کیا حبیب یونیورسٹی نئی سیاسی جماعت بنانے میں سہولت کار بن گئی ہے ؟


کیا حبیب یونیورسٹی نئی سیاسی جماعت بنانے میں سہولت کار بن گئی ہے ؟

شاہد خاقان عباسی ، مفتاح اسماعیل اور مصطفی نواز کھوکھر کا مشن کیا ہے ؟

حبیب یونیورسٹی ان کا کھیل کیوں کھیل رہی ہے ؟

کیا حبیب یونیورسٹی کے صدر واصف اے رضوی خود سیاست میں قدم رکھنا چاہتے ہیں ؟ کیا ان کا اور مصطفیٰ اسماعیل کا ایجنڈا ایک ہے یا دونوں شخصیات اعلی تعلیم اور نوجوان طلبہ کے نام پر

اپنے اپنے کاروبار کو فروغ دے رہی ہیں ؟
دس برس پہلے ایسے ہی ایک پروجیکٹ کو ڈیزائن اور لانچ کیا گیا تھا جو بعد میں اپنے ڈیزائنر کے گلے کی ہڈی بن گیا ۔

اب واصف رضوی کی سربراہی میں حبیب یونیورسٹی اپنا پلیٹ فارم ایسی سیاسی شخصیات کو فراہم کر رہی ہے جو کسی مخصوص لیکن خفیہ ایجنڈے کے تحت آگے بڑھ رہی ہیں نہیں معلوم ان کے پیچھے کون سا ہاتھ کارفرما ہے لیکن یہ تاثر عام ہے کہ ایک اور پروجیکٹ لانچ ہونے والا ہے ۔
=================
ے نہیں لگتا ن لیگ آئندہ انتخابات میں کلین سوئپ کریگی، مفتاح

کراچی – پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ مسلم لیگ (ن) آئندہ انتخابات میں کلین سوئپ کریگی، نہ عمران خان حالات بدل سکتے ہیں، نہ ہی نواز شریف، جب تک ملک میں منظم اصلاحات نہیں لائی جاتیں تب تک کوئی سیاسی رہنما اس نظام کو بہتر نہیں کر سکتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو ڈیجیٹل کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔ ایک سوال کے جواب میں مفتاح نے بتایا کہ وہ اب انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے اور اپنے سیمینارز کے بعد سوچیں گے کہ انہیں زندگی میں آگے کیا کرنا ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ وہ نہ حکومت کا حصہ ہیں اور نہ وہ اب حکومت سے رابطے میں ہیں۔ سیاسی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتاح نے کہا کہ پاکستان نے بہت سے لیڈر دیکھے ہیں، ہم نے مارشل لاء، ہائبرڈ حکومتیں، عمران خان، آصف علی زرداری، نواز شریف، شہباز شریف دیکھے ہیں لیکن ایک چیز جو ہم نے نہیں دیکھی وہ ہے لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی بہتری۔ سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارے پاس اب بھی اسکول جانے والے بچوں کی نصف تعداد اسکولوں سے باہر ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ بڑے ہو کر پڑھے لکھے نہیں ہوں گے اور اگر آپ کی آدھی آبادی پڑھی لکھی نہیں ہے تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وزیر خزانہ کون ہے کیوں کہ اگر نظام ایسے ہی چلتا رہا اس ملک کی معیشت ٹھیک نہیں ہو گی۔ مفتاح نے پاکستان میں لوگوں کے حالات پر افسوس کا اظہار کیا جو ریکارڈ توڑ مہنگائی کے اثرات سے دوچار ہیں، انہوں نے کہا کہ کنزیومر پرائس انڈیکس تقریباً پانچ دہائیوں کے بعد گزشتہ ماہ 31.5 فیصد تک پہنچ گئی جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانی اپنی قوت خرید کھو رہے ہیں۔
==========================
موجودہ سیاسی نظام ملکی مسائل کے حل میں ناکام ہوچکا، شاہد خاقان

