اندھیرا ہی اندھیرا ہے

ڈاکٹر توصیف احمد خان
===================

مذہبی معاملے پر مشتعل ہجوم نے ایک اور شکار کیا۔ یہ واقعہ ننکانہ صاحب شہر میں ہوا۔ وارث نامی ایک شخص دو سال جیل میں گزارنے کے بعد اپنے آبائی شہر ننکانہ صاحب واپس آیا ہوا تھا۔ وارث کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عملیات وغیرہ کیا کرتا تھا۔

اس پر مقدس اوراق کی توہین کرنے کا الزام لگا‘ لوگوں کے ساتھ تکرار ہوئی تو ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ پولیس ملزم کو تھانے لے گئی، اس دوران ہجوم مشتعل ہو گیا اور اس نے تھانے پر حملہ کیا۔

ننکانہ صاحب کے پولیس کے اعلیٰ افسر کا کہنا ہے کہ 800 افراد پر مشتمل ہجوم نے تھانے پر حملہ کیا، اس وقت ننکانہ صاحب کے وار برٹن تھانے میں ڈی ایس پی، ایس ایچ او سمیت 50 پولیس والے موجود تھے۔ تھانہ میں اسلحہ بھی موجود تھا مگر ڈی ایس پی ، تھانہ کے ایس ایچ او اور پچاس کے قریب پولیس والوں نے مشتعل ہجوم کو چینلج نہیں کیا۔
ہجوم نے وارث کو تھانے سے نکالا ، اس پر تشدد کیا اور پھر لاش کو نذرآتش کیا۔ جب اس واقعے کی خبر ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی سرخیوں میں تبدیل ہوئی تو لاہور اور اسلام آباد کی حکومتیں متحرک ہوئیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پیش رو وزرائے اعظم کی طرح محض واقعے کی رپورٹ طلب کرنا ہی کافی سمجھا اور پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے واقعے کی تحقیقات کے احکامات جاری کیے تو پولیس کے اعلیٰ حکام ننکانہ صاحب پہنچے۔

پولیس حکام نے اپنی روایت پر عمل کرتے ہوئے کچھ افسروں کو معطل کیا۔ اب پولیس حکام دعویٰ کررہے ہیں کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ملزمان کی شناخت جاری ہے مگر پولیس حکام نے ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لیے نامعلوم افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا۔ 60 کے قریب افراد کو حراست میں لے لیا گیا، پولیس حکام نے ایک شہری کی درخواست پرمقتول وارث علی پرمقدس اوراق کی بے حرمتی کا مقدمہ درج کیا ہے۔

وارث کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت اس ملک کا پہلا ایسا واقعہ نہیں ہے البتہ رواں سال کا پہلا واقعہ ہے۔ جس دن ننکانہ صاحب میں یہ واقعہ ہوا ، اسی دن ایک سال پہلے خانیوال میں ایک ذہنی امراض میں مبتلا شخص کو مقدس اوراق کی بے حرمتی کرنے پرمشتمل ہجوم نے تشدد کر کے مار دیا تھا۔

اس سے قبل دسمبر 2021میں سیالکوٹ میں فٹ بال بنانے والی فیکٹری کے سری لنکن منیجر کو ایک ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کردیا تھا۔

خیبر پختون خوا کے شہر مردان میں ولی خان یونیورسٹی میں 2017ء میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان کو یونیورسٹی کے طلبہ وملازمین پر مشتمل ہجوم نے بے دردی سے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا تھا۔

ان واقعات کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ سازشی لوگ اپنے مخالف سے انتقام لینے کے لیے مذہب کا کارڈ استعمال کرتے ہیں۔اس میں کسی قسم کی مذہبی تفریق نہیں کرتے ، یوں مرنے والا مسلمان بھی ہوسکتا ہے اور غیر مسلم بھی۔

پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی بنیاد سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں رکھ دی گئی تھی مگر جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں افغان پروجیکٹ کو کامیاب کرنے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جانے لگا۔

