہے، جیسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو، گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشیٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشیٹو، ان اقدامات نے دنیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے چینی دانش سے حل فراہم کئے ہیں۔
گزشتہ دہائی کے دوران، بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر کے وژن نے مضبوط قوت حیات اور قبولیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس تصور کے تحت عالمی سطح پر، سائبر اسپیس کا ہم نصیب معاشرہ، جوہری تحفظ کا ہم نصیب معاشرہ، صحت کا ہم نصیب معاشرہ، ترقی کاا ہم نصیب معاشرہ، بنی نوع انسان کے لیے مشترکہ سلامتی کا ہم نصیب معاشرہ اور انسان اور فطرت کے درمیان بقائے باہمی کے حامل معاشرے جیسے اقداما ت کو ترقی ملی۔
اس کے ساتھ ساتھ صدر شی جن پھنگ نے پڑوسی ممالک کا ہم نصیب معاشرہ، ایشیا کا ہم نصیب معاشرہ ، چین-آسیان کا ہم نصیب معاشرہ ، ایس سی او کا ہم نصیب معاشرہ ،ایشیا پیسیفک کا ہم نصیب معاشرہ بنانے کی تجاویر پیش کیں اور انہیں پروان چڑھایا۔ انہوں چین اور افریقہ، عرب ریاستوں، لاطینی امریکی، وسطی ایشیائی اور بحر الکاہل کے جزیروں کے ممالک کے درمیان مشترکہ مستقبل کے حامل معاشروں کے قیام پر بھی زور دیا۔
دو طرفہ سطح پر، چینی صدر نے پاکستان، کمبوڈیا، لاؤس، میانمار، قازقستان، ازبکستان، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور کیوبا سمیت 20 سے زائد ممالک کے رہنماؤں کے ساتھ گہرائی سے تبادلہ خیال کیا، چین اور متعلقہ ممالک کے درمیان ہم نصیب معاشرے کے قیام کی وکالت کی ۔
بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیرکے وژن کی “جڑ” سے نکلنے والے، چینی اقدامات اور تجاویز کا یہ سلسلہ آج تناور درخت بن گیا ہے اور رفتہ رفتہ ایک سائنس پر مبنی نظریاتی نظام کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کی رہنمائی انسانیت کی امن، ترقی، انصاف کی مشترکہ اقدار سے ہوتی ہے۔ ، انصاف، جمہوریت اور آزادی، عالمی شراکت داری اور بی آر آئی کے ساتھ ایک کلیدی پلیٹ فارم کے طور پر تعمیر کرنے پر مرکوز ہے۔ بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر چینی خصوصیات کے ساتھ بڑے ملک کی سفارت کاری کا ایک عمدہ تعاقب ہے۔
چین پرامن ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اس نے ہمیشہ عالمی امن کے تحفظ کے لیے کام کیا ہے۔ یہ مشترکہ ترقی کے راستے پر گامزن ہے اور عالمی معیشت اور ترقی کے لیے اہم معاونت پیش کرتے ہوئے اعلیٰ معیار کے کھلنے کو آگے بڑھاتا ہے۔
بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے ساتھ ایک کمیونٹی کی تعمیر کے علم کو بلند کرتے ہوئے، چین ہمیشہ اپنی ترقی کو تمام انسانیت کی مشترکہ ترقی کے تناظر میں دیکھتا ہے اور اپنے عوام کے مفادات کو دنیا کے تمام لوگوں کے مشترکہ مفادات سے جوڑتا ہے۔ یہ دنیا کے ساتھ اپنے قریبی تعلق کے ذریعے ترقی کرتا ہے اور ساتھ ہی دنیا کو ایک زیادہ خوشحال اور مستحکم جگہ بناتا ہے۔آج بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر تمام ممالک ایک مشترکہ خواہش بن چکی ہے تاکہ ایک ایسی بہتر دنیا وجود میں آسکے جہاں تمام لوگ امن اور سلامتی کے ساتھ رہیں اور ایک دوسرے کی مشترکہ ترقی سے مستفید ہوں۔

===========================