جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے صحافت کا تاج نادر شاہ عادل اِن دنوں شدید علیل ہیں


—————————

تحریر: اطہر اقبال
—————————

* صحافتی دنیا کے تاج نابِغَہ روز گار شخصیت جناب نادر شاہ عادل ان دنوں شدید علیل ہیں ، راقم الحروف کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ جناب نادر شاہ عادل اور اردو زبان کے مقبول ترین کرکٹ تبصرہ نگار جناب منیر حُسین مرحوم کی سر پرستی میں کام کیا ہے اُس زمانے میں ماہنامہ فلم ایشیا جیسے مشہور فلمی رسالے کا میں نائب مُدیر تھا ، پبلشر اور منیجنگ ایڈیٹر جناب مُنیر حُسین اور مُدیر جناب نادر شاہ عادل تھے جِن سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ، نادر شاہ عادل صاحب کو اردو اور انگریزی زبانوں میں عبور حاصل ہے جب کہ بلوچی ان کی مادری زبان ہے ، میں نے کئی بار انھیں اردو اور انگریزی میں بہت خوب صورت اور انتہائی دھیمے لہجے میں گفت گو کرتے سُنا ہے ، اِن دونوں جناب نادر شاہ عادل صاحبِ فراش ہیں ، کم زوری ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہی اور آگہی کا درد اتنا زیادہ ہے کہ جینا محال ہے ، اپنے اردگرد سے بے خبر شخص کے لیے تو جینا بہت آسان ہے مگر جَب سوچنے ، سمجھنے ، پرکھنے اور مکمّل انسانی شعور کے ساتھ جیا جائے تو معاشرہ ایسی چال چلتا ہے کہ جہاں مضبوط شخص بھی ہمت ہار جاتا ہے چاہے یہ زمانہ عارضی ہی کیوں نہ ہو بحر حال اس صورتِ حال سے کبھی نا کبھی سامنا کرنا ہی پڑتا ہے ، جناب نادر شاہ عادل کی ناسازی طبع کا سُن کر اُن کی خیریت دریافت کرنے مجھ سمیت
معروف صحافی اور ماضی کے شعلہ بیاں مُقرٌرِ جناب خورشید احمد ،معروف کالم نگار اور سابق سینیئر ڈائریکٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی جناب بشیر سدو زئی ، بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کونسل سیکرٹریٹ کی ایڈیشنل ڈائریکٹر زینت بلوچ ، کراچی کے حوالے سے معلوماتی مضامین اور کتابیں لکھنے والی بہت ہی شفیق اور نئی نسل سے محبت کرنے والی بزرگ شخصیت جناب رمضان بلوچ ، صحافی اور کالم نگار جناب شبیر احمد اَرمان اور سماجی رہنما جناب برکت ملک رئیسی نے جناب نادر شاہ عادل کے گھر جا کر اُن کی خیریت دریافت کی ، گذری کراچی میں واقع ان کے نعمت کدہ میں حاضری دی ۔ اس ملاقات میں ہر چند کہ شاہ جی ہشاش بشاش نہیں تھے البتہ جسمانی حالت ایسی تھی کہ انھیں بیٹھنے کے لیے سہارے کی ضرورت پڑی ، ہم سب نے شاہ جی کی طبیعت معلوم کی ، حسب عادت شاہ جی نے چہرے پرمسکراہٹ لاتے ہوئے ہم سب سے ہاتھ ملایا ، اس ملاقات میں شاہ جی نے نحیف آواز اور اپنی چشمِ نَم سے اپنی بیماری اور کچھ یادوں کا تذکرہ کیا جسے سُن کر ہم سَب کا ہی کلیجہ منہ کو آگیا اور آنسو بھی جیسے آنکھوں میں ٹھہرنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ، شاہ جی ہم سَب کو دیکھ کر گویا پھر سے جی اٹھے تھے بالکل فیض کے اس مصرع کی طرح

جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

جناب نادر شاہ عادل نے اپنی بھرپور صحت مند زندگی کے پچیس سال جس اخبار کے لیے کام کیا انھیں جناب نادر شاہ عادل کو اَب تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے ، انھیں آگے بڑھ کر اپنا اخلاقی اور انسانی رشتہ نبھانا ہوگا ، ہم سب جناب نادر شاہ عادل کی مکمل صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سَب کو اپنی امان میں رکھے اور صحت مند زندگی عطا فرمائے آمین –
=============