معمارِ پاکستان ہاکی کرنل علی اقتدار شاہ-مرحوم


تحریر: مسرور احمد مسرور

16 جنوری کو ان کی 42 ویں برسی منائی جا رہی ہے
)پہلا حصہ(

پاکستان ہاکی کی تاریخ میں علی اقتدار شاہ دارا مرحوم کا نام اس لحاظ سے سب سے اہم اور معتبر مانا جاتا ہے کہ انھوں نے قیام پاکستان کے بعد سے اپنی زندگی کی آخری سانس تک خود کو پاکستان ہاکی کی ترقی اور اس کے فروغ کے لیے وقف کیے رکھا، ان کی پاکستان ہاکی کے لیے ناقابل فراموش خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا، جس پر انھیں بابائے ہاکی کے خطاب سے نوازا گیا۔ ہم اگر انھیں معمارِ پاکستان ہاکی اور محسنِ پاکستان ہاکی کے نام سے بھی یاد کریں تو غلط نہ ہوگا۔
آپ یکم اپریل 1915 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ کم عمری میں ہی ہاکی کھیلنے کا سلسلہ شروع کیا۔ شروع میں گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں ہاکی کھیلی، پھر کچھ عرصے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہاکی کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس طرح وہ ہاکی کے میدان میں اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہاکی کے حلقوں میں نمایاں ہوتے چلے گئے اور ایک وقت وہ آیا کہ انھیں 1936 کے برلن اولمپکس کے لیے ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔


یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پہلے ڈکی کار کو منتخب کیا گیا لیکن اس لیے ڈراپ کر دیا گیا کہ ناگپور بنگال ریلویز جہاں وہ ملازمت کر رہے تھے انھیں چھٹی دینے سے انکار کردیا گیا۔ ڈکی کار کی کی جگہ علی اقتدار شاہ کو منتخب کرلیا گیا۔ لیکن انھیں بھی برٹش انڈین آرمی نے چھٹی دینے سے انکار کردیا تھا۔ غیر منقسم انڈیا کی ٹیم کو پہلے پریکٹس میچ میں 4-1 سے شکست ہوئی، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے دارا کو فوری طور پر بلایا گیا، جس کا ٹیم کو بہت فائدہ ہوا۔ دارا مرحوم نے اپنے خوب صورت کھیل سے اپنی ٹیم کو زبردست کامیابی سے ہمکنار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح دارا مرحوم نے پہلی بار اولمپک کھیلوں میں شرکت کا اعزاز حاصل کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا جو انھوں نے ہٹلر سے وصول کیا، بعد میں 1940 اور 1944 میں دوسری جنگ عظیم کے سبب اولمپک گیمز منعقد نہ ہو سکے، البتہ دارا مرحوم پنجاب کی طرف سے ہاکی کھیلتے رہے اور ٹیم کی نمایندگی کے ساتھ ساتھ ٹیم کی قیادت کے فرائض بھی انجام دیے۔ قیام پاکستان کے بعد لندن اولمپک گیمز 1948 میں منعقد ہوئے جس میں پہلی بار پاکستان ہاکی ٹیم نے علی اقتدار شاہ دارا مرحوم کی قیادت میں حصہ لیا۔ اس طرح انھیں پاکستان کی پہلی اولمپک ٹیم کی قیادت حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اور دوسرا اعزاز انھیں دو ممالک کی طرف سے اولمپک کھیلنے والے پہلے کھلاڑی کا حاصل ہوا۔
1948 کے لندن اولمپکس میں شرکت کے بعد ہاکی کھیلنے کا سلسلہ ختم کیا اور خود کو ہاکی کے میدان میں بحیثیت استاد، منتظم اور مشیر وابستہ کیے رکھا۔ 1952 میں پاکستان ٹیم جس وقت ہیلسنکی سے ناکام واپس لوٹی تو عوام اور خواص کی جانب سے زبردست ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ 1952 اولمپکس مقابلوں میں ہاکی ٹیم کی شکست نے اسباب کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بنائی۔ ہاکی کے کھیل کو تاب ناک بنانے کے سلسلے میں اس کمیٹی نے جو لائحہ عمل مرتب کیا، اس پر عمل کرنے کے بعد پاکستان ہاکی ٹیم نے کامیابیوں کی جانب اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس تحقیقاتی کمیٹی میں دارا مرحوم ایک اہم رکن کی حیثیت سے شامل رہے اور پاکستان ہاکی کی نیّا پار لگانے کے سلسلے میں ان کی تجاویز کو بے حد سراہا اور قابل عمل قرار دیا گیا۔


