تدریسی خدمات کے حوالے سے اسلامیہ کالج کا تاریخی پس منظر اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہزاروں طلبہ کا احتجاج ، قانونی پہلو اور حکومت کی ذمہ داریاں


کراچی کے تاریخی اسلامیہ کالج کو عدالتی حکم پر دوبارہ پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کے فیصلے کے حوالے سے احتجاج سامنے آرہا ہے کیونکہ غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہزاروں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے اسلامیہ کالج کی تاریخی اور وسیع و عریض عمارت کے اندر چار کالج اور چار اسکول موجود ہیں جہاں مجموعی طور پر سات ہزار کے لگ بھگ طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں ،

عدالت میں تقریبا 22 سال سے اس کالج کی ملکیت کے معاملے پر کیس چل رہا تھا پرائیویٹ پارٹی کے وکیل مرید علی شاہ نے موقف اختیار کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والی نیشنلائزیشن کی وجہ سے یہ ادارہ سرکاری تحویل میں لیا گیا تھا اب ملک میں نیشنلائزیشن کی پالیسی ختم ہو چکی ہے لہذا اس ادارے کو پرائیویٹ پارٹی کو واپس کیا جائے یہ معاملہ پہلے سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے


دونوں عدالتوں میں پرائیویٹ پارٹی کے حق میں فیصلہ آگیا اور انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ اس کا کنٹرول پرائیویٹ پارٹی کو دے دیا جائے لیکن کالج انتظامیہ اور طلباء کا احتجاج رکاوٹ بنا اور پولیس کو احتجاجی طلبہ پر لاٹھی چارج اورگرفتاریاں کرنی پڑی بعد میں انہیں رہا کردیا گیا عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے توہین عدالت کا معاملہ بھی کھڑا ہوا اور عدالتی عملے نے اپنی رپورٹ عدالت کو جمع کرادی ۔
دوسری طرف مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی احتجاج کرنے والے طلبہ کے حق میں باہر نکل آئیں اور ان کا موقف ہے کہ عدالت میں سندھ حکومت کے وکلاء نے اس کیس کو سنجیدگی اور مضبوطی سے نہیں لڑا جس کی وجہ سے فیصلہ پرائیویٹ پارٹی کے حق میں آیا ۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ کو سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کرنے چاہیے اور اس وقت تک کالج میں تعلیمی اور تدریسی عمل کو متاثر کئے بغیر طلبہ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے اقدامات ہونے چاہیے ۔

احتجاجی عمل کے دوران سیکرٹری تعلیم سندھ عبدالعلیم لاشاری اور ایس ایس پی پولیس سمیت متعلقہ حکام نے بھی اسلامیہ کالج کا دورہ کیا اور انتظامیہ سے کالج پرنسپل اور دیگر کی بات چیت ہوئی ۔
طلباء والدین اور اساتذہ کا موقف ہے کہ تاریخی اسلامیہ کالج کو حکومت اپنی تحویل میں رکھے اور خود اس کو چلائے اور طلبہ کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے اقدامات کیے جائیں عدالتی فیصلے کا سب کو احترام ہے لیکن یہ دیکھا جائے کہ ان طلبہ کے

مستقبل کو اور اس تاریخی درسگاہ کو پرائیویٹ ہاتھوں میں جانے کے بعد ٹوٹنے سے کیسے بچایا جا سکتا ہے ایسا نہ ہو کہ پرائیویٹ پارٹی کے پاس جانے کے بعد یہ کالج بند کر دیا جائے اور اسے بلڈر کے حوالے کر دیا جائے اور یہاں پر تعلیمی اتدری سی عمل ختم کرکے رہائشی اور کمرشل پلازہ تعمیر کر دیا جائے ۔
صوبائی وزیر تعلیم اور دیگر متعلقہ حکام کو ان خدشات قبول کرنا چاہیے ۔
گورنر سندھ اور وزیراعلیٰ سندھ کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔

===================================