مریم نواز کے ایک جانب مقبولیت اور کامیابی نظر آتی ہے تو دوسری جانب تنہائی اور اداسی چھائی ہوئی ہے ، ایسا کیوں ہے ؟

اگر حالات مریم نواز کو سیاست میں آنے پر مجبور نہ کرتے تو وہ آج کیسی زندگی گزار رہی ہوتیں ؟

آج سے 22 برس پہلے 1991 میں جب ان کے والد محمد نواز شریف پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے تو اس وقت تک خاندان کی خواتین پر سیاست کے دروازے بند تھے اور دور دور تک شریف خاندان کی عورتوں کا سیاست میں آنے کا کوئی امکان نہیں تھا ۔
قیام پاکستان سے کافی پہلے یہ خاندان زمینداری چھوڑ کر محنت مزدوری کی طرف آنکلا تھا اور قیام پاکستان کے بعد فولاد سازی کی صنعت میں اس خاندان نے اپنا خوب نام کمایا جنرل ایوب کے دور میں یہ خاندان ایک مستحکم مالی حیثیت کا مالک بن چکا تھا لیکن بھٹو کی نیشنلائزیشن پالیسی نے دیگر بڑے خاندانوں کی طرح شریف خاندان سے بھی سب کچھ چھین لیا تھا اور یہ خاندان دبئی چلا گیا تھا جنرل ضیاء کے دور میں شریف خاندان کو اپنا کاروبار اور صنعتیں دوبارہ سنبھلنے کا موقع ملا اور پھر پاکستان کی سیاست میں پہلی مرتبہ ایک صنعتکار اور کاروباری شخصیت نے براہ راست سیاست میں قدم رکھا ۔ نوازشریف کو پہلے وزیر خزانہ اور پھر پنجاب کا وزیر اعلی بنا دیا گیا ۔ یہاں سے ایک نئے سیاستدان کے سفر کا آغاز ہوا ۔ 1988 میں جنرل ضیاء کی ایک فضائی حادثے میں اچانک ہونے والی موت کے بعد پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لئے فوجی اسٹیبلشمنٹ نے آئی جے آئی کے نام سے ایک سیاسی اتحاد بنایا لیکن بے نظیر کو وزیر اعظم بننے سے نہ روکا جا سکا ۔ بے نظیر کا مقابلہ کرنے کے لیے نوازشریف تیزی سے ایک قومی لیڈر کے طور پر ابھرے اور جب صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا تو الیکشن کے بعد اگلے وزیراعظم نواز شریف بنے۔ نواز شریف کی پرائیوٹائزیشن سمیت دیگر پالیسیوں نے انہیں تیزی سے مقبولیت دلائی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مقبول لیڈر بن گئے انہوں نے ملک میں موٹروے کی تعمیر سمیت متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے جن سے ان کے مخالفین اپنا مستقبل خطرے میں محسوس کرنے لگے ۔
بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومت دو دو مرتبہ ختم ہوئی ۔
اس دوران بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی لڑائیاں لڑی جاتی رہیں۔
لیکن شریف خاندان کی گھریلو عورتوں کو میدان سیاست میں لانے کے ذمہ دار جنرل مشرف بنے ۔
12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد جب نواز شریف اور ان کے خاندان کے تمام مردوں کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کر دیا گیا تو سب سے پہلے بیگم کلثوم نواز نے کمال بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرف آمریت کو للکارہ اور صحیح معنوں میں لوگوں کے ذہن میں بیگم نصرت بھٹو کی ضیا آمریت کے خلاف جدوجہد کی یاد تازہ کردی ۔

بیگم کلثوم نواز کی سربراہی میں ایک عوامی احتجاجی تحریک شروع ہو تے دیکھ کر جنرل مشرف دباؤ میں آئے اور ایک عالمی معاہدے کے تحت شریف خاندان کو سعودی عرب بھجوادیا گیا ، صرف حمزہ شہباز کو پاکستان میں رکھا گیا ۔