1956 ملبورن اولمپکس کے لیے پاکستان ہاکی ٹیم کو تربیت دینے کی ذمے داری دارا مرحوم نے اتنی خوش اسلوبی سے انجام دی کہ جس پاکستان ہاکی ٹیم نے 1948 اور 1952 کے اولمپک مقابلوں میں چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی وہ دوسرے نمبر پر آگئی اور پہلا اولمپک میڈل جو سلور میڈل تھا، حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
1956 ملبورن اولمپکس مقابلوں میں پاکستانی ہاکی ٹیم فائنل میں بہت سخت مقابلے کے بعد ہار گئی اور سلور میڈل حاصل کرسکی، یہاں دارا مرحوم کی کوچنگ کو کریڈٹ نہ دیا جائے تو سخت ناانصافی ہوگی، کیوں کہ پاکستان ہاکی ٹیم نے 1956 میں پہلا اولمپک تمغہ حاصل کیا جو چاندی کا تھا۔ 1960 سے 1964 یعنی پانچ سال تک اے آئی ایس دارا مرحوم ٹیم کے منیجر کی حیثیت سے اپنے فرائض پوری تن دہی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ 1960 کے روم اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم نے پہلی بار اولمپک کا طلائی تمغہ حاصل کیا۔ اس ٹیم کے منیجر دارا مرحوم تھے۔ اس طرح انھیں پہلے ایسے منتظم ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جن کی نگرانی میں پاکستان نے پہلا طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 1964 ٹوکیو اولمپکس میں بھی آپ ٹیم کے منیجر کی حیثیت سے ٹوکیو تشریف لے گئے، جہاں پاکستان نے دوسری پوزیشن حاصل کرکے دوسری بار چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔
1962 میں جس ٹیم نے جکارتہ میں منعقدہ ایشیائی کھیلوں میں حصہ لیا، اس ٹیم کے منیجر بھی دارا مرحوم ہی تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی دوسرے بین الاقوامی مقابلوں میں دارا مرحوم نے بہ حیثیت منتظم فرائض انجام دیے۔
علی اقتدار شاہ دارا مرحوم کی ہاکی کے میدان میں زبردست خدمات کو بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی حاصل ہوئی اور انھیں 1960 میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کا نائب صدر منتخب کیاگیا۔ اس طرح آپ پہلے پاکستانی تھے جنھیں ایشیائی اور عالمی مقابلوں میں ٹیکنیکل ڈیلیگیٹ مقرر کیا گیا۔ انھوں نے میکسیکو اولمپکس 1968 اور مانٹریال اولمپکس 1976 میں ٹیکنیکل ڈیلیگیٹ کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ اس کے علاوہ ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ منعقدہ بارسلونا میں ڈائریکٹر اور تیسرے ورلڈ کپ منعقدہ ملائیشیا میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے نائب صدر کی حیثیت سے اپنی ذمے داریاں پوری کیں، دارا مرحوم کو آئی ایچ ایف کے تمام بورڈز اور کمیٹیوں کے رکن رہنے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔
انھوں نے اپنی پوری زندگی ہاکی کے کھیل کی نذر کردی اور ہاکی کے میدان میں پاکستان ہاکی کی شکست کا صدمہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا، اور 16 جنوری 1981 کو وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔
)جاری ہے(
==========================