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ کوئی ملک امیر نہیں ہوسکتا اگر وہ آئی ایم ایف کے پروگرا م میں رہے گا،ایک فیصد اشرافیہ پاکستان کو کنٹرول کرتا ہے، سابق وزیراعظم، شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجو دہ سیاسی نظام ملکی مسائل کے حل میں ناکام ہوچکا، کوئی سیاسی جماعت اکیلے مسائل حل نہیں کرسکتی ہم سب کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا ہوگا،سابق پرنسپل سیکریٹری ،فواد حسن فوادنے کہا کہ چھوٹے صوبوں کے عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ وہ ریاست کا حصہ ہے،سابق سینیٹر ، مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ سیاست محض اسٹیبلشمنٹ کو راضی کرنے کا ایک کھیل رہا ان ساری چیزوں کے ساتھ ملک آگے نہیں چل پارہا،سابق وزیراعظم، شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمارا کوئی دعویٰ نہیں ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل ہمارے پاس موجود ہے لیکن جو آج ملک کے حالات ہیں اتنے تشویشناک حالات پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ہر پاکستانی یہ بولتا ہے ملک میں کیا ہورہا ہے کیا ہوگا ہر آدمی مشکل میں ہے۔ ہم بھی جب بیٹھتے تھے یہ بات ہوتی تھی ہم نے سوچا کم از کم ایک ایسا فورم ہوجہاں پر ملکی مسائل کی بات غیر جانبدار طریقے سے ہوسکے اور ملکی مسائل کے حل کی تلاش کی کوشش کی جائے۔یہ نظام پاکستان کے مسائل کا حل نہیں دے پایا اور نہ دے سکتا ہے آج ملک کے لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ آج جو سیاسی نظام ہے اس کے اندر وہ صلاحیت وہ قابلیت، اہلیت نظر نہیں آتی کہ وہ ملکی مسائل حل کرسکے۔بات کرنے کا فورم سیاستدان کے لئے عوامی نمائندوں کے لئے پارلیمنٹ ہوتا وہ تو مفلوج ہیں۔ پچھلے تقریباً پانچ سال سے پاکستان کی عوام کے مسائل پر بات چیت ان اسمبلیوں میں نہیں ہوئی۔یہاں سیاست آج نفرت میں دشمنی میں بدل گئی ہے سیاست ایک دوسرے کو گالی دینے کا نام ہے۔پارلیمانی آداب پارلیمانی روایات کو تباہ کردیا ہے جب یہ حالات ہوں گے تو پاکستان کے مسائل کی بات تو نہیں ہوسکے گی۔ہم نے آئین پر عمل نہیں کیا تو آئین بیچارہ تو کچھ نہیں کرسکتا۔کوئی سیاسی جماعت اکیلے مسائل حل نہیں کرسکتی ہم سب کو مل بیٹھ کر ان مسائل کا حل نکالنا کرنا ہوگا۔ سابق پرنسپل سیکریٹری ،فواد حسن فوادنے کہا کہ پاکستان کے مسائل بڑے سادہ ہیں اور سامنے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی معیشت ہے دوسرا سب سے بڑا مسئلہ وہ پاکستان کے معاشرت کی تقسیم ہے۔لوگوں میں جتنا کٹاؤ پیدا ہوگیا کوئی بھی معاشرہ اس تقسیم کے ساتھ باقی نہیں ر ہ سکتا ۔اس معاشرے کے ساتھ اور اس ریاست کے ساتھ جو آپ آخری ظلم کرسکتے تھے وہ یہ تھا کہ اس کی عوام کو درمیان میں سے پاٹ دیں وہ ہم نے کردیا ہے اس تقسیم کے ساتھ ہم آگے نہیں چل سکتے۔ ہمیں احساس کرنا چاہئے کہ فالٹ لائن کو درست کریں۔اس معیشت کے بارے میں جو یہ بات ہورہی ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام سائن ہوجائے گا تو اس کے مسئلے کا حل ہوجائے گا۔ یہ ڈیڑھ بلین ڈالر کا انجکشن اور کچھ دوست ممالک سے امداد آگئی تو وہ وقتی طور پر شاید مزید ہماری جو اشرافیہ ہیں ان کے لئے زندگی کا کچھ سامان پیدا کردے لیکن جو 22 کروڑ عوام کے مسائل کا حل ہے وہ اس سے مطمئین نہیں ہونے لگا۔اس کے لئے اس نظام میں بنیادی تبدیلی کی اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔اس کے لئے ایک ایسے structural reform کی ضرورت ہے جو آج کی موجودہ صورتحال سے مطابقت رکھتی ہو۔گلہ سب کرتے ہیں ہمیں بیورو کریسی کام نہیں کرنے دے رہی ۔معیشت کا بنیادی دھارا اس وقت تک نہیں مڑے گا جب تک حکومت وسائل کا رخ عوام کی طرف نہیں موڑے گی۔گورننس کے کنٹریکٹ کو بھی دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے۔ٹیکس کی ہماری صلاحیت اتنے زیادہ اخراجات برداشت نہیں کرسکتی۔سوشل کنٹریکٹ جو آئین نے طے کیا ہے اس کو دوبارہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ریاست کا تعلق عوام کے ساتھ جوڑنا ہوگا چھوٹے صوبوں کو قوت، یقین چاہئے۔چھوٹے صوبوں کے عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ وہ ریاست کا حصہ ہے۔ہمارا مقصد سیاسی جماعتوں کو ان کے منشور اور مسائل کی طرف توجہ دلانا ہے۔ سابق وزیر خزانہ، مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ایک فیصد اشرافیہ پاکستان کو کنٹرول کرتا ہے یا پاکستان اس کے مفادکے لئے چلتا ہے ۔آج جو معیشت کی تباہی آئی ہے اس سے متوسط طبقہ بھی پریشان ہوگیا ہے۔ پاکستان میں60 فیصد لوگ ایسے ہیں جن کی خاندانی آمدنی چھ لوگو ں کی40 ہزار سے کم ہے ۔

========================
قوم 2018 کے انتخابات کا خمیازہ آج تک بھگت رہی ہے، خواجہ آصف

سیالکوٹ- وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے پوری قوم2018کے عام انتخابات کا خمیازہ آج تک بھگت رہی ہے، اسوقت کے تمام کردار آہستہ آہستہ قوم کے سامنے آ رہے ہیں، ہمارے معاشرے میں اخلاقیات اور معاشرتی اقدار تباہ ہو چکی ہیں، اس سلسلہ میں پچھلے پانچ سال میں شدت دیکھنےمیں آئی ہے،اس روش کو روکنے کیلئے اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔پچھلے 4 سال میں جومعاشی تباہی کی گئی جسکی وجہ سے آج ملک مشکلات کا شکار ہے۔ تحریک انصاف کی ناقص معاشی پالیسیوں سے متاثرہ ملکی معیشت کو بہتری کی جانب گامزن کرنے کیلئے اقدامات جاری ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سیالکوٹ میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر دفاع نے بار ممبران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء عظیم روایات کے امین اور عدلیہ کے محتسب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیڈر کا کردار قابل تقلید ہوتا ہے، قائد اعظم کا بحیثیت لیڈر کردار قابل تقلید تھا ،لوگوں کو انکا اخلاق پسند تھا، انہیں یقین تھا کہ یہ ڈیلیور کرینگے۔ آج کل کے سیاسی لیڈران میں سچ جھوٹ کی تقریق ختم ہو گئی ہے۔
========================