امریکی سی آئی اے کے ماہرین نے افغانستان کی انقلابی حکومت کو ختم کرنے کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار اپنایا۔ ادھر ایران میں آیت اﷲ خمینی کے انقلاب سے مسلکی اختلافات جلا پانے لگے ، یوں پاکستان میںصرف دینی مدارس میں ہی انتہا پسندی کو فروغ نہیں ملا بلکہ اسکولوں‘کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی نصاب میں مذہبی مواد شامل کیا گیا۔

مذہبی مواد صرف مذہبی مضامین تک محدود نہ رہا بلکہ اردو ، انگریزی ، سندھی، پاکستان اسٹڈیز اور تاریخ کے علاوہ سائنس کے مضامین میں بھی شامل ہوا۔ سی آئی اے کا پروجیکٹ تو گزشتہ صدی کے اختتام تک پایہ تکمیل کو پہنچا مگر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حامی بااثر اور خوشحال طبقے کو مذہبی انتہا پسندی کی صورت میںسیاسی ہتھیار مل گیا، جب ملک میں انتخابی سیاست شروع ہوئی تو یہ بااثر گروہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار کی منتقلی میں کردار ادا کرنے لگا۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت نے ملک میں رواداری ، برداشت جیسے سماجی رویوں کے احیاء کے لیے ایک پالیسی مرتب کی ، مگر جنرل پرویز مشرف نے قیامت تک حکومت کرنے کی خواہش کی تکمیل کے لیے ان مذہبی انتہا پسند گروہوں سے اتحاد کیا۔

یہی وجہ تھی کہ جب بھی پرویز مشرف حکومت نے روشن خیالی کے حوالے سے کچھ پالیسی اقدامات کیے ،جنرل پرویز مشرف کے سب سے بڑے حامی اور اقتدار میں شراکت کار چوہدری برادران جیسے رہنماؤں نے ان اقدامات کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔

بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے اعانتی استاد کو ایک جھوٹے مقدمہ کا دفاع کرنے والے انسانی حقوق کے کارکن راشد رحمٰن کو ملتان میں قتل کیا گیا تو وزیر اعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف محض تعزیت تک محدود رہے۔

پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے بچوں پر دہشت گردی کے بعد ایک ایکشن پلان تیار ہوا مگر بعد میں برسر اقتدار آنے والی عمران خان کی حکومت نے اس ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں کیا، یوں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں۔

پاکستان میں مختلف طریقوں سے مذہبی معاملات کو اچھال کر عوام کو اشتعال دلایا جاتا ہے۔ ان طریقوں میں کسی شخص کو مذہبی بنیاد پر جھوٹے مقدمہ میں ملوث کرنا ، مشتعل ہجوم کا ملزم کو ہلاک کرنا ، کسی فرقہ کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ، خودکش حملہ آور کا کسی عسکری یا پولیس لائن پر حملہ کرنا یا کسی سیاسی جماعت کے جلسے کو نشانہ بنانا شامل ہیں۔

ان واقعات کی رپورٹیں بین الاقوامی میڈیا میں شایع ہوئیں مگر ان معاملات میں اعلیٰ حکام خاموشی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اورزیادہ تر ملزمان باعزت بری ہوجاتے ہیں۔

یوں مذہبی جنونیت کو تقویت ملتی ہے۔ مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کرنے والے کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ انتہا پسندی اسٹیبلشمنٹ کا ہتھیار ہے مگر اب ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ محض مذہبی انتہا پسندی کی مذمت کرنے یا چند افسران کو معطل کرنے سے یہ انتہا پسندی ختم نہیں ہوگی بلکہ پوری ریاست کی ساخت کو تبدیل کرنے سے یہ عفریت قابو میں آئے گا۔

معروضی حالات ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی بھی منتخب حکومت یہ کام نہیں کرسکتی، اسٹیبلشمنٹ کے پالیسی ساز اداروں کے ’’ محبِ وطن افسران ‘‘ اگر مذہبی انتہا پسندی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے نقصانات کی اہمیت کو سمجھ جائیں تو پھر تمام ریاست ادارے اس عفریت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات پر متفق ہوسکتے ہیں، ورنہ اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

https://www.express.pk/story/2442453/268/
================