طویل جلاوطنی کے دوران نواز شریف اور شہباز شریف نے باری باری وطن واپسی کی کوشش کی لیکن انہیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی اور سعودی عرب واپس بھجوا دیا گیا ۔
بالآخر بے نظیر بھٹو کے ساتھ لندن میں میثاق جمہوریت پر نواز شریف کے دستخط ہونے کے بعد مشرف حکومت کے دن گنے جاچکے تھے ۔ بے نظیر بھٹو کو پاکستان میں شہید کردیا گیا ان کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار آ گئی ۔نواز شریف نے وطن واپس آکر عدلیہ بحالی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔2013 کے انتخابات میں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوگئے لیکن اس دوران اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کے مقابلے کے لئے پروجیکٹ عمران خان لانچ کر دیا تھا اصل پلان تو عمران خان کو دو ہزار تیرہ کا الیکشن جتوانے کا تھا جو ناکام رہا اور اس ناکامی کا بدلہ لینے کے لیے نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنا دیا گیا اس دوران نواز شریف پر دباؤ ڈال کر اس پر لینے کی کوشش کی گئی لیکن نواز شریف نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا اور ہر طرح کا دباؤ مسترد کر دیا تو پھر پاناما کا بہانہ بنا کر اقامہ پر سپریم کورٹ کے ذریعے نواز شریف کو اقتدار سے محروم کردیا گیا اور ان کی سیاست پر پابندی لگا دی گئی نواز شریف کے ساتھ ان کی بیٹی مریم اور بیٹوں کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ۔اس کٹھن صورت حال میں بھی نواز شریف اپنی بیٹی کے ہمراہ گرفتاری دینے پہنچ گئے لیکن جیل میں بھی ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ۔اگر بیگم کلثوم نواز بیمار نہ ہوتی اور پھر ان کی وفات نہ ہو جاتی تو تب بھی مریم شاید سیاست میں نہ آتیں۔ لیکن جب ماں کی وفات ہوگئی اور باپ کو جیل میں زہر دیے جانے کا انکشاف ہوا تو بیٹی کے لیے بہادری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ۔
ایک نہتی لڑکی ظالموں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان سیاست میں نکل آئی اس کی سچائی پر مبنی تقریروں نے جھوٹ اور فراڈ پر کھڑی کی گئی حکومت کی بنیادیں کھوکھلی کر دیں مریم نواز کو خاموش کرانے کے لیے انتہائی گھٹیا اور شرمناک پلان تیار کیے گئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ان کے بیڈ روم تک پہنچنے کے لئے دروازے کا تالا توڑا گیا اور ان کو Smash کرنے کی دھمکی دی گئی ۔
قدرت کا اپنا انصاف ہوتا ہے تین ساڑھے تین سال تک سیم پیچ سیم پیج سیم پیج کا نعرہ لگانے والے باہر آپس میں لڑ پڑے ۔جنرل باجوہ جنرل فیض اور عمران خان کا ٹرائیکا ٹوٹ گیا ۔ پہلے عمران خان اپنی حکومت سے فارغ ہوئے پھر جنرل فیض بلوچ وقت ریٹائر ہوئے اور پھر جنرل باجوا ریٹائر ہو کر گھر چلے گئے ۔
آج ملک میں مریم کے چچا اور شہباز شریف کی حکومت ہے اور بے نظیر بھٹو شہید کا بیٹا بلاول وزیرخارجہ ہے جب کہ عمران خان اپنے خلاف مقدمات کی پیشیاں بھگت رہے ہیں اور گرفتاری کے بادل ان کے سر پر منڈلا رہے ہیں ۔
دوسری طرف سوال یہ ہے کہ آج مریم کہاں کھڑی ہیں ؟ ان کے ایک طرف کامیابی اور مقبولیت نظر آتی ہے تو دوسری طرف تنہائی اور اداسی چھائی ہوئی ہے ایسا کیوں ہے ؟ (جاری ہے ) ۔۔۔۔۔ تحریر سالک مجید ۔

